دماغ کیا ہے؟ کچھ حصہ ریپٹائل، کچھ حصہ میمل، کچھ حصہ پرائمیٹ، کچھ حصہ ہومو سیپین۔ ایک بے چین امگڈالا، کبھی ڈوپامین کا متلاشی، کبھی آکسی ٹوکسن کے زیراثر۔ ایک ناقابلِ بیان کنکنشز کی پیچیدہ لڑی جن کے دھاگوں کو جینز نے اور زندگی کے تجربوں نے مل کر بُنا ہے۔ پیٹرن اور لہروں کی چلتی پھری اسمبلی۔ نیورون کے کلسٹر جو ایک دوسرے سے مل کر فائر کر رہے ہیں۔
جب میں لوگوں سے ذہن کی اس تصویر کے بارے میں بات کرتا ہوں تو جن لوگوں نے برین سائنس میں حالیہ پیشرفت کے بارے میں نہیں پڑھا ہوتا وہ اس میں دلچسپی لیتے ہیں۔ ان کو میں اثبات میں سر ہلاتا دیکھتا ہوں اور ان خیالات کو سمجھ لیتے ہیں۔ کچھ اور لوگ ہیں جن کا ایک مختلف ردِ عمل سامنے آتا ہے۔ جب وہ دماغ کے ان سب سسٹمز کے بارے میں سنتے ہیں تو لگتا ہے کسی پریشانی کا شکار ہو گئے ہیں۔ ان کے ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ “اگر اس الیکٹروکیمیکل گرڈ کے اس قدر حصے ہیں تو پھر ایک ہی عکس کیوں اور میں ایک کیوں ہوں؟” یہ سوچ خود اپنے اندر وزن اور ایک بصیرت رکھتی ہے۔
بہت سے ماڈیول اور ان میں سے نکلتا ایک اکیلا شخص۔ ممجھے خود ذہنی مشق کرنی پڑی تھی اور وقت لگا تھا کہ ذہن کے ان دونوں الگ ماڈلز کے بارے میں تصویر بیک وقت بنا سکوں۔ نیورونز کا ایک بڑا ڈھیر اور پھر اس میں سے نکلنے والی پرسرار سا فلیش۔ اس دماغ کے بہت سے تضادات میں سے ایک اور دیانتدارانہ اھساس ہے۔ میں ایک ہی وقت میں ایک ہوں اور ایک ہی وقت میں الگ الگ خیالات کا پورا ایکوسسٹم۔
جب میں اس سائنس کی نئی پیشرفت کا بتاتا ہوں تو کئی بار ایک اور قسم کا ردِ عمل بھی آتا ہے جس کو سننے کا میرے میں زیادہ صبر نہیں۔ وہ خیال یہ ہے کہ گویا زہن کو جان لینا کوئی شجرِممنوعہ ہے۔ اس کی سائنس سے اس کا اسرار ختم ہو جائے گا، سب کچھ بے معنی ہو جائے گا۔ ہمارے ذہن کے بارے میں بات کرنا شاعروں اور فلسفیوں کا کام ہے، نہ کہ فنکشنل ایم آر آئی کی مشینوں جیسے آلات کا۔ اس جادوئی چیز کو کسی مشینری کی طرح نہیں پڑھنا چاہیے۔
اس قسم کے ری ایکشن میں دو بڑی غلطیاں ہیں۔ پہلی تو یہ کہ اس کو پڑھنے کی ٹیکنالوجی اور اس کی سائنس میں ہی بہت سا جادو ہے۔ اپنے دماغ میں جھانک لینا، خون کے بہاوٗ کے خوردبینی پیٹرنز کو دیکھ لینا، برقی ایکٹیویٹی کو محسوس کر لینا۔ خود اپنی سوچ کو نیورون کے لیول پر جا کر دیکھ لینا۔ یہ تصویر کسی جادو سے کم تو نہیں۔ قدرت نے مادے کے ساتھ کھیل کر چودہ ارب سال میں جتنی چالیں چلی ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی اس چیز کا مقابلہ نہیں کر سکتی کہ ان درجنوں نیورل سسٹمز میں سے ایک مربوط شخص کیسے نکل آتا ہے۔ جتنا زیادہ ہم اس کے کام کرنے کے طریقے کے بارے میں جانتے جاتے ہیں، یہ آلہ اتنا ہی جادوئی لگتا جاتا ہے۔ جتنا اس کے بارے میں دریافت کرتے جاتے ہیں، ویسا ہی اس کی صناعی کی باریکیوں میں گم ہوتے جاتے ہیں کہ زندگی کا ایک ایک پل، ہر تجربہ کس طرح ان نیورونز اور ان کے فائرنگ پیٹرنز سے نکلتا ہے۔ دماغ کے آرکیٹکچر کا ایک حصہ ہے جو ہم تمام انسانوں کے ساتھ شئیر کرتے ہیں اور کچھ حصہ ہے جو ہم دوسرے جانداروں کے ساتھ بھی۔ اور اسی آرکیٹکچر کا ہی ایک حصہ ہے جو ہر فرد میں منفرد ہے اور پھر کمال یہ کہ یہ اپنی شکل کو بدلتا رہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب میں اپنے بچے کو سوتا دیکھ رہا ہوں اور ایک پرسکون سی کیفیت میں ہوں تو اس کا کچھ حصہ تو وہ ہے جو دوسرے ممالیہ کے ساتھ شئیر کرتا ہوں۔ یہ اگلی نسل کے ساتھ محبت کا معجزہ ہے۔ لیکن اس کا ایک اور پہلو بھی ہے جو اس کی کیمیائی تفصیل ہے۔ ویژوئل کورٹیکس پر نیورون کے فائر ہونے کا مخصوص پیٹرن، اس کے چہرے کے خدوخال رات کو روشن ہلکی روشنی میں نظر آ رہے ہیں، ان کو دیکھ کر دماغ میں بننے والا یہ پیٹرن دنیا میں صرف اور صرف مجھ سے ہی خاص ہے۔ اس لمحے پر ہونے والی برین کیمسٹری کو جاننا، جو نیورونز کی میری انفرادی اسمبلی ہے جو اس کے چہرے کا میری آنکھ پر بننے والا عکس مجھ پر اثر کرتا ہے۔ اس کے پیچھے احساسات کی ارتقائی تاریخ، اپنے تمام آباء کی تاریخ، والدین کے جذبات کی تاریخ اور کیمسٹری سب کچھ اس ایک لمحے میں سمٹ آئی ہیں۔ میرے نیورونز کی یہ گنگناہٹ نہ صرف مجھ سے منفرد ہے بلکہ اس کا سفر غیرمعمولی ہے۔
اگر زندگی کی یہ تصویر شاندار نہیں تو پھر شاندار کے لفظ کے کوئی معنی نہیں۔ یہ جاننے سے کہ میرے بچے کے لئے محبت مجھ میں کہاں سے آئی ہے، محبت کا معجزہ ویسا ہی رہتا ہے۔
ایسے افراد کا ایک اور اعتراض یہ ہے کہ انسان کو بائیولوجی یا سائنس کے ذریعے سمجھنے کی کوششیں انسان کی اہمیت کو کم کر دیتی ہیں۔ کچھ کھو جاتا ہے۔ جس طرح قوسِ قزح ریفریکٹ ہونے والی روشنی ہے، لیکن پھر بھی ویسی ہی خوبصورت۔ ویسے دماغ مقابلہ کرنے والے ماڈیولز کا ڈبہ ہے۔ جس نے بھی دماغ کے بارے میں سائنسی لٹریچر پر وقت صرف کیا ہو ہے، وہ جانتا ہے کہ یہ کس پیچیدہ ماڈل ہے۔ فرائیڈ کی تھیوری آف مائینڈ سے کہیں زیادہ تہیں رکھنے والا اور کہیں زیادہ پیچیدہ۔ شکسپئیر یا ارسطو کے کاموں سے کہیں زیادہ گہرا۔ اور ایک فرد کا دماغ تو کسی بھی تھیوری سے زیادہ پیچیدگی رکھتا ہے۔ اس کو آبجیکٹ سے ماڈل میں بدلنا ایک ضروری قدم ہے جو ذہن کے کسی بھی ماڈل کو کرنا ہی پڑتا ہے خواہ وہ فلسفی لکھے، شاعر یا نیوروسائنٹسٹ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ذہن سائنس کی ڈومین ہی نہیں، ہیومینیٹیز کی ہے۔ ذہن کلچر بناتا ہے تو اس کو پڑھنا بھی کلچر بنانے والوں کا علاقہ ہے۔ یہ اعتراض اس وقت درست ہوتا، اگر سائنسدان اس حقیقت کو تسلیم نہ کرتے۔ بائیولوجی اور سوسائٹی، فطرت اور پرورش، سائنس اور انسانیت، یہ سب مل کر اس کو سمجھ سکتے ہیں۔ برین سائنس سے بائیولوجیکل فنکشن کو سجھنا کلچر کی کامیابی کو مزید نمایاں کر دیتا ہے۔ بائیولوجیکل نکتہ نظر سے دیکھنے کا مطلب یہ نہیں کہ کسی اور نکتہ نظر سے اس کو نہیں دیکھا جائے گا۔ ای او ولسن اس کو تجربات کی مختلف تہوں کی صورت میں بیان کرتے ہیں۔ ہر ایک کی اپنی ڈکشنری اور مہارت لیکن ایک کی مدد سے ہم دوسرے کی سمجھ کو بہتر بنا لیتے ہیں۔
سٹیو پنکر اس کو بڑے اچھے طریقے سے ایسے بیان کرتے ہیں کہ “ایک شعبے میں استعمال ہونے والے بلڈنگ بلاک کو ہم دوسرے شعبے میں خوردبین لگا کر دیکھتے ہیں۔ ایک جغرافیہ دان یہ بتا سکتا ہے کہ جنوبی امریکہ اور افریقہ کا ساحل ایک دوسرے سے اس لئے میچ کرتا ہے کہ یہ کبھی ایک ہی زمین کا حصہ تھے۔ یہ سب الگ کیوں ہوئے اور ٹیکٹانک پلیٹیں ہلتی کیسے ہیں؟ یہ جاننے کے لئے جیولوجسٹ سے رجوع کرنا پڑے گا۔ جو بتائے گا کہ میگما کس طرح اوپر کی طرف آتا ہے اور ان کو جدا کر دیتا ہے۔ یہ میگما گرم کیسے ہوا، اس کے لئے فزکس والا بتائے گا۔ ہمیں ان سب شعبوں کی ضرورت ہے۔ کسی تنہا جغرافیہ دان کو پلیٹوں کے ہلنے کی وضاحت جادو سے کرنا پڑے گی”۔
یہی وہ اپروچ ہے جس کی وجہ سے جب کوئی بائیوگرافی لکھی جاتی ہے تو اس کا آغاز کثیرخلوی آرگنزم کے ارتقا سے نہیں کیا جاتا یا امپریشن ازم کے عروج کے لئے روشنی کی فزکس سے آغاز نہیں لیا جاتا۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر کتاب کی ابتدا بگ بینگ سے کرنا پڑتی اور کچھ بھی سمجھ نہ آتا۔ روایتی کہانیاں جو ایک ہی تہہ تک رہتی ہیں، خود بہت اچھی ہوتی ہیں اور لائیبریریاں اور کتابوں کی دکانیں اس سے بھری پڑی ہیں لیکن یہ پوری کہانی کا ایک ہی حصہ ہوتے ہیں۔ اصل مزا ان تہوں کی زنجیروں کو جاننے کا ہے۔ نیوروسائنٹسٹ یہ بتا سکتا ہے کہ دماغ کا الیکٹروکیمیکل نیٹ ورک کیسے کام کرتا ہے۔ ارتقائی سائیکولوجسٹ یہ بتا سکتا ہے کہ سیکھنے کا یہ نیٹورک سیکھنے کے اور جبلتوں کے چینل کیونکر بناتا ہے۔ سوشیولوجسٹ یہ بتا سکتا ہے کہ جب بڑی تعداد میں افراد اکٹھے ہوتے ہیں تو ان چینلز کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ پولیٹیکل تھیورسٹ اور اخلاقی لیڈر معاشرے ان گروہوں کے رویوں کے پیٹرن سے انفرادی ضروریات کو پورا کرنے کے اور معاشرے کی بہتر تعمیر و تشکیل کرنے کے طریقے ڈھونڈ سکتے ہیں۔ موٗرخین یہ بتا سکتے ہیں کہ یہ مختلف تہیں تاریخ کے چکروں میں کیسے متصادم رہی ہیں۔
اس سب زنجیروں میں بائیولوجی کا علم کسی چیز کو بھی ہائی جیک نہیں کرتا۔ کیونکہ ہم محض اپنے نیورون اور ڈی این اے کے قیدی نہیں ہیں۔ کلچرل سسٹمز میں اس کا اضافہ باقی علوم پر مزید بہتر روشنی ڈال سکے گا۔ کہاں پر دماغ کا کونسا حصہ مزاحمت کرتا ہے۔ کیا کمزوری ہے اور کیا طاقت۔ جب ہم اس کی نیچر کو سمجھ لیں گے تو اس کی پرورش بھی زیادہ اچھی کر لیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلچر کی کرسی دماغ ہے۔ کلچر اس کی بائیولوجی سے پھوٹتا ہے۔ جیسے ایک بیل پر اگنے والے پھول ہوں۔ اپنے سپورٹ سسٹم سے زیادہ خوبصورت لیکن اس پر منحصر۔ اپنی زندگی کی اصل کہانیوں کو سمجھنے کے لئے صرف یہ پھول کافی نہیں۔ ان پھولوں سے، شعروں سے، فلسفوں سے، ناولوں سے بڑھ کر اپنا عکس ان پیٹرنز اور لہروں میں، برقی اور کیمیکل سگنل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ کیا یہ سب جاننا ممکن بھی ہو سکتا ہے؟ یہ ہمارے دور کا سب سے بڑا معجزہ ہے۔ ہمارا ذہن اب کھلا پڑا ہے، شاعروں اور فلسفیوں کے خواب و خیال سے بھی زیادہ شفاف طریقے سے ہمارے سامنے۔ کیوں نہ اب اس میں جھانک کر دیکھیں؟
یہ ترجمہ اس کتاب سے
Mind Wide Open: Steven Johnson