چوری ایک ایسی واردات ہے جو انسان کے اعتبار کی عمارت کو تہ و بالا کر دیتی ہے۔ جو ایک پل میں سمجھا دیتی ہے کہ چور کوئی بھی اور کہیں بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ واردارت اگر باآسانی ہو سکتی ہو اور پھر بھی نہ ہو تو اعتبار اور خوشی کا ایک سدا بہار پھل دار شجر بھی یاد زمین پر لگا جاتی ہے۔ جس کا لذیذ پھل انسان زندگی بھر کھاتا رہتا ہے۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ چند ماہ قبل میری بیٹی نور اپنے پاپا جاوید کے ساتھ ہمارے گھر سے کچھ دور میکارتھر سکوئر کے شاپنگ پلازہ میں گئی۔ وہاں اس کے چاچو راج نے اسے سالگرہ کا وہ گفٹ دلوانا تھا جو پچھلے کئی مہینوں سے اس کے ذمے ادھار تھا۔ [چاچو راج مشرقی پنجاب کا ہیومنسٹ ہندو ہے] ۔ گفٹ خریدا گیا۔ یہ پنسلوں اور پنوں کا ایک مہنگا بڑا سیٹ تھا۔ اس کے بعد یہ لوگ بگ میک [میکڈونلڈ] گئے جہاں نور کے لیے ہیپی میل لینا لازمی تھا۔ تحفے کا باکس ایک میز پر رکھ کر چاچو راج کھڑے کھڑے موبائل پر کسی سے سے باتوں میں لگ گئے۔ نور شاید خیال یا نگاہ کی کسی تتلی کے تعاقب میں کچھ دور گئ۔ پاپا ہیپی میل کے لیے قطار میں لگے ہوئے تھے۔ قصہ کوتاہ غفلت کے اس مختصر عرصے میں تحفہ چوری ہو گیا۔ ہاتھ کی صفائی دکھانے والے دنیا میں کہیں بھی ہو سکتے ہیں۔ آسٹریلیا میں کیوں نہیں ۔۔۔۔ لیکن چاچو راج نے نور کو وہی تحفہ دوبارہ دلاتے ہوئے وہ پھل دار شجر دکھایا جس پر اعتبار کے پھل ہمیشہ لگے رہتے ہیں۔ راج نے کہا: "یار جب بھی کبھی کہیں بھی چوری ہو جائے تو مجھے جاپانی یاد آ جاتے ہیں۔ بہت سال پہلے ایک بار میں جاپان گیا۔ کسی پلازہ میں جہاں لوگوں کا اتنا ہجوم تھا کہ زمین غائب تھی اور سر ہی سر نظر آتے تھے، وہاں ایک کافی شاپ کے سامنے رکھی میزوں میں سے ایک پر میں اپنا والٹ بھول کر چلتا بنا۔ کوئی نصف گھنٹے بعد مجھے احساس ہوا کہ والٹ میری جیب میں نہیں۔ یاد آنے پر میں واپس اسی کافی شاپ کے اسی ٹیبل پر پہنچا تو دیکھا کہ والٹ اسی جگہ موجود تھا۔ اسے کسی نے چھوا تک نہیں تھا۔"
جاوید اور نور نے گھر پہنچ کر یہ سب کچھ مجھے بتایا تو مجھے بھی اعتبار کی گری ہوئی عمارتیں اور انسانی حسن کردار کے کئی پھل دار شجر یاد آ گئے۔
"ایک چمچ"
یہ کوئی چار عشرے پہلے کی بات ہے۔ ہم چھ پاکستانی طلباء ستتر کے بیج میں پیکنگ پہنچے تھے۔ مقصد تھا چینی زبان سیکھ کر اسی زبان میں اپنی اپنی فیلڈ میں اعلیٰ تعلیم کا حصول۔ اس وقت چینی حکومت وظیفہ خوار طلباء کے بڑے ناز اٹھاتی تھی۔ گرمیوں اور سرما کی چھٹیوں میں دیگر شہروں کی سیریں، اعلیٰ ہوٹلوں میں قیام، یونیورسٹیوں، فیکٹریوں، کمیونز کے دورے اور سب کچھ بالکل مفت۔ مقصد تھا غیر ملکی طلبا کو جدید سوشلسٹ چین سے ہر ممکن متعارف کرانا۔ ادھر ہم پاکستانی بھی دیگر طلبا کی طرح طلبا والی ساری خوبیوں سے متصف تھے۔ جب نئے نئے پیکنگ پہنچے تو نہ وہاں کا کھانا پسند آتا تھا نہ چائے۔ ہم سے پہلے کے سینئیر طلبا نے بتایا کہ وہ تو اپنے کمروں میں اپنی چائے اور کھانا خود بنا لیتے ہیں۔ اب ہم نے بھی مارکیٹ جا کر اپنے اپنے کمروں کے لیے بجلی کے ہیٹر خریدے، چھوٹی چھوٹی پتیلیلیاں خریدیں، جن میں چائے بھی بن سکتی تھی اور کبھی کبھار کھانا بھی۔ سینیئرز نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ کراکری اور چمچوں وغیرہ کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں وہ ڈائنگ ہال سے بااآسانی اڑائے جا سکتے ہیں، یوں کہ کھانا خریدو، پلیٹ میں من پسند چمچ رکھو اور اسے چھوٹی پلیٹ سے ڈھانپ کر کمرے میں لے آو۔ ڈائینگ ہال کے چوکیدار کو بتاو کہ آج کھانا کمرے میں کھانا ہے۔ اس کے بعد یہ سب واپس کرنے کی ضرورت نہیں۔ یوں رفتہ رفتہ ہم سب کے پاس کافی پلیٹیں اور چمچ جمع ہو گئے۔ بتایا گیا کہ یہاں کورس مکمل ہونے کے بعد یہ سب کچھ ڈائینگ ہال کو لوٹا دیا جاتا ہے۔ یوں یہ چوری نہیں ہے۔ ۔۔۔ ہاں تو یہی چمچ اور کپ تھے جو ہم چھٹیوں پر بھی اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ ٹرین کے لمبے لمبے سفر میں گرم ابلے ہوئے پانی سے بھرے تھرماس ہمیں ٹرین والے مہیا کرتے تھے جن سے ہم اپنے ساتھ رکھے خشک دودھ، چینی اور ٹی بیگز کی مدد سے چائے بنا لیتے تھے [یہ بہت شروع کی بات ہے، بعد میں ہمیں چینی چائے کی عادت ہو گئی تھی] ۔۔۔۔۔ انھی چمچوں میں سے ایک چمچ تھا جسے شاید ہم کسی شہر میں اپنے دو تین روزہ مختصر قیام کے لیے اترتے وقت ٹرین ہی میں بھول آئے تھے۔ تین روز کے بعد جب ہمارا گروپ اس شہر سے رخصت ہونے کے لیے ریلوے سٹیشن پہنچا تو عجیب منظر دیکھا۔ ہم ٹرین کے انتظار میں پلیٹ فارم پر کھڑے تھے جب دو چینی ریلوے ملازم ایک چمچ ہاتھ میں اٹھائے ہمارے وفد کے انچارج تک پہنچے کہ ہمارے ہی گروپ میں سے کوئی بوگی نمبر چار میں سے اترتے وقت یہ چمچ وہاں بھول گیا تھا۔ یوں وہ کھویا ہوا چمچ ہم تک واپس پہنچ گیا جس کے کھو جانے کا ہمیں احساس بھی نہیں تھا، لیکن یہ جس طور ہمیں واپس ملا وہ کبھی یادداشت سے محو نہ ہوا۔ یہ واقعہ کیمونسٹ چین میں پیش آیا تھا۔ بارہ برس بعد جب میں دوبارہ ریسرچ کے لیے چین گئی اور پیکنگ یونیورسٹی میں دو سال [نوّے تا بانوے] گزارے تو چین تنگ شیاو پھینگ کی فری مارکیٹ اکانونی کے زیرِ اثر بہت بدل چکا تھا۔ اسی قیام کے دوران پیکنگ یونیورسٹی کے ہوسٹل میں میرے کمرے سے میرا پرس چوری ہوا جس میں ڈالرز کے علاوہ طلائی زیورات بھی تھے۔ اس چوری کی رپورٹ کی گئی، پولیس نے بظاہر بہت ہاتھ پاوں مارے لیکن چور گرفتار نہ ہوئے۔ میری پرانی ٹیچر نے باتوں باتوں میں یہ بھی کہا کہ ہوسکتا ہے پولیس بھی چوروں کے ساتھ ملی ہو۔ میرے اس قیام کے دوران ہمارے ہوسٹل میں کئی چوریاں ہوئیں۔ ہر چوری نے بدلتے ہوئے چینی معاشرے پر میرے اعتماد کو توڑا اور ہر بار چمچ کی کہانی ایک بار پھر یاد آئی۔