کرسمس کی تعطیلات میں اس بار"گم گشتہ" دوستوں سے ملاقات رھی۔ کوئی نیویارک سے آیا،کوئی کیلی فورنیا اور کوئی سے کینڈا سے آیا ۔۔۔۔۔ کیا ہنگامہ رہا۔۔۔۔۔ بس مت پوچھیے۔ اس پر سونے پرسہاگہ میرے پچپن کے لنگوٹیا یار بھی پاکستان سے " نازل" ھو گئے۔ میرے لیے ان کا میرے گھر تشریف لانا باعث رحمت اور خوشی کی بات تھی۔ ان کے پرانی ضدی اور آمرانہ اداؤں سے میرے دیگرمہماناں گرامی محظوظ ھوتے رھے اور میں پریشان اور شرمندہ ھوتا رہا۔ ان کا نام اس لیے آپ کو نہیں بتا رہا کیونکہ ان کے " جلال " سے مجھ کو خوف آتا ھے۔ میں نے اپنے تمام مہمانوں کے ساتھ ٹیکساس کے شہر ڈیلاس شہر کی سیر کراوئی۔ دو روز ان کو جارج بش کا کتب خانہ، صدر جے ایف کینڈی کا مقام قتل، روایتی چینی چراغاں، میری ہنٹ پل، دکھایا اور ڈیلاس کے ایک بڑے مال (MALL) خریداری کروائی۔
میرے پاکستان سے آئے ھوئے جگری دوست پہلی بار امریکہ آئے تھے۔ ھم نے ان کو " مہمان خصوصی" کا درجہ اور احترام و عزت دی۔ ابھی ان کو امریکہ کی زمین پر پاؤں رکھے چار گھنٹے بھی نہیں ھوئے تھے۔ فرمانے لگے۔۔" یار دال چاول کھلاؤ"۔۔ پھر صبح سویرے ناشتے سے قبل کہنے لگے۔۔" میں تو ہر روز ناشتے میں ملائی کی ساتھ پراٹھہ کھاتا ھوں"۔۔ میں نے کہا جناب آپ صرف ایک ڈیرہ ہفتے کے لیے امریکہ آئے ہیں ٹیکساس کے کھانے کھائیے، میکسیکن اور اطالوی پکوانوں کا لطف اٹھائیے۔ مگر میں انھیں قائل نہ کرسکا۔ بحرحال ان کی تمام فرمائشیں پوری کردی گیں۔ ان کو خوش رکھنا میرا روایتی اور مذھبی فریضہ تھا۔ جسکا انھوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ لہذا انکو مزید خوش کرنے کے لیے ڈیلاس کے ایک دیسی ، "جتنا آپ کھا سکتے ہیں" /ALL YOU CAN EAT/ والے ریسٹورنٹ میں لے گیا جہان انھوں نے جی بھر کر قورمہ، پائے ، نہاری، حلیم، بریانی، اچار گوشت، کڑاھی گوشت،چکن تکہ، پالک پنیر،دھی پھلکی، چھولے، گلاب جامن، شاھی
ٹکڑے اور زعفرانی خوشبو دار پان کھایا۔ اور ایک گلاس دھی کا رائتہ پی کر دو گھنٹے گاڑی میں بھیانک قسم کے خرانٹے لیتے رھے اور تیں روز تک ھماری " مہمان بھابیوں' سے کھٹی دال،چاول، گولہ کباب، اور پراٹھے پکواکر ھم کو شرمندہ کرتے رھے۔ محترم کو چائے بنانا بھی نہیں آتی تھی۔
آج انھیں ھوائی اڈے پر الودع کہ کر آیا ھوں۔ ایرپورٹ کی لابی میں ایک ویسٹرن اسٹور کے سامنے رک کر بڑی معصومیت سے اپنی آخری فرمائش کردی۔۔" یار سھیل۔۔ یہ "کاؤبوائے بوٹ" (COW BOY BOOTS) پاکستان میں آسانی سے نہیں ملتے، یہ دلوادو' ۔۔۔ میں نے کہا، ' آپ حکم کریں'کاؤ بوائے بوٹ' کیا چیز ھے۔
آپ کے لیے تو جان بھی حاضر ھے۔"
موصوف جاتے ھوئے یہ دھمکی دے گئے ہیں کہ " اگلے سال پوری ایک ماہ کے لیے میرے پاس آئین گے۔ اور میرے پاس قیام کریں گے۔' میں نے کہا ،ضرور، آپ کو گھر ھے، جب بھی آئیں سرآنکھوں پر۔۔۔"
آپ کا انتطار رھے گا۔' اور پھر وہ دوڑتے ھوئے طیارے میں سوار ھوگئے۔ میں نے سوچا اب ایرھوسٹس کی خیر نہیں۔۔۔۔ آپ بھی ان کی میزبانی کرسکتے ہیں۔ بس مجھے اطلاع دے دیجیے گا ۔۔۔۔۔
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...