کیا آپ کو پتہ ہے کہ ارتقاء کے چلتے ہمارا دماغ چھوٹا ہوتا جا رہا ہے ؟
جی ہاں
پچھلے کچھ بیس ہزار سال سے انسانی دماغ کا سائز چھوٹا ہوتا جا رہا ہے ۔
تب ایوریج برین والیم تھا 1500 سینٹی میٹر کیوب اور ابھی دماغ 1350 سینٹی میٹر کیوب تک آچکا ہے ۔
لیکن آخر کیوں ؟
(یہاں ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ
زیادہ بڑے دماغ کا مطلب زیادہ عقل نہیں ہے) ۔
ماڈرن آبادی کیوں کہ کمپلیکس سوسائٹی میں رہتا ہے تو ان سوسائٹی میں کام کا بٹوارہ ہوتا ہے تو اب ہومو سپیشیز کو بڑے دماغ کی ضرورت نہیں ہے جتنا ہمارے جنگل میں رہنے والے اجداد کو ہوتی تھی ۔
لیکن ان سب کے علاوہ ہمارا دماغ چھوٹا ضرور ہو رہا ہے لیکن اور زیادہ سمارٹ بھی ہو رہا ہے ۔
آپ دنیا بھر کی نیگٹیوٹی چھوڑ کر اور ٹائم نکال کر اس گروپ میں آرہے ہیں اور میری یہ پوسٹ پڑھ رہے ہیں تو “یہ بھی ایک ثبوت ہے” ۔
چاہے ہمارا دماغ سائز میں کم ہوتا جائے انرجی کو بچانے کے لیے لیکن ہم سمارٹنس میں آگے بڑھتے جا رہے ہیں ۔
اور یہ سب ارتقاء ہمارے سامنے ہی ہو رہا ہے ۔
حتکہ آج کے دن میں بھی ہمیں ارتقاء صاف دکھائی دے رہا ہے ۔
کیسے ؟ ⬇️
کیا آپ کو تلا ہوا مصالحہ دار کھانا ، برگر ، چپس اور کولڈرنکس وغیرہ پسند ہے ؟
جواب چاہے جو ہو لیکن یہ الزام بھی ارتقاء پر جاتا ہے ۔
ہزاروں لاکھوں سال ہمارے اجداد کے پاس کھانے کے لیے کچھ زیادہ آپشن نہیں ہوتے تھے ۔
تو ایسے میں جنگلات وغیرہ میں خوراک کی تلاش میں کوئی نئی چیز مثلاً کوئی ایسا پھل ، پھول ، پتے ، تنے یا جڑ جس میں فیٹس کی مقدار کچھ زیادہ ہوتی ہے وہ کھا لیتے تو ان کے جسم میں پہلے کی نسبت زیادہ انرجی آجاتی تھی ۔
اور لمبا عرصہ گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے جسم نے یہ سمجھ لیا کہ “یہ کیلوریز والی غذا ہیں اور مشکل حالات میں سروائیو کے لیے یہ بہت بہتر ہیں” ۔
اور انکے دماغ نے زیادہ خوشی کا اظہار کرنا شروع کر دیا ان خوراک کو کھاتے وقت ۔
اور یہی فیلنگ اور یہی ریوارڈ آپ فیل کرتے ہیں یہی ٹیسٹی تلے ہوئے چیز کھا کر ۔
تو کیا
آج ہم پر کوئی بھاگ دوڑ والا بڑا خطرہ ہے ؟ ۔
کیا کھانے کی کمی ہے ؟
تقریباً بلکل بھی نہیں ۔
آج ہمارے لیے ہائی کیلوریز والا کھانا کھانا نقصان دہ ہے کم کیلوریز والے کھانے کے مقابلے ۔
ایک کہاوت تو سنی ہوگی
“آج کل بھوک سے لوگ کم مرتے ہیں اور زیادہ کھا کر زیادہ لوگ مرتے ہیں” ۔
اور
دماغ کا یہی ریوارڈ آج ہمارے لیے خطرہ بن گیا ہے ۔
لیکن کیا آپ جانتے ہیں
ایک اور چیز ہے جو اجداد سے اب کنٹینیو ہے ؟
ہزاروں لاکھوں سال پہلے ہمارے دماغ کا ایک حصہ جسے “سیکنگ سسٹم” کہہ سکتے ہیں ایوالو ہونا شروع ہوا تاکہ آپ کھانا ڈھونڈ سکو آپ اپنے لیے بہتر جگہ ڈھونڈ سکیں اپنے سروائیور کے لیے اپنی سیکیورٹی کے لیے ، اور یہی دماغ کا حصہ مجبور کرتا تھا کہ آپ باہر جاؤ چیزوں کو ایکسپلور کرو اپنی دنیا بناؤ نئی نئی چیزیں سیکھو اور آگے بڑھو ۔
****
تحریر و ترجمہ: ثانیہ ثانی
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...