کیا بڑے ملک زیادہ بہتر اور کامیاب ہیں یا چھوٹے؟ جس دنیا میں ہم رہتے ہیں، یہاں ممالک کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ سات دہائیاں پہلے دنیا میں ساٹھ ممالک ہوا کرتے تھے، اب دو سو ہیں۔ اس کا مطلب یہ کہ ملکوں کا سائز چھوٹا ہوتا جا رہا ہے۔ کیا چھوٹے ملک باقی رہ سکیں گے؟ جب ہم چھوٹے ملک کی بات کریں گے تو ایسے ملک کی جہاں آبادی ایک کروڑ سے کم ہے۔ یہ خود دنیا کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ کئی علاقے آزادی چاہتے ہیں اور نئے ملک بننا چاہتے ہیں۔ ان کی کچھ مثالیں سکاٹ لینڈ، کیٹالونیا یا کردستان کی ہیں۔
چھوٹا ملک دنیا کی سیاست میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کرتا، جھگڑوں میں اس کا ذکر نہیں ہوتا، اس لئے عام طور پر خبروں میں نہں آتا۔ چین، فرانس، امریکہ، روس، انڈیا، برطانیہ جیسے ممالک کی خبریں اور ان کے سربراہوں کے بارے میں تو سب جانتے ہیں لیکن آئرلینڈ، ڈنمارک یا تائیوان جیسے ممالک نظروں سے اوجھل ہی رہتے ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ اس کے باوجود پچھلے تیس برسوں میں چھوٹے ممالک بڑوں کی نسبت ہر لحاظ سے بہتر پرفارم کر رہے ہیں۔ جب دنیا میں کوئی بھی رینکنگ جاری ہوتی ہے، خواہ امارت کی ہو، خوشی کی، نئے کام کرنے کی، کاروبار میں آسانی کی، محفوظ تر ہونے کی یا کوئی بھی اور۔ چھوٹے ممالک عام طور پر سب سے اوپر رینک ہوتے ہیں۔ اس وقت دنیا کے دس امیر ترین ممالک میں سے نو ملک چھوٹے ہیں (جی ڈی پی فی کس کے لحاظ سے) اور ان نو میں سے آٹھ کی آبادی ساٹھ لاکھ سے بھی کم ہے۔ یعنی لاہور کی کل آبادی کا نصف۔ اگر قوتِ خرید کا انڈیکس دیکھیں تو صورتحال اور بھی گمبھیر ہو جاتی ہے۔ اس فہرست میں سے پہلے چودہ ممالک چھوٹے ہیں۔
اور یہ چھوٹے ملک بہت مختلف طرح کے ہیں۔ کچھ کا سائز چھوٹا ہے جیسا کہ سنگا پور، جبکہ کچھ بڑے رقبے والے ہیں جیسا کہ فن لینڈ۔ کچھ معدنی وسائل رکھنے والے ہیں جیسا کہ قطر جبکہ کچھ کے پاس وسائل نہیں ہیں جیسا کہ آئر لیںڈ۔ کچھ زرعی ہیں، کچھ مالیاتی سیکٹر والے۔ کچھ گنجان آباد، کچھ کہیں کہیں آبادی والے۔ دنیا کے ہر خطے میں ہیں۔ ان میں صرف ایک چیز مشترک ہے۔ ان کی آبادی کم ہے۔ آئس لینڈ، نیوزی لینڈ، سنگاپور لگزمبرگ، ناروے، آئرلینڈ، متحدہ عرب امارات، برونائی، ڈنمارک، آسٹریا وغیرہ۔ کریڈٹ سوئس نے اپنی دو سال کی سٹڈی میں اس صورتحال کو تفصیل سے بتایا۔ نہ صرف چھوٹے ملک امیر ہیں بلکہ ان میں دولت کی تقسیم بھی زیادہ مساوی ہے اور معاشرتی طور پر بھی بہتر ہیں۔ یہ ملک صحت اور تعلیم پر دوسروں سے زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ کرپشن کم ہے، قرض کم ہے، بجٹ کا خسارہ کم ہے، ٹیکس کی شرح کم ہے۔ ان کی مالیاتی مارکیٹ یا سٹاک ایکسچینج کو پچھلی کچھ دہائیوں میں دیکھیں تو وہ بڑے ملکوں سے بہتر پرفارم کرتی رہی ہے۔ پچھلے پچاس سال میں یہ شرح بڑے ملکوں کے مقابلے میں دگنی رہی ہے۔
اب اصل سوال کہ ان ملکوں کی طاقت کیا ہے؟ کیا بڑے ملکوں کے پاس بڑی منڈیاں، کاروبار کے زیادہ مواقع اور اکانومی آف سکیل سے فائدہ اٹھانے کے مواقع زیادہ نہیں۔ سب سے پہلے ایک چیز کی وضاحت، کبھی بھی کسی چیز کے پیچھے ایک وجہ نہیں ہوتی۔ لیکن ان ملکوں کی سب سے بڑی طاقت ان کی کمزوری ہے۔
یہ ملک چونکہ خودانحصار نہیں ہو سکتے تو ان کو ہر چیز درآمد کرنا پڑتی ہے۔ اس کے لئے یہ عالمی تجارت میں خاصے ایکٹو نظر آتے ہیں۔ یہ ان کی مجبوری ہے اور جب کوئی ملک چیزیں خریدنے کی مارکیٹ میں ہوتا ہے تو چیزیں بیچنے کی مارکیٹ میں بھی۔ ان کو دوسروں کے ساتھ ٹف مقابلہ کرنا پڑتا ہے اور عالمی مالیاتی مارکیٹ کے اتار چڑھاوٗ سے یہ زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کو اپنے اکاوٗنٹس کو احتیاط سے استعمال کرنا پڑتا ہے اور مقابلے کی طرف دھیان زیادہ دینا پڑتا ہے۔ یہ پروٹیکشنٹ پالیسیوں کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
دنیا میں سب سے زیادہ گلوبل ممالک کی فہرست میں (ایسے ملک جہاں لوگ، سرمایہ اور مال سب سے آسانی سے آ اور جا سکتا ہے) پہلے پچیس میں سے اکیس ممالک چھوٹے ملک ہیں۔ اس معاملے میں وہ چھوٹے ملک جو ترقی پذیر ہیں، وہ بھی بڑے ترقی یافتہ ممالک سے بہت آگے نظر آتے ہیں۔ کاروبار کرنے کے انڈیکس میں آسانی کے اعتبار سے پہلے پچیس میں سے سولہ چھوٹے ملک ہیں۔ ان میں میسیڈونیا (قدیم مقدونیہ)، اسٹونیا، لیٹویا، جارجیا، متحدہ عرب امارات اور آئس لینڈ جیسے ممالک فہرست کے لیڈرز میں شامل ہیں۔ سیاسی سٹرکچر سادہ ہونے کی وجہ سے ان ملکوں میں بیوروکریسی کم ہوتی ہے۔ اور یہ بڑی حکومت افورڈ کرنے کے اہل بھی نہیں ہوتے۔ اس وجہ سے یہ زیادہ لچکدار اور زیادہ آسانی سے مقابلہ کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔
اگر کسی کا خیال ہے کہ چھوٹے ملک ہیں ہی وہی جن کا تعلق دنیا کے امیر علاقوں سے ہے یا ہمیشہ سے امیر تھے تو ایسا نہیں۔ سنگاپور اور آئرلینڈ صرف چند دہائیاں قبل اپنے علاقے کے غریب ممالک ہوا کرتے تھے اور اب دنیا کے امیر ترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔
ایک اور دلچسپ مثال چیکوسلواکیہ کی ہے۔ ۱۹۹۳ تک یہ ایک ملک ہوا کرتا تھا۔ یہ دو میں تقسیم ہوا۔ چیک ری پبلک اور سلوواکیہ۔ چیک ان میں سے زیادہ امیر تھے۔ سلوواکیہ میں بے روزگاری پانچ گنا زیادہ تھی اور اوسط آمدنی دو تہائی تھی۔ یہ علاقہ چیک ری پبلک کی مدد پر انحصار کرتا تھا۔ ۱۹۹۳ کے بعد دونوں نے جرمنی سے بھی زیادہ شرح سے ترقی کی۔ کمیونسٹ ماڈل سے انہوں نے کامیاب ٹرانزیشن کیپٹیلسٹ ماڈل کی طرف کی۔ سلوواکیہ نے چیک سے بھی زیادہ تیزی سے۔ اب دونوں کی فی کس آمدنی تقریبا برابر ہے۔
گلوبلائزیشن کے عمل نے بڑے ممالک سے ان کے سائز کی اہمیت چھین لی ہے۔ پرانے دور کی بڑی سلطنتوں کا ایک فائدہ یہ تھا کہ بغیر روک ٹوک کے بڑے علاقے میں تجارت کی آسانی ہو جایا کرتی تھی۔ یہ ایڈوانٹیج اب بڑے ممالک کے پاس زیادہ نہیں رہا۔ اس وقت مقابلہ کرنے کی اہلیت، زیادہ روابط اور بدلتے حالات کے ساتھ جلد بدلنے کی صلاحیت کسی ملک کے لئے زیادہ اہم بنتی جا رہی ہیں اور یہاں پر چھوٹے ممالک کو بڑوں پر ایڈوانٹیج ہے۔
اس وقت دنیا کی معاشی ترقی کے پیچھے یہ چھوٹے ملک ہیں یا پھر بڑے شہر جیسا کہ نیویارک، ہانگ کانگ، مکاوٗ، جکارتہ، لندن وغیرہ۔ بڑے شہروں کی اکانومی اپنے باقی ملک سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ (جکارتہ کی معیشت میں ترقی کی رفتار باقی انڈونیشیا سے دگنی ہے)۔
تو کیا ڈی سنٹرلائزیشن، علاقوں اور شہروں کے ہاتھ میں زیادہ اختیار دینا کسی ملک کے اپنے لئے اچھی پالیسی ہو سکتی ہے؟ تمام سیاسی معاملات کی طرح اس پر بہت سی آراء ہو سکتی ہیں۔