ایک بدقسمت لڑکی کے اغوابرائے تاوان کا کیس جو اُس کے زندگی تباہ کرنے کا باعث بن گیا اور ؤہ عمر بھر کیلئے قیدی بن گئی۔
میری پوسٹنگ سی آئی اے جمشید کواٹر میں تھی وہ بھی اتوار کی صبح تھی اُس وقت کے سی سی پی او کراچی طارق جمیل صاحب کا فون آیا کہ “نیاز گلشن اقبال میں ایک واقع ہوگیا ہے میں راستے میں ہوں آپ بھی وہاں پہنچو ” میں ایس ایچ او کی رہنمائی میں ایک بنگلے کے پاس پہنچا اندر بنگلے کے لان میں کافی لوگ جمع تھے ایک کونے میں طارق جمیل صاحب، اُس وقت کے ہمارے ڈی آئی جی سی آئی اے منظور مغل صاحب، علاقہ ایس ایس پی ایک نوجوان سے بات کر رہے تھے، مجھے دیکھتے ہی طارق جمیل صاحب نے کہا کہ “ نیاز اس بنگلے میں ڈکیتی ہوگئی ہے ڈاکو جاتے ہوئے خاتوں خانہ کو بھی اپنے ساتھ لے گئے ہیں” اور ساتھ کھڑے نوجوان سے میرا تعارف کروایا اور مجھے کہا کہ آپ نوجوان کے ساتھ بنگلے کا وزٹ کرلیں، میں نوجوان کے ساتھ بنگلے کے وزٹ کے دوران اُن سے واقعہ کی تفصیلات لیتا رہا۔
واقعہ کچھ اسُطرح تھا کہ رات کے پچھلے پہر تیں نوجوان بنگلے کے کچن کی کھڑکی کا شیشہ توڑ کر کھڑکی کے اندر ہاتھ ڈال کر ساتھ ہی دروازے کا لاک کھول کر گھر میں داخل ہو گئے تھے اور کسی کمرے کا دروازھ کھلنے کا انتظار کرنے لگے فجر کی اذان کے بعد مالک مکان نے نماز کیلئے مسجد جانے کیلئے جیسے ہی بیڈروم کا دروازہ کھولا تینوں ڈاکووں نے اُس کو گن پوائنٹ پر لے لیا اور اُس کی بیوی کے ہاتھ پیچھے سے باندھ کر اُس کے موں میں کپڑا ٹھونس دیا، مالک مکان سے پوچھا کہ اور کون ہے گھر میں، اُس نے ڈاکووں کو بتایا کہ اوپر کی فلور پر صرف میرا جوان سال بیٹا اور بہو ایک کمرے میں سو رہے ہیں۔ ڈاکوں نے مالک مکان کو کہا کہ بیٹے کا دروازہ کھڑکا کر اُس کو اپنی طبیعت خراب ہونے کا بول کر دروازہ کھلواوُ، دروازہ کُھلنےپر ڈاکووں نے نوجوان اور اُس کی بیوی کو یرغمال بنا لیا، باپ بیٹے کے ہاتھ پیچھے سے باندھ کر نیچے کمرے میں بند کردیا، پورے گھر سے قیمتی سامان مالک مالکان کی کار میں ڈال کر ٹریفک چلنے کا انتظار کرنے لگے ( یہ وقت پولیس کی شفٹ تبدیل ہونے کا ہوتا ہے اور کراچی کے روڈوں پر پولیس نہیں ہوتی ) اور 30: 7 بجہ کے قریب نوجوان خاتون کو گن پوائنٹ پر کار کی اگلی سیٹ پر بٹھا کر لے گئے حالانکہ گلی کے داخلی راستے پر بیرئر اور چوکیدار موجود تھا،پاگل چوکیدار کی جیسے ہی خاتون خانہ پر نظر پڑی اُس نے سلام کیا اور بیرئر کھول دیا، خاتوں اسکول ٹیچر تھی اور 6 ماہ پہلے ہی اُن کی شادی ہوئی تھی۔ 8 بجے کے قریب کام کرنے والی نوکرانی بیل بجاتی رہی اور دیکھا کہ بڑا گیٹ کھلا ہوا ہے اُس نے ساتھ والے گھر والوں کی بیل بجا کر اُن کو صورتحال کے متعلق بتایا، ساتھ والے گھر والوں نے 15 پر کال کرکے پولیس بُلوالی اور پولیس نے اندر جاکر تینوں افراد کو آزاد کیا۔
یہ سب کچھ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ڈاکو کس طرح محتاط انداز میں کاروائی کرتے ہیں اور ذرہ برابر بھی رسک نہیں لیتے۔
میرے خیال میں کراچی سے کسی عورت کے اغوا کی یہ پہلی واردات تھی ویسے تو کراچی میں روزانہ سیکڑوں لڑکیوں کے اغوا کے کیسز ہوتے ہیں مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ لڑکیاں اپنی مرضی سے کسی کے ساتھ چلی جاتی ہیں والدین یہ حقیقت ماننے کو تیار نہیں ہوتے پولیس بھی جان چُھڑانے کیلئے اغوا کا پرچہ کر دیتی ہے اور ایک ہی ہفتے میں تھانے کو نکاح نامہ موصول ہو جاتا ہے اور والدیں ایک دوسرے کا موں تکتے رہ جاتے ہیں،
اُسی دن سی پی ایل سی کے اُس وقت کے چیف جمیل یوسف صاحب نے بابر یونس اور اُس کی ٹیم کو ہمارے ساتھ کردیا۔
دوسرے دن خاتوں کے فون سے اُس کے شوہر کو اغوا کاروں کا فون آیا کہ 10 کروڑ کا بندوبست کریں اور بتایا کہ کار ہم نے بوٹ بیسن پر فلان دکان کے سامنے چھوڑ دی ہے وہاں سے لے لیں۔
نوجوان جو ایک بینک میں مینیجر تھا مجھے فون پر اطلاع کردی ہم نے کار سے فنگر پرنٹس وغیرہ لے کر ضروری کاروائی کے بعد کار نوجوان کے حوالے کردی اور تفتشی افسر کو حکم دیا کہ کار گی گمشدگی کا خط ایکسائیز ڈپارٹمنٹ کو نہ ارسال کرے۔
حالانکہ کہ ہمارہ فرسودہ قانون کار کو کورٹ کے تھرو حوالے کرنے کا کہتا ہے، یعنے کار کا مالک وکیل کرے، کورٹ کے چکر لگائے اور اپنی ہی کار کی ضمانت کروائے اور ہر پیشی پر کار کورٹ میں پیش کرے اور جب تک کیس ختم نہ ہو کار فروخت نہیں کرسکتا۔ ضمانت کے پراسس میں دو تیں ماہ کا عرصہ لگ جاتا ہے ۔ جب تک کار تھانے میں کھڑی رہتی ہے اسی دوران کار کا آدھا سامان نکالا یا تبدیل ہوچُکا ہوتا ہے۔ ہمارے مُلک میں کیا عجیب تماشا ہے۔
ہم نے نوجوان کے سارے نمبر، مغوی خاتوں اور اُس کے والدیں کے نمبررکارڈنگ پر لگوادیئے تاکہ ہمیں اغواکاروں اور فیملی کی متعلق ضروری معلومات ملتی رہے۔
اُس وقت ہمارے آئی جی کمال شاہ صاحب تھے۔ سی سی پی او صاحب، ڈی آئی جی سی آئی اے اور میں نے آئی جی صاحب سے ملاقات کی اور کیس کی سنگینی کے متعلق اُن کو بریف کیا۔ یہ کراچی میں کسی عورت کا اغوا برائے تاوان کا پہلا واقعہ تھا، ہم نے اُن کو بتایا کہ اگر اس گروھ کو ختم نہ کیا گیا تو اس قسم کے لاتعداد اغوا شروع ہو جائیں گے جو ناقابل برداشت ہے۔ ہم نے آئی جی صاحب کو کہا کہ وہ ایجنسیز اور سی پی آیل سی پر اپنا ذاتی اثر رسوخ استعمال کریں کہ تاکہ وہ ہماری مدد میں کوئی کسر نہ چھوڑیں میں یہ واضع کرنا چاہتا ہوں کہ ہم ہر کیس میں آئی جی کو آن بورڈ نہیں لیتے اور اپنی لیول پر کام کرتے رہتے ہیں، آئی جی صاحب کو اُس وقت آن بورڈ لیا جاتا ہے جب ہم محسوس کرتے ہیں کہ پانی سر سے اونچا ہورہا ہے۔
ہمارا طریقہ کار یہ ہے کہ ہم فیملی سے بظاہر ملنا جُلنا چھوڑ دیتے ؤہ اس لئے کہ ہم کو پتہ نہیں ہوتا کہ واردات میں گھر کا کون سا فرد ملوث ہے اور کون ملزمان کو انفارمیشن لیک کر رہا ہے۔ (میری مراد نوکر چاکر، قریبی رشتیدار دوست احباب سے ہے )اس لیئے احتیاطن ہم فیملی سے رابطے کیلئے بیک ڈور چینل استعمال کرتے ہیں۔
میری نید حرام ہوچکی تھی میں نے سارے دوسرے کیسز پر کام کرنا چھوڑ دیا سی آئی اے کے ہیڈ محرر کو ہدایت کردی کہ وہ نفری کی حاضری کو دو شفٹوں میں یقینی بنائے اور ڈی ایس پی علی رضا، انسپیکٹر سجاد، سب انسپیکٹر طارق کیانی، انسپیکٹر اعجاز بٹ کو حکم دیا کہ ؤہ اپنی ٹیم کے ساتھ دوسرے حکم تک سی آئی اے سینٹر میں موجود رہیں گے۔
بابر یونس برابر فیملی سے خاموشی کے ساتھ رابطے میں تھے۔ ہر گذرتا دن ہماری پریشانی میں اضافہ کر رہا تھا۔ جیساکہ اغواکار بہت محتاط انداز میں اپنا کام کر رہے تھے. مغوی لڑکی کا فون اُن کے پاس تھا وہ کراچی کے کسی علائقہ میں فون کھولتے اور نوجوان سے مختصر بات کرتے اور فورن فون آف کر دیتے ہمارے لوکیٹر آن فون کو لوکیٹ کرتے ہیں۔ مجھے رکھ رکھ کر اُس مظلوم لڑکی کا خیال آتا تھا اغوا کاروں کے ساتھ اچھا بھلا مضبوط مرد بھی ایک دن میں ٹوٹ کر رہ جاتا ہے۔
ایک ایک کرکے 15 دن گذر گئے مجھے وہ اعصابی تناوُ زندگی بھر یاد رہے گا۔ اغواکاروں اور فیملی میں تاوان ادا کرنے کی بات چیت چل رہی تھی۔ ہم نے محسوس کیا کہ نوجوان ہم سے کچھ باتیں چُھپا رہا ہے اور ہم کو بائی پاس کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایک خطرناک عمل تھا۔ اس موقعہ پر ہم نے نوجوان سے بات کرنا ضروری سمجھا اور اُس سے بات کرنے کیلئے گورنر ہاؤس میں قائم سی پی آیل سی کے دفتر بلالیا، وہاں سی پی آیل سی چیف، ڈی آئی جی سی آئی اے, ڈپٹی چیف شوکت سلیمان ، بابر یونس اور میں نے نوجوان سے بات کی کہ وہ ذمیداری کا ثبوت دے اُس کے ساتھ جو سانحہ ہونا تھا سو ہو گیا ہے۔ اُس کو احساس دلوایا کہ اس گینگ کی موجودگی میں مستقبل میں نجانے کتنی اور عورتیں اغوا ہونی ہیں اُن سب کا گناہ کوتاہی کرنے والے کے کاندھے پر ہوگا۔ نوجوان ملزمان کی گرفتاری کی صورت میں کورٹ کچہری سے خوفزدہ تھا ہم سب نے اُس سے وعدہ کرلیا کہ کورٹ کچہری ہمارے ذمے ہے اور نوجوان ہم سے تعاون کرنے پر آمادہ ہو گیا۔
ہم نے اُس کو سمجھایا کہ وہ جلدی اغوا کاروں سے تاوان کا فائینل کرے اور تاوان کی رقم بھی سی پی آیل سی چیف جمیل یوسف نے اپنے جیب سے ادا کرنے کا وعدہ کیا یہ سب کچھ اس لیئے کیا جارہا تھاکہ نوجوان کے تعاون اور گینگ کے خاتمے کو یقنی بنایا جاسکے۔
۔سی پی آیل سی والے بھی کیا کمال کے لوگ ہیں ہم کو تو تنخوا، پروٹوکول و سیکورٹی اور بے تحاشہ مراعات کا بہت بڑا پیکج ملتا رہتا ہے مگر یہ volunteers لوگ جان ہتھیلی پر رکھ کر ہم سے آگے آگے ہوتے ہیں ۔ کراچی کے امن میں Rangers کی طرح سی پی آیل سی کابھی ایک “خاموش سپاہی” والا رول ہے۔
اس طرح 25 دن گذر گئے جیسا کہ میں پہلے بتا چُکا ہوں کہ اغواکار بہت محتاط انداز میں چل رہے تھے نوجوان سے اُن کی 60 لاکھ میں ڈیل ہو گئی اور اغوا کاروں نے نوجوان سے کہا کہ جس وقت وہ فون کریں اُسی وقت ؤہ تاوان کی رقم اپنی کار میں لیکر بتائی ہوئی جگہ پر آجائے۔ سی پی آیل سی چیف جمیل یوسف نے تاوان کی رقم فراہم کردی جو نوجوان کو دے دی گئی۔ اب ہمارا کام شروع ہونے والا تھا۔ جیساکہ آپریشن کی ذمیداری میرے ذمے تھی اور سی پی آیل سی کے بابر یونس اپنی ٹیم کے ساتھ بھی ہمارے ساتھ تھے۔
جیساکہ کراچی میں Two way ٹریفک چلتا ہے اس لیئے ہم نے چار Teams موٹر سائیکلوں پر ترتیب دیں ہر موٹر سائیکل پر ایک ایک بابر یونس کی ٹیم کا بندہ، ایک way کا انچارج ڈی ایس پی علی رضا کو رکھا اور دوسرے way کی ذمیداری انسپیکٹر سجاد کے حوالے کردی۔ کراچی میں کرمنلز ہمیشہ موٹر سائیکل استعمال کرتے ہیں اور بھاگنے کیلئے رانگ way کا استعمال کرتے ہیں “اس لیئے کہ رانگ وے پر Chase کرنا نامُمکن ہوتا ہے” ہم نے پوری پارٹی کو بریف کردیا کہ رانگ ویے پر خاص خیال رکھنا ہے ایک رانگ وے سب انسپیکٹر طارق کیانی اور دوسرا انسپیکٹراعجاز بٹ کے حوالے کردیا،
دوسرا اُن کو سختی سے کہا گیا کہ گولی نہیں چلانی تاوان کی رقم لینے آنے والوں کو زندہ پکڑنا ہے۔
دو دن تک اغواکار نوجوان کو مختلف لوکیشن پر بلاتے رہے اور دور سے کار پر نظر رکھتے رہے کہ پولیس تو ساتھ نہیں ہے۔ جیساکہ ہم اور سارے لوگ سادہ کپڑوں میں تھے اور ایک ساتھ وائرلیس اور Hand free نظام کی ذریعے رابطے میں تھے۔
تیسرے دن اغواکاروں نے نوجوان کو الللہ والی چورنگی کے قریب بُلا لیا اور ہمارے دیکھتے ایک 500cc کا موٹرسائیکل کار کی ڈرائیور سائیڈ کی کھڑکی کے ساتھ رُکا ہم نے وائرلیس پر سب کو الرٹ کردیا، اغواکار نے نوجوان سے پیسوں کا تھیلا لیا اور کار کے آگے موٹر سائیکل گُھما کے رانگ وے چلنے لگا،ہم نے اُس پارٹی کو بتادیا کہ 500cc موٹرسائیکل پر ایک سوار اُن کی طرف آرہا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہمارا ایک موٹر سائیکل اغواکار کی موٹر سائیکل سے ٹکرا گیا، اغواکار کے روڈ پر گرتے ہی اُس نے اُٹھ کر بھاگنے کی کوشش کی مگر ہمارے جوانوں نے اُس کو بے بس کر دیا۔
ہمُ نے قریب ہی واقہ تھانہ فیروز آباد پر اغوا کار کو لے گئے اور وہاں ہمارے ڈی آئی جی سی آئی اے اور سی پی آیل سی چیف بھی آ گئے، تھوڑی سی چھترول کے بعد اس وعدے پر کہ اُس کو آزاد کردیا جائے گا وہ تیار ہوگیا کہ میں گھر دکھاتا ہوں جہاں لڑکی رکھی ہے، ہم وقت ضایع کیئے بغیر ملزم کے بتائے ہوئے علائقہ کے طرف نکل گئے۔ کار بابر یونس ڈرائیو کر رہا تھا، پچھلی سیٹ پر ملزم کے ایک طرف ڈی ایس پی علی رضا اور دوسری طرف انسپیکٹر سجاد علی بیٹھے تھے۔ میں نے راستے میں ملزم سے معلومات لیتا رہا کہ گھر پر لڑکی کے ساتھ کون کون ہے اور اُن کے پاس ہتھیار کون کون سے ہیں اُس نے بتایا کہ دو اغوا کاروں کے پاس دو کلاشنکوف دو پسٹل اور ہزاروں گولیاں ہیں ۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ پہلے کتنے اغوا کیئے ہیں اُس نے بتایا کہ یہ کراچی کی دوسری واردات ہے ایک سال پہلے ڈیفنس سے ایک لڑکی اغوا کرکے 500cc موٹر سائیکل پر لاہور لے گئے تھے 6 ماہ میں لڑکی کا 4 مرتبہ تاوان لیا اور بعد میں لڑکی PIA میں کراچی روانہ کردی ( میں نے بعد میں معلومات لیں وہ کیس کسی بھی تھانے یا سی پی آیل سی میں رپورٹ نہیں ہوا تھا، فیملی اپنی عزت بچانے کیلئے خاموش ہو گئی ہوگی اور بتایا کہ لاہور میں 6، پنڈی سے 3 لڑکیوں کو اغوا کیا اور کئی کئی مرتبہ تاوان لیا اور اپنی مرضی سے آزاد کیا۔ میں نےراستے ہی میں اپنی ٹیم کو ہدایات دے دی کہ اپنی جان کے پروا کیئے بغیر اغوا کاروں کا صفایا کرنا ہے وہ کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں ہیں،
ہم نے اپنی گاڑیاں اغوا کاروں کے گھر سے دور چھوڑ دیں اور پکڑے ہوئے ملزم کے بتائے ہوئے گھر میں علی رضا، سجاد علی گھر کے مین گیٹ اور طارق کیانی، اور اعجاز بٹ گھر کے بیک سائیڈ سے کچھ جوانوں کے ساتھ دیواروں کو پھاند کر اندر کود گئے اتنے میں اندر فائرنگ ہونے لگی ایک جوان نے گھر کا آہنی گیٹ کھول دیا فائرنگ رکتے ہی ڈی آئی جی سی آئی اے, سی پی آیل سی Cheif,بابر یونس اور میں اندر داخل ہوئے، دیکھا کہ ایک 25/28 سالہ خوفزدہ عورت ایک بچے کو سینے سے لگائے زمیں پر بیٹھی چیخ رہی تھی میں نے اُس سے پوچھا کہ اغوا شدہ لڑکی کہاں ہے اُس نے بتایا اوپر کی منزل پر کمرے میں بند ہے، ہم سب اوپر چلے گئے کمرے سے اغوا شُدہ لڑکی باہر نکالی اور اُس کو بتایا ہم پولیس ہیں لڑکی اتنی ڈری ہوئے تھی کہ اپنا نام غلط بتارہی تھی اور یہ ماننے کیلئے تیار نہیں تھی کہ اُسے اغوا کیا گیا ہے چونکہ میں پہلے دن لڑکی کے گھر میں دیواروں پر اُس کی شادی کی تصویریں دیکھ چُکا تھا، اتنے میں جمیل یوسف صاحب نے لڑکی کے شوہر سے فون ملاکر اُسے بتایا کہ اُس کی بیوی فرح بازیاب ہوچکی ہے مگر اپنا نام غلط بتارہی ہے اور فون لڑکی کے کان پر رکھ دیا لڑکی دوسری طرف اپنے شوہر کی آواز سُن کر زاروقطار رونے لگی اور بتایا کہ ؤہ ہی فرح ہے۔
اتنے میں باہر کچھ شور سُنائی دیا اور کچھ فائرنگ ہوئی
لڑکی کو ڈی آئی جی سی آئی اے, چیف سی پی آیل سی، ڈپٹی چیف شوکت سلیمان اور بابر یونس لے کر اُس کے گھر روانہ ہوگئے۔
دو اغوا کار تو گھر میں داخل ہوتے ہی مارے گئے تھے۔ چونکہ ہم اندر کاروائی میں مصروف تھے باہر پہلے پکڑے ہوئے اغواکار نے رسی سے ہاتھ کھول لیئے تھے اور ایک جوان سے رائفل چھین رہا تھا تو دوسرے جوان نے جو قریب ہی یہ تماشہ دیکھ رہا تھا سمجھ داری سے کام لیتے ہوئے اپنے جوان کو بچاتے ہوئے ملزم پر فائرکرکے اُسے گرا دیا۔ اندر پکڑی ہوئی عورت اُن تینوں میں سے ایک کی بیوی تھی ،
علاُقہ ایس ایچ او اور ڈی ایس پی بھی آگیا تھا اُس نے ایمبولنسس وغیرہ بُلا لی تھیں جیساکہ ہم سارے پچھلے 3 دنون سے کراچی کے روڈ ون پر خوار ہو رہے تھے میں نے ڈی ایس پی علی رضا اور سجاد علی کو کہا کہ آپ اغواکار کی بیوی اور بچے کو لیڈیز تھانہ چھوڑ کر گھر چلے جائیں اور آرام کریں، اغوا کاروں کے لاشوں کی ذمیداری علائقہ ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کے حوالے کردی اور میں بھی گھر روانہ ہوگیا، راستے میں آئی جی کمال شاہ صاحب اور سی سی پی او صاحب کے فون آئے اور شاباش دے رہے تھے۔اور آئی جی صاحب نے دوسرے دن سارے ٹیم کے ساتھ سی پی او آنے کا حُکم کیا تھا۔
دوسرے دن آئی جی کمال شاہ صاحب، سی سی پی او کراچی طارق جمیل صاحب اور ڈی آئی جی سی آئی اے منظور مغل صاحب نے ساری ٹیم کو تعریفی اسناد اور نقد انعام سے نوازا اورآئی جی صاحب لڑکی کی بازیابی کے متعلق ایک ایک تفصیل پوچھتے رہے، میں نے اُن کو بتایا کہ ایک خاتون جس کے ساتھ ایک بچہ بھی ہے وہ ایک مارے گئے اغواکار کی بیوی ہے گرفتار ہوئی ہے میں اُس کو چھوڑنا چاہتا ہوں ۔ آئی جی صاحب نے کہا “ ؤہ اغواکاروں کی مدد گار رہی ہے اُس کو کیسے چھوڑا جاسکتا ہے ؟ میں نے اُن کو بتایا کہ”سر، جو لڑکی (فرح) خوف کے مارے اپنا نام تک غلط بتارہی تھی وہ عدالت میں گواہی کیا دے گی اور ہمارے کلچر کے مطابق عورت شوہر کو کیسے “نا” کر سکتی ہے ۔ دوسرا یہ کہ “ سر، ہم نے لڑکی کے شوہر سے اس وعدہ پر تعاون حاصل کیا ہے کہ کورٹ کچہری نہیں ہوگی۔اس موقعہ پر منظور مغل صاحب نے میرا ساتھ دیا آئی جی صاحب نے مسکرا کر کہا کہ “ کھوسہ صاحب جیسے آپ کی مرضی۔ کیس آپ کے پاس ہے آپ صحیح فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں” میں نے آئی جی صاحب کو مزید کہا کہ “ سر یہ خاتوں کیلئے سزا کم ہے کہ وہ اپنے شوہر کی لاش لیکر اپنے گھر جائے” کمال شاہ صاحب اردو پشتو کے مخصوص لہجے میں بولتے تھے میں اُن کے مخصوص لہجے کی وجہ اُن کی باتیں بڑی شوق سے سُنتا تھا وہ بات فوجی انداز میں کرتے تھے نہایت پریکٹیکل کسی بھی وقت پرائیویٹ کار میں اپنے کسی گارڈ کے موبائل فون سے شھر کے کسی حصے میں کھڑے ہوکر 15 کو فون کرتے کہ میرا فون چھینا گیا ہے وہ 15 کا ریسپانس ٹائم چیک کرتے اور سزا اور جزا کا فیصلہ دو ٹوک انداز میں کرتے تھے۔
ہم سب سی پی او سے دفتر پہنچے۔ عورت کو بُلواکر کہا کہ ؤہ آزاد ہے بھلے اپنے شوہر کی لاش اپنے ساتھ لے جائے، ایمبولنس کا کرایہ وغیرہ ہم ادا کرتے ہیں، عورت اپنے شوہر کی لاش لے جانے پر راضی نہ ہوئی، میں نے اس شک پر خاتوں سے کئی سوالات کر ڈالے کہ یہ عورت بھی آغوا شدہ تو نہیں ؟ مگر اُس نے دو ٹوک آنداز میں بتایا کہ اُس کی پیار کی شادی ہے، وہ ایک پڑھی لکھی سمجھدار اور مجبور خاتوں تھی، اور میں نے دوسرے جرائم کے متعلق پوچھا تو اُس نے لاہور میں اسی طرح کی 6 لڑکیوں کے اغوا اور تاوان اور پنڈی سے 3 لڑکیوں کے اغوا اور تاوان کا بتایا میں نے اُس سے سوال کیاکہ تم اپنے شوہر کا ساتھ نہ دیتیں انکار کردیتں۔ اس نے کہا کہ “صاحب انکار کرتی تو مجھے طلاق ہو جاتی تو میں کیا کرتی”۔ “ہمارہ معاشرہ اور رشتیدار ایک طلاق یافتہ عورت کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں ؤہ آپ کو نہیں پتہ”۔ اور میں اسی جواب کی توقع کررہا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم لوگ اپنی عورتوں اور بچوں کو روبوٹ کی طرح استعمال کرتے ہیں ۔
میں نے خاتوں کومشورہ دیا کہ وہ اپنے شوہر کی لاش لے جائے اور اپنی مرضی کی جگہ تدفین کرائے اور بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کل یہ بڑا ہوکر آپ سے پوچھے گا کہ والد کی قبر کہاں ہے ؟ خاتوں سر سے انکار کرتے ہوئے اپنا دوپٹہ چھرے پر رکھ کر زار و قطار رونے لگی وہ کچھ بول نہیں پا رہی تھی۔
میں نے ایک افسر کو کہا کہ عورت کو پانچ ہزار روپیہ دے کر بس اڈے پر چھوڑ آئے- اور تفتیشی افسر کو کہا کہ کیس دفتر داخل کردے۔ عورت کی آزادی کا فیصلہ اپنے ضمیر کے مطابق کیا، غلط کیا یا صحیح کیا یہ تو الللہ ہی جانتا ہے۔۔
دفتری کام سے جن لوگوں سے روزبہ روز واسطہ پڑتا ہے اُن سے ذاتی میل جول اور روابط کا قائل نہیں ہوں، کیس ختم ہونے پر اُن کے فون نمبر وغیرہ ڈلیٹ کرکے اُن کو ذہن سے نکال دیتا ہوں، اور میری یہ بُری عادت ہے کہ میں لوگوں کو جلدی بھول جاتا ہوں، راستے اور نام تو مجھے یاد ہی نہیں رہتے، تقریباً ایک سال بعد پرل کانٹینیٹل ہوٹل میں ایک شادی کی تقریب میں کھانے کے دو چمچ ہی لیئے تھے تو ایک خوبرو نوجوان جس ساتھ ایک خوبصورت لڑکی تھی مجھے آکر سلام کیا اور مجھے بتایا کہ “ کھوسہ صاحب یہ میری بیوی خالدہ ہے ابھی دو مہینے پہلے ہی ہماری شادی ہوئی ہے، میں نوجوان کو پہچاننے کی کوشش کرنے لگا، لڑکی نے بڑی گرمجوشی سے مجھے سلام کیا اور کہنے لگی یہ ہمیشہ آپ کا ذکر کرتے ہیں کہ آپ نے کس طرح ان کی پہلی بیوی فرح کو اغواکاروں کے چُنگل سے بازیاب کرآیا تھا۔ مجھے یاد آگیا کہ یہ نوجوان تو لڑکی فرح کا شوہر ہے۔ میں نے نوجوان سے پوچھا کہ فرح کہاں ہے تو نوجوان نے بتایا کہ فرح گھر واپس آنے کے بعد رات کو دھاڑیں مار کر روتی چیختی چلاتی تھی ہم نے کراچی کے بڑے بڑے نفسیاتی ڈاکٹروں سے اُس کا علاج کر وایا مگر وہ ٹھیک نہ ہوئی ڈاکٹروں کے مشورے سے گھر تبدیل بھی کر کے دیکھا مگر کوئی فائدا نہ ہوا بلآخر ہم نے اُسے نفسیاتی اسپتال ناظم آباد میں داخل کروا دیا ہے، مجھ سے تیسرا لقمہ لینا مشکل ہورہا تھا میں نے کھانے کی پلیٹ ٹیبل پر رکھ دی۔ اور اجازت طلب نظروں سے دونوں کو دیکھا۔
جس لڑکی کو آغوا کاروں سے واپس لانے کیلئے ہم نے دن رات ایک کردیا اُس بیچاری کا اسطرح کا افسوس ناک انجام ہوگا یہ تو میرے وہم اور گمان میں نہ تھا۔
نوجوان اور اُس کی بیوی کافی اصرار کر رہے تھے کہ کبھی اُن کے گھر کھانے پر آؤں میں نے اُن کو کہا آگر کبھی موقعہ ملا تو ضرور چکر لگاؤں گا۔
اس رائیٹ اپ لکھنے کا اصل مقصد لوگوں میں جرائم کے متعلق ایک بیداری پیدا کرنا اور مُلک کو weapon free اسٹیٹ نہ بنانے کی وجہ سے معصوم لوگ کس قدر مصیبت کا شکار ہیں اس کا اندازہ سیکورٹی کے حصار میں رہنے والی پولیس، عدلیہ ، پارلیامنٹ اور ادارے نہیں لگا سکتے ،عوام کی قسمت کے فیصلے وہ لوگ کرتے ہیں جن کے ماہانہ تنخوا 20 لاکھ ہے، اُن کے بچے بڑے پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں، جن کا علاج پرائیویٹ اسپتالوں میں ہوتا ہے،جن کے گھروں سے بجلی کبھی نہیں جاتی، جن کے گھرون میں کبھی ڈاکہ،چوری ، اغوا،اور خون آلود لاش نہیں آئی،اُن کو کیا پتہ کہ لوگ کن کن مصیبتوں سے گُذر رہے ہیں، مُلک میں دہشتگردی سے لاکھوں لوگ مارے گئے ہم Good طالبان اور Bad طالبان کے نام پر لوگوں کو دلاسہ دیتے رہے مگر جب Aps پشاور کے سانحہ میں ہمارے اپنے بچوں کی لاشیں گھر آئیں تب ہم کو پتہ چلا کہ دہشت گردی کس چیز کا نام ہے اور ہم نے دہشتگردوں کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا، مُلک سیدھا کیسے نہیں ہوگا آپ آج شکار کی بندوق کے علاوہ سارے اسلحہ پر پابندی لگاکر لوگوں کو ادائیگی کرکے اسلحہ واپس لیں،دوسرا ۔ ہم لوگ Cctv کیمرا کا پُرنا نظام بھی رائج نہ کرسکے آجکل کا Cctv کیمرا کانیا نظام جو Nadra سے منسلک ہوتا ہے جو بندہ کیمرا کے زد میں آئیگا اُس کا نام اور تصویر اپنے پاس store کر لے گا بلکُل اس طرح جس طرح Facebook پر تصویر آپ لوڈ کریں تو اُس کا نام اُسی وقت آجاتا ہے، تیسرا ۔ آپ موٹر سائیکلوں، کاروں اور سارے گاڑیوں کا مُلک گیر RF Identifier سسٹم لگوائیں، آپ مُلک میں جہاں سے گزریں گے CCTV سسٹم آپ نظر رکھے گا اور RF identifier یہ بتائے گا کہ آپ کون سی گاڑی استعمال کر رہے ہیں، آپ خود بتائیں کہ کون سا مائی کا لال کرائم کرے گا ؟ ہمارا %95 جرائم تو یہ تین کام کرنے سے ختم ہو جائیں گے، صرف حُکم کی دیر ہے ۔ مگر مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اس مُلک میں کچھ بھی نہیں ہونا۔