قصہ بیان ہوا کہ کسی بستی میں ایک چور رہتا تھا۔ اس کا بیٹا بلوغت کی عمر کو پہنچا تو چور اسے نقب زنی کا فن سکھانے کے غرض سے اپنے ہم راہ لے گیا۔ بستی کے جس گھر میں نقب لگائی، وہاں جھاڑو کا تنکا تک نہ چھوڑا۔ اگلے روز کا سورج ڈوبا، تو چور کا بیٹا گلی میں آ گیا، کہ دیکھے اس گھر کا کیا احوال ہے، جہاں گزشتہ شب واردات کی تھی۔ اپنے تئیں جس گھر کو خالی کر آئے تھے، اس کی چلمنوں سے چراغوں کی روشنی جھلک رہی تھی؛ چور کے بیٹے نے اپنے گھر پر نظر کی، تو وہاں اندھیرا تھا۔ وہ متحیر ہوا؛ باپ سے استفسار کیا، ”بابا رات ہم نے ان کے گھر سے سب کچھ چرا لیا تھا، اُن کے گھر پھر بھی دیا جل رہا ہے، جب کہ ہماری کٹیا میں روشنی کی رمق تک نہیں“؟
چور نے رسان سے کہا، ”بیٹا! چور کے گھر کا دیا کبھی نہیں جلتا“۔
چور نے یہ بتلا کر بیٹے کو جو سبق دیا، اس کی ایک حکمت یہ سمجھی جاتی ہے، کہ چور چوری کر کے دیا یوں نہیں جلا سکتا، کہ اسے چراغ کی باتی کا حساب دینا پڑے گا۔ اور یہ بھی کہ وہ کیا بتائے گا، تیل کس مزدوری سے خریدا۔ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے، کہ چور اندھیروں میں رہنے کا اتنا عادی ہو جاتا ہے، کہ روشنی میں اس کی آنکھیں چندھیاتی ہیں۔ اسے اندھیرے میں رہنا ہی مرغوب ہے۔ دیگر کئی وجوہ تلاش کی جا سکتی ہیں، لیکن واقعہ یہی ہے کہ چور کے گھر کا دیا کبھی نہیں جلتا۔
انصاف وہ دولت ہے، جسے چور چرانے آتے ہیں۔ سماج میں انصاف نہیں ہے اور یہ نہیں کہ اس کا کوئی تن تنہا ذمہ دار ہے۔ آئین و قانون کا احترام نہ کرنے والے، در اصل چور ہیں۔ آئین کے مطابق جمہور کی رائے مقدم تسلیم کی جاتی ہے؛ جمہور کی رائے چھیننے والے، اس پر پابندیاں لگانے والے، جمہور کے سامنے کٹھ پتلیاں نمایندے کھڑے کرنے والے، جمہور کی رائے کو دھوکے سے بدل دینے والے، جمہور کی رائے کی توہین کرنے والے، جمہور کی رائے کو بریانی کی پلیٹ قرار دینے والے چوروں کے گھر کا دیا کبھی نہیں جلنے والا؛ کیوں کہ چوری کرنے والے کا من داغ دار ہوتا ہے، اور اسے تاریکی میں امان ملتی ہے۔ وہ روشنی سے ڈرتا ہے؛ اجالے اسے متنفر کرتے ہیں۔ یہاں دیے سے مراد قابضین کا اختیار نہیں ہے، یہ دیا، یہ ’روشنی‘ تاریخ کے صفحے ہیں، جہاں ان کا مقدر ’سیاہی‘ لکھا ہے۔ جمہور وہ دیا ہیں، جو چور کے گھر نہیں جلتا۔ اس دیے کو چاہے جتنی بار چرالیں، کیسے بھی جتن کرلیں، چور کے کٹیا میں اجالا نہیں ہوگا۔
سوال وہی ہے کہ ایسے میں کیا کیا جائے جب جمہوری نمایندے چوروں کا پتا بتاتے ڈرتے ہوں؟ کیا ان میں سے بہت سے وہی نہیں ہیں، جو چور کی مدد سے جمہور کے نمایندے بنے؟ حالات نے انھیں آئین و قانون کے چوروں سے جدا کر دیا ہے، تو ان کا انجام یہ ہے کہ جمہور کے یہ نمایندے اپنے ٹھکانے لگ جائیں، یا جمہور کے سچے نمایندے بننے کے دعوے دار ہیں تو خطرات پار کر جائیں۔ ماضی کی غلطیوں کا کفارہ ادا کریں، اقرار کریں کہ ہم بھٹکے ہوئے تھے۔ جمہوری راج کے آمین ہیں، تو چوروں کے سردار کا نام لیں؛ چاہے گواہی کی سزا پائیں۔ دل صد امید! ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا، اور چور ایک بار پھر نقب لگانے کی طرف گام زن ہے؛ تو ٹھیک ہے، سزا تو ایسے جمہوری رہ نماوں کا مقدر ہے، سچ بولیں یا جھوٹ۔ مشاہدہ یہی ہے کہ گھر پہ چور کا راج ہوا، تو گھر میں دیا نہیں جلتا۔ سوال جمہوری نمایندوں سے نہیں کہ ان کے پاوں میں جانے کون سی بیڑیاں ہیں۔ سوال تو جمہور سے کرنا بنتا ہے، کیا جمہور ایک بار پھر اندھیرے گھر میں رہنے کے لیے تیار ہیں؟