ڈاکٹر شیر شاہ سید کا نام کراچی کے لئے اور طب کی دنیا سے تعلق رکحنے والے لوگوں کے لئے انجان نہیں۔ وہ ایک قابل اور محنتی گائناکولوجسٹ ہی نہیں بلکہ اپنے پیشے سے اور اس ملک کے لوگوں سے مخلص بھی ہیں۔ انہوں نے خواتین کے مختلف پیچیدہ امراض کے علاج کے لئے فلاحی بنیادوں پر کراچی کے مضافات میں واقع کوہی گوٹھ میں ایک ہسپتال بھی کھولا ہے جہاں فسچولا سمیت دیگر امراض کا علاج مفت یا بہت ہی کم پیسوں میں کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر شیرشاہ سید کا نام فسچولا کی مریض خواتین کے لئے زندگی کے فرشتے سے کم نہیں۔ جب میں نے فسچولا سے صحت مند ہونے والی ایک خاتون کو فرط جذبات سے ڈاکٹر شیر شاہ کےہاتھ چومتے دیکھا تو احساس ہوا کہ حقیقی مسرت کیا چیز ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ بھی انہوں نے خواتین کی صحت کو بہتر بنانے کےمختلفالنوع کام کئے ہیں جن کا یہاں تذکرہ ممکن نہیں اور نہ ہی یہ میرا مقصد ہے۔ لیکن بحیثیت ایک خاتون کے میں ان کا شکریہ ضرور ادا کرنا چاہوں گی۔ شکریہ ڈاکٹر شیر شاہ سید۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب خود کئی افسانوں کے مجموعوں کے خالق بھی ہیں۔ خیر یہ تو ان کا ایک مختصر سا تعارف تھا۔
تو جناب یہ واقعہ مجھے خود ان کی زبانی سننے کو ملا۔ گفتگو کے ضمن میں وہ ایک بہت دلچسپ آدمی ہیں۔ ڈاکٹر شیر شاہ سید سے معذرت کے ساتھ کہ یہ واقعہ ان کی اجازت کے بغیر تحریر کر رہی ہوں۔ امید رکھتی ہوںکہ وہ اس جسارت کو درگذر کریں گے۔ اب آجائیں اصل واقعے کی طرف۔ تو ہوا یوں کہ ایک دفعہ ڈاکٹر صاحب کاکوئٹہ کسی کام کے سلسلے میں جانا ہوا۔ کہیں جانے کے لئے ٹیکسی کی ضرورت پڑی۔ آدمی اکیلا ہو اور باتوں کا شوقین بھی تو ٹیکسی ڈرائیور خا صا کارآمد ثابت ہوتاہے ان کی ڈرائیور سے گفتگو شروع ہو گئ اب ادھر ادھر کی باتوں کے دوران ڈرائیور کی ذاتی زندگی بھی گفتگو میں آگئے۔ اس نے خوشی خوشی بتایا کہ اس کے چار بیٹے ہیں۔ اب ان کے ڈائیلاگ حاضر ہیں۔
ڈاکٹر صاحب؛ کیا کرتے ہیں تمہارے چاروں بیٹے؟
ڈرائیور؛ صاب ابھی چھوٹا ہے۔ بڑا والا کوئ گیارہ سال کا ہے اور صب سے چھوٹا چھ سال کا۔ چاروں ابھی مدرسہ جاتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب: اسکول نہیں جاتا تمہارا کوئ بچہ۔
درائور: نہیں صاب ، اسکول کوئ نہیں جاتا۔
ڈاکٹر صاحب: بھئ تم انہیں اسکول کیوں نہیں بھیجتے۔ دیکھو وہ اسکول جائیں گے تو ان میں سے کوئ انجینیئر بنے گا اور کوئ ڈاکٹر بنے گا۔ لوگوں کا علاج کرےگا۔ تمہیں معلوم ہے پاکستان میں ہر سال تیس ہزار سے زیادہ عورتیں بچے کی پیدائش کے دوران مر جاتی ہیں۔
ڈرائیور: صاحب ہمارابچہ مدرسے جاتا ہے وہ وہاں زیادہ بڑا کام کرے گا۔
ڈاکٹر صاحب حیرانی سے: وہاں کیا زیادہ بڑا کام کرے گا
ڈرائیور: صاب ، وہ ساری دنیا میں کافروں سے لڑائ کرے گا۔ ساری برائ ان کافروں نے پھیلائ ہے ان کو صحیح کرے گا۔ادھر وہ عراق میں مسلمانوں کو مارتا ہے۔ کشمیر میں مارتا ہے افغانستان میں مارتا ہے۔ ان سب لوگوں سے جہاد کرے گا۔
ڈاکٹر صاحب نے ایک دفعہ پھر اسے بتانے کی کوشش کی: تم میری بات نہیں سمجھ رہے تمہارے بچے ڈاکٹر بنیں گے اور ان عورتوں کی جان بچائیں گے تو سوچو پاکستان میں ہر سال تیس ہزار عورتوں کی جان بچے گی۔ اس کا ان کو کتنا ثواب ملے گا۔
اب ڈرائیور بالکل سیخ پا ہو گیا کہنے لگا۔ "تم کتنے چھوٹے دماغ کا آدمی ہے ہم پوری دنیا کی بات کرتا ہے اور تم صرف پاکستان کی اور پاکستانی عورتوں کی بات کرتا ہے"۔
اس بات کے آخیر میں ہم سب زوردار قہقہہ لگا کر خاموش ہو گئے۔ وہ ڈرائیور بھی حیران ہو گا کہ عورت کی جان بچانے کا بھی ثواب ہوتا ہے۔۔ شکر ہے اس نے پلٹ کر یہ نہیں کہا کہ ابے تو جان بچاتا ہے کافی نہیں ہے۔ یہ قصہ تقریباً تین سال پرانا ہے۔ لیکن میں سوچتی ہوں کہ یہ ہیں ہماری ترجیحات جس کی وجہ سے آج ہماری فوجیں ان لوگوں سے لڑ رہی ہیں جو کہنے کو اس ملک ک حصہ کہلاتے ہیں۔ جس کیوجہ سے آج دس لاکھ سے زائد لوگ گھر سے بے گھر ہوگئے ہیں۔ جس کیوجہ سے آج باقیماندہ ملک کا ہر شہری خوف اور بے یقینی کا شکار ہے۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھیں کہ وہ مذہب جسے امن کا مذہب کہا جاتا ہے آج اسے ہی نقص امن کا باعث بنادیا گیا ہے۔ آئیے اس بات پہ ہم سب مل کر ہنستے ہیں ایک کھسیانی ہنسی۔ ہی ہی ہی
(ڈاکٹر شیر شاہ سید کی ایک خاتون مریض کی زبانی)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔