چودھری جہاں داد نے ملک دین محمد سے بدلہ لینا تھا۔ جاگیریں ساتھ ساتھ تھیں۔ دشمنیاں بھی جاگیروں کی طرح نسل در نسل منتقل ہو رہی تھیں۔ چودھری جہاں داد نے اپنے ایک کارندے کو، جس کا خاندان کئی پشتوں سے اس کے کھیتوں سے غلہ اور حویلی کے تاریک کمروں سے گناہ سنبھال رہا تھا‘ حکم دیا کہ ملک دین محمد کے بھتیجے کو قتل کردے۔ یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ پولیس اور ضلعی انتظامیہ چودھری کی جیب میں تھی۔ کارندے نے قتل کردیا۔ تھانوں، کچہریوں کا سلسلہ چلا، دو اڑھائی سال جیل میں گزارنے کے بعد کارندہ باہر آ گیا۔ ملک دین محمد نے قتل کا بدلہ کارندے سے نہیں، چودھری سے لینا تھا اور یہ کام اس کے اپنے کارندے نے کرناتھا۔ پولیس کارندوں کو پکڑتی تھی۔ چودھریوں یا ملک خاندان کو کوئی نہیں پوچھتا تھا۔ یہ قصہ ہم مکمل کرتے ہیں لیکن درمیان میں شاہ عالم یاد آ رہا ہے۔
اس ’’ہمہ مقتدر‘‘ مغل بادشاہ شاہ عالم کے اقتدار کا یہ عالم تھاکہ مرہٹے شاہی قلعے کے اردگرد دندناتے پھرتے تھے اور جگا ٹیکس، جسے وہ چوتھ کہتے تھے‘ کھلم کھلا وصول کر رہے تھے۔ تب یہ محاورہ بنا کہ ’’سلطنت شاہ عالم۔ ازدلی تا پالم‘‘۔ پالم دلی کا نواحی علاقہ تھا جہاںاب ہوائی اڈہ ہے۔ ہمارے حکمران ہر لحاظ سے، عقل اور نقل ہر دو حوالوں سے، مغلوں کے جانشین ہیں۔ دارالحکومت میں ایک معروف سرکاری عمارت کا، جس کے دالانوں سے سلطنت چلائی جا رہی ہے‘ مشاہدہ کیجیے، مغل طرز تعمیر صاف نظر آئے گا۔ جمہوریت بھی مغل بادشاہت کے لبادے میں لپٹی ہوئی ہے۔ جو لفظ منہ سے نکل گیا، قانون بن گیا۔ سلطنت شاہ عالم بھی ریڈ زون کے اندر ہے یا لاہور کے نواحی محلات میں۔ باقی ملک میں سلطنت ہے نہ حکومت، قانون ہے نہ کوتوالی۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ ہدایات دے رہے ہیں کہ پٹرول کی قیمتوں کی کمی کا فائدہ عام آدمی کو پہنچایا جائے۔ کہیں عام آدمی کو فائدہ دینے کیلئے تجاویز مانگی جا رہی ہیں لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ اندرون ملک کا تو سوچیے بھی مت، عین وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں میں حکومت نام کی کوئی شے نظر نہیں آ رہی۔ پٹرول پمپ بند کر دیے گئے ہیں۔ نئی قیمتوں کا وجود ہی کوئی نہیں۔ صوبائی حکمران حسب معمول لندن میں ہیں اور صوبے کو وہیں سے چلایا جا رہا ہے۔ قیمتوں میں اضافہ ہو تو نفاذ فوراً ہوتا ہے، کمی ہو تو پٹرول پمپ بند ہو جاتے ہیں۔ روٹی کی قیمت بھی وہی ہے اور رکشے کا کرایہ بھی۔ حکمران روٹی کھاتے ہیں نہ رکشے میں سوار ہوتے ہیں۔ اگر کیک میسر آتا رہے تو روٹی کون کھائے گا۔
تاہم ایک حوالے سے موجودہ حکمران مغلوں سے آگے بڑھ چکے ہیں۔ شاہ عالم کی سلطنت کم از کم پرانی دہلی کے گلی کوچوں میں تو موجود تھی۔ ہماری حکومت دارالحکومت کے پرانے گلی کوچوں سے بھی رخصت ہو چکی ہے۔ دارالحکومت کے امیر ترین سیکٹروں میں سے ایک میں یکے بعد دیگرے دو وارداتیں ایک ہی وقت میں ہوئیں۔ لطیفہ یہ ہوا کہ ایک متاثرہ صاحب خانہ کے بقول، واردات کے بعد پولیس کا افسر اس کے گھرآیا تو وہیں ٹیلی فون پر افسر کو اطلاع ملی کہ ایک اور ڈکیتی ہو گئی ہے۔
رہا صوبائی دارالحکومت تو وہاں صورتحال دہلی اور پالم دونوں کو مات کر رہی ہے۔ ٹرانسپورٹروں نے کرائے کم کرنے سے انکار کرتے ہوئے دلیل دلچسپ دی ہے کہ حکومت خود ٹرانسپورٹروں سے سرکاری فیس کی مد میں جگا ٹیکس لے رہی ہے اور اس میں ایڈمنسٹریشن پوری طرح ملوث ہے۔ ادھرشاہ عالم قبر میں کروٹوں پرکروٹیں لے رہا ہے۔ دوسری طرف مرہٹے جہنم میں جلوسوں پر جلوس نکال رہے ہیں اور داروغوں کے قابو میں نہیں آ رہے۔ مطالبہ یہ ہے کہ جو کچھ وفاقی دارالحکومت میں عین ایوان اقتدار کی دیواروں کے نیچے ہو رہا ہے‘ اس کے پیش نظر تاریخ کی کتابوں سے مرہٹہ تاخت و تاراج کا ذکر خارج کر دیا جائے۔
چودھری جہاں داد اور ملک دین محمد کی لڑائی کی طرف واپس چلتے ہیں۔ یہ جاگیرداری کا مرکزی فیچر تھا کہ پالتو کارندے رکھے جائیں۔ سزا ملے تو انہیں ملے‘ جو قتل کرواتے تھے اور ڈاکے ڈلواتے تھے۔ وہ یوں محفوظ رہتے تھے جیسے بتیس دانوں کے درمیان زبان۔
آپ کا کیا خیال ہے جب حکومت جاگیردارں سے صنعت کاروں کو اور دیہاتی علاقوں سے شہروں کو منتقل ہوئی توکارندے پالنے کا کلچر ختم ہو گیا؟ نہیں! بالکل نہیں! یہ کلچر صنعت کاروں اور شہری جائیدادوں کے کروڑ پتی مالکان نے اپنا لیا۔ لیکن یہاں ایک اور المیہ رونما ہوا۔ خود پولیس نے چودھری جہاں داد اور ملک دین محمد کا کردار سنبھال لیا اور کارندوں کی پرورش اور نگہداشت شروع کردی۔
حکومت شہری کھرب پتیوں کو منتقل ہوئی تو انہوں نے ہاریوں اور مزارعوں کے بجائے پولیس کے افسروں کو کارندوں کے طور پر پالنا شروع کردیا۔ یہ ہر محکمے میں، ہرمنصب پر، ہر آئینی اور انتظامی کرسی پر جو ریٹائرڈ پولیس افسر نظر آ رہے ہیں، یہ بغیر سبب کے نہیں! ان میں سے اکثریت ان اہلکاروں کی ہے جو نوکری کے دوران ’’کارندوں‘‘ کے طور پر کام کرتے رہے۔ تنخواہ اور مراعات ریاست سے لے رہے تھے۔ وفاداریاں شاہی خاندانوں سے تھیں۔ تین سال ہوئے ایک معتبر شخص نے بتایا کہ اس کا دوست جو پولیس افسر تھا، ریٹائر ہوا اور فوراً ہی نوکری مل گئی۔ تفصیل اس نے یعنی ریٹائرڈ اور مصروفیت یافتہ افسر نے یہ سنائی کہ کیریئر کے آغاز ہی میں ایک اہم شخصیت نے ’’دوستی‘‘ کی پیشکش کی جو قبول کرلی گئی! سارا کیریئر اس دوستی کے سائے میں گزرا۔ ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد ایک اور اعلیٰ منصب مل گیا۔
اب یہ طے ہے کہ پبلک سروس کمیشن ہو یا پیمرا یا نیپرا کی قبیل کے ادارے، یا ایڈوائزری مناصب، یہ سب کچھ ان کیلئے ہے جنہوں نے وفاداریاں نبھائیں۔
لیکن دلچسپ ترین صورتحال اس سزا نے پیدا کی ہے جو گلوبٹ کو ملی ہے۔ چودھری جہاں دادا اور مک دین محمد جیسے جاگیردار اپنے کارندوں کی دیکھ بھال تو کرتے تھے۔ قتل کراتے تھے یا ڈاکہ ڈلواتے تھے‘ جیل سے کارندوں کو واپس بحفاظت منگوا لیتے تھے۔ پولیس نے تو حد کردی۔ وہ پولیس افسر بھی غائب ہے جس نے گلوبٹ سے معانقہ کیا تھا۔ اور وہ ساری پولیس فورس بھی جو گلو کی کارکردگی کو بہ نظرِ تحسین دیکھ رہی تھی‘ نظر نہیں آ رہی۔ گلوبٹ قیدتنہائی بھگت رہا ہے۔ جو انصاف ہوا ہے اس کے بارے میں کچھ کہا جائے تو پر جلنے کا امکان ہے۔ کسی نے نہیں پوچھا کہ شیرپنجاب کا خطاب کس نے دیا تھااور درجنوں گاڑیوں کی شکست و ریخت کس کی اور کن کی سرپرستی میں سرانجام دی گئی تھی۔
گلوبٹ جیل میں ہے۔ اس کی پرورش اور نگہداشت کرنے والے زندہ و سلامت ہیں اورآزاد ہیں۔ گلوبٹ کو وہ بھول چکے ہوں گے۔ نیا گلوبٹ اس وقت تک تلاش کرلیا ہوگا۔مجید امجد کی شہرئہ آفاق نظم ’’پنواڑی‘‘ یاد آ رہی ہے۔ پنواڑی کی ارتھی اٹھتی ہے تو:
صبح کو اس کا کمسن بالا بیٹھا پان لگائے
چونے والی کٹوری ٹھن ٹھن ٹھن ٹھن بجتی جائے
ایک پتنگا دیپک پر جل جائے، دوسرا آئے
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔