اگر ہم سب مل کر کوشش کریں تو کچھ بھی نا ممکن نہیں ہمہاری ایک چھوٹی سی کوشش سے بہت سی زندگیوں کو اچھا مستقبل بن سکتا آئیں اور سب اس بدلاو کا حصہ بنیں_ضروری نہیں ہر بات کا ذمہ دار ہم دوسروں کو ٹھہرائیں اس سسٹم میں رہنا والا ہر انسان اگر ذمہ دار بن کے اپنا فرض نبھائے تو مجھے امید ہے کسی اچھے حکمران کے آنے کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا کیوں کہ اللّه پاک نے خود فرمایا ہے :جو قوم اپنی مدد آپ نہیں کر سکتی وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی_
اس لئے سب سے پہلے ہمیں اپنے بچؤں کو تعلیم یافتہ اور ذمہ دار بنانا ہو گا سب سے پہلا قدم ہمارا غریب گھر کے بچے جو کم آمدنی ہونے کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر سکتے ان کی مختلف طریقوں سے مدد کر سکتے ہیں
سب سے پہلا طریقہ یہ ہے کہ جو بچے بے روز گار سڑکوں پر بھیک مانگتے ہیں ان کے ہاتھوں میں قلم دینا ہو گا تا کہ وہ اپنا آنے والا مستقبل لکھ سکیں اور یہ کیسے ہو گا یہ ہم سب کے مل کر ساتھ چلنے سے ہو گا جب ہم راستے میں جاتے ہوۓ بچے کے ہاتھ پیسوں کی جگہ کھانا اور کتاب دیں گے تو اس کے بہت سے فائدے ہونگے ایک تو جو لوگ بچوں سے اپنے فائدے کے لئے مانگنے والا کام کرواتے ہیں وہ کم ہو جاۓ گا بلکہ جو بچے پیسوں کو غلط کاموں میں خرچ کر کے اپنی زندگی کو نشے اور باقی چیزوں میں تباہ کرتے ہیں وہ سلسلہ آہستہ آہستہ تھم جاۓ گا کیوں کہ وہ سمجھ جائیں گے کہ لوگ اب ان کو صرف کھانا اور باقی ضروریات کی چیزوں کے علاوہ کچھ نہیں دیں گے اگر ہم میں سے کچھ لوگ بھی اس کام کو کرنا شروع کر دیں تو بہت سے بچے جو تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ ضرور ان دی گئی کتابوں کا فائدہ اٹھائیں گے دوسری بات جو اس سے بھی اہم ہے ہم جن بچوں کو اپنے گھر یا کسی اور جگہ دفتر وغیرہ میں کام کرنے کے لئے رکھتے ہیں اگر ہم لوگ ان کو ایک گھنٹہ بھی فارغ اوقات میں پڑھا دیں تو اس سے اچھا اور نیک کوئی کام نہیں ہو گا مگر یہ سب تب ممکن ہے جب سب مل کر اس کام کو انجام دیں کوئی بھی کام کسی ایک کے کرنے سے نہیں ہوتا مگر ہم لوگ اپنی زندگی میں اس قدر الجھ چکے ہیں کہ ہمہارے پاس کسی اور کے لئے سوچنے کا وقت نہیں رہا زندگی کی اس بھاگ دوڑ نے انسان میں سے احساس ختم کر دیا ہے ہم اتنے خود غرض ہو چکے ہیں کہ اپنے علاوہ کسی کا درد نہیں سمجھتے _اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ اور بڑے ادارے سے ایجوکیشن دلاتے تاکہ وہ کامیاب اور بہتر انسان بنے اور غریب کے بچے کو اپنے گھر میں کام کروا کہ کچھ روپے کے عوض ان کو خرید لیتے ہیں خدارا خیال کیجۓ اور بچوں کی زندگی کا فیصلہ کرنے کے لئے ان کے ہاتھوں میں قلم دیجیے تاکہ وہ اپنی آنے والی زندگی کو اپنی مرضی سے گزار سکیں نہ کہ اپنی خوائشوں کو مار کر دوسروں کے سکون کے لئے خود کے ارمان دل میں لئے دنیا سے چلا جاۓ میری سب سے اپیل ہے کہ ایسے لوگوں کی مدد کریں اور ان کو زندگی کی رنگینیاں دکھائیں تاکہ وہ بھی خدا کے بناۓ نظاروں کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور خدا کا شکر ادا کریں اگر میرے کچھ الفاظ پڑھ کر ایک انسان کی بھی کسی نے مدد کر دی یا اس کے ہاتھوں میں بھیک کی جگہ کتابیں دے دیں تو سمجھ جاؤگی کہ میرا لکھنا بیکار نہیں گیا امید ہے سب کو میری بات پسند آئے گی اور اس پر عمل بھی ہو گا انشااللہ جزاك اللہ
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...