نیویارک بزنس اسکول کا پروفیسر اسکاٹ گیلووے اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ “کامیاب سی ای او وہ ہوتا ہے جو ایک بہت چھوٹی کہانی کو بڑی بنا کر بیچتا ہے اور اس کو ٹوپی کی طرح سروں پر گھماتا رہتا ہے “۔ میرے نزدیک سیاست دان بھی یہی کرتا ہے ، فرق صرف یہ ہے کہ وہ ایک بڑی کہانی کا کوئ ایک چھوٹا عنصر پکڑ کر لوگوں کو اس کہ پیچھے لگا دیتا ہے اور خود اقتدار ، طاقت اور پیسہ کہ نشہ میں دُھت رہتا ہے۔ اس کی مثال بھٹو کا روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ ، نواز شریف کا پیلی ٹیکسی اور میٹرو اور اب عمران خان کا احتساب کا کھوکھلا نعرہ ۔
کل میں بیکن ، نیویارک کی پرانی کتابوں کی دوکان گیا اور وہاں کھو گیا ۔ اس کہ پیچھے خاتون مالک نے ایک جگہ بنائ ہوئ تھی جہاں میں کتابوں کہ مختلف موضوعات میں کھویا ہوا ہی سو گیا ۔ ہر کتاب میں ایک نئ کہانی ۔ مجھے اتفاق سے یہودیوں کہ فلسفہ کبالہ پر بھی کتاب مل گئ۔ بہت خوشی ہوئ ، کیونکہ اس میں سارا mysticism اور فزکس ہے اور یہودی ربیوں نے اسے غائب ہی کر دیا تھا، صرف نئ نوجوان نسل اسے تلاش کر کے پڑھتی ہے ۔
بڑی کہانی صرف ایک ہے اور پیاز کی طرح اس کہ پردے اور تہہ ہیں ۔ یہ قدرتی کہانی ہے ۔ نہ اس کی کوئ کتاب ہے نہ سیکھنے کا ہنر ، صرف ایک قدرت کہ ساتھ flow ہے ۔ جب آپ اس رستے ہر چل پڑھتے ہیں تو اس کہ تمام اوراق آپ پر کھل جاتے ہیں۔ اس کہ لیے اپنی سابقہ کہانیوں سے آزادی درکار ہے جس طرح شاہ شمس تبریزنے مولانا رومی کہ نسخہ جو وہ پکڑے ہوئے تھے پانی میں پھینکوا کر صاف کر دیے تھے ۔
یہ جو جینے کی کہانیاں ہمیں سیاست دان ، اور سیٹھ بتاتے ہیں ان سے نجات حاصل کرنی ہوگی ۔ کل ایک محترم خاتون فالور میرے بلاگ پرکمینٹ کر رہی تھیں کہ انہیں چھ مہینے ہہلے ان کہ بھائ نے ایک کڈنی دے کر بچایا تو انہیں یہ علم ہوا کہ صحت ہی دراصل سب کچھ ہے ، پیسہ ، اقتدار اور شہرت تو ایک بہت بڑا illusion اور دھوکہ ہے ۔ کل ہی کچھ بہت اہم عہدوں پر پاکستان میں پوسٹنگز ہوئ اور مجھے دوستوں نے کہا وہی پرانے لوگ ، بلکہ ایک اعظم سلیمان تو ماڈل ٹاؤن کیس میں ملوث ۔ میں نے اسے جواب دیا ، بھائ عمران خان کو بھی تو شاید اقتدار کی خاطر ماڈل ٹاؤن جیسا معاملہ کرنا پڑ جائے ۔ لال مسجد اور ماڈل ٹاؤن میں قتل و غارت برپا کرنے والے افسر سیاستدانوں کے لیے سرمایا ہیں ۔
جیسے لینڈ مافیا کہ کرامت کھوکھر ، منشا بم اور ملک ریاض ۔ میرے جیسے تو نہیں لگائیں گے ، کیونکہ اگر مجھے کوئ عہدہ دیں گے ، اوّل تو میں لُوں گا نہیں ، اس جھوٹی کہانی کا ہرگز کردار نہیں بنوں گا ۔ اگر لوں گا بھی تو احتساب خاور مانیکا سے شروع کروں گا اور کوئ دو سو ارب ڈالر دو درجن بیوریوکریٹ سے دو مہینے میں نکلوا دوں گا ۔ لیکن عمران خان کے تو وہ سارے پیارے اس جھوٹی کہانی کہ کردار ہیں جو ستر سال سے عوام پر مسلط ہے اور یہی لوگ مختلف ناموں سے ، غلام محمد ، الطاف گوہر ، غلام اسحاق ، سعید مہدی ، جی ایم سکندر ، طارق باجوہ ، ڈاکٹر توقیر ، فواد وغیرہ یہ ظلم و ستم نہتہ عوام پر ڈھاتے رہے ، ان کو گولیاں بھی ماریں اور جیبیں بھی کاٹیں ۔ عمران خان نے صحافیوں کہ جواب میں غصہ میں کہا “یہی لوگ ہیں ، میں اور افسر کہاں سے لاؤں “ سو فیصد درست کہا ، حرامی تو یہی ہیں ، حلالی تھوڑا تمہارے غلط کام کریں گے ۔ وہ تو ریاست کہ وفادار ہوں گے نہ کے عمر ان خان کے ۔
میرے دوستو یہ ساری کہانی ہی غلط ہے ۔ آپ اپنی اپنی قدرت کی عطا کردہ سادہ کہانی پر قائم رہیں اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی زندگیاں خوشگوار گزریں ۔ وہ کہانی صرف ایک ہے سب کائنات کہ لیے ، پرند چرند ، جانور ، درخت ، پہاڑ ، صحرا اور سمندر سب اس ایک oneness والی کہانی کا حصہ ہیں ۔ وہ بہت آسان ہے ۔ اپنے رب ، خالق اور پیارے پیغمبر کہ بہت قریب ۔ اس کہ لیے نہ پیسہ درکار ہے نہ محنت صرف اور صرف ایمان ۔ وہ ایمان جو ان سیاسی گماشتوں کی کہانی کو جھٹلائے اس کہ آگے سیسہ پلائ ہوئ دیوار بن جائے ۔ خرم نواز گنڈاپور نے کل اپنے گنڈے کا ایک چھلکا اتارا اور فرمایا کہ ۲۰۱۴ کا دھرنا تو لندن پلان کا حصہ تھا اور رانا مشہود نے کہا کہ ہماری تو اسٹیبلشمنٹ سے صلح ہو گئ ہے ۔ جنرل غفور نے ایسے اتنی جلدی تردید کی جیسے واقعہ ہی میں نُورا کُشتی ہو رہی ہے ۔ اس جھوٹی کہانی کہ سارے کردار فوج ، عدلیہ اور سیاستدان ایک عجیب خوف کا شکار ہیں ۔ لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں ۔ پاکستان کہ چاروں اطراف آگ لگی ہوئ ہے اور کسی کہ پاس کوئ حل نہیں ، کیوں کہ کہ راؤ انوار مر گیا تو سارے مر گئے ، ملک ریاض اندر چلا گیا تو پوری بدمعاشیہ پھنس جائے گی ۔ غنڈہ جج شوکت صدیقی کہتا ہے ، میں گیا تو سب کو جانا ہو گا اور انصار عباسی کہتا ہے اگر اس اسلام پسند جج کو کچھ ہوا تو ہم اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے ۔ لہٰزا زرداری نے ان سب کو مشورہ دیا ہے کہ سب مل بیٹھو ، اتفاق سے کھاؤ ، ابھی بہت کچھ باقی ہے ۔
لیکن بائیس کروڑ بہت بیوقوف بن گئے ۔ مزید معاملہ ایسے ہی چلتا دکھائ نہیں دے رہا ، یا وہ رہیں گے یا یہ جھوٹی کہانی والے کردار ۔ کوشش کریں کہ ان کرداروں کو نیست و نابود کر دیں ، اسی میں آپ سب کی اور آنے والے نسلوں کی بُھلائ ہے ۔
بہت خوش رہیں ۔ اللہ نگہبان
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...