بالی ووڈ کی ایک فلم “ڈرٹی پکچر” میں محترم نصیر الدین شاہ صاحب ودیا بالن صاحبہ کو چھو رہے ہوتے ہیں اور اس پر وہ گیت میں شکوہ کر رہی ہوتی ہیں کہ انہیں نہ چھوا جائے جسکی وجہ تسمیہ پورے گیت میں وہ یہ بیان کرتی ہیں کہ چونکہ اب وہ بچی نہیں رہیں جوان ہو چکی ہیں، اس لیے شاہ صاحب کے ارادے خوب سمجھتی ہیں۔ لہذا ادب آداب کو ملحوظِ خاطر رکھا جاوے تو اس میں دونوں کی فلاح و اصلاح کا پہلو مضمر ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا نصیر الدین شاہ صاحب نے واقعتاً ودیا بالن صاحبہ کو چھوا؟ اسکا جواب پانے کے لیے ہم سائنس کے عمیق سمندر میں ٹائٹن آبدوز کی طرح ڈبکی لگا کر ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سائنس اس حوالے سے کیا کہتی ہے؟ کہ کیا ہم کسی شے کو دراصل چھو سکتے ہیں؟
چھونا دراصل انسان کی پانچ حسیات سونگھنا، دیکھنا، سننا، چکھنا اور چھونا میں شامل ہے۔ مگر چھونا دراصل ہے کیا؟
آج ہم جانتے ہیں کہ تمام مادی اشیاء ایٹموں سے بنی ہیں۔ سادہ ایٹم کے ماڈل میں ایٹموں کے مرکزے میں پروٹاںز اور نیوٹرانز ہوتے ہیں۔ پروٹان پر مثبت چارج ہوتا ہے۔نیوٹران پر کوئی چارج نہیں ہوتا۔ (جس طرح ہماری اشرافیہ کے بڑوں پر جرم کرنے کے باوجود کوئی چارج نہیں ہوتا). مرکزے کے گرد الیکٹرانز ہوتے ہیں۔ایک الیکٹران کا چارج منفی ہوتا ہے۔
دو الیکٹرانز کا ایک دوسرے سے شادی پر نہ بلائے جانے والے رشتہ داروں کی طرح دور بھاگتے ہیں۔
تمام روز مرہ کی اشیاء جو مادی وجود رکھتی ہیں ان تمام کی سطح پر انکےایٹموں کے الیکٹرانز موجود ہوتے ہیں۔ آپ اس وقت ہاتھ میں جو موبائل فون پکڑ کر بیٹھے ہیں اور اس پر یہ پوسٹ پڑھ رہے ہیں تو دراصل آپکے ہاتھوں کی سطح پر موجود الیکٹران اور موبائل فون کی سطح پر الیکٹران ایک دوسرے کو اپنے سے دور یعنی ریپیل کر رہے ہیں جیسے دو مقناطیس کے ایک جیسے پول ایک دوسرے کو ریپیل کرتے ہیں۔گویا آپکے ہاتھوں اور موبائل فون کے الیکڑانز، آپکو اور آپکے موبائل فون کو دو پیار کرنے والوں کے درمیان آنے والے سماج کی طرح ملنے سے روک رہے ہیں، مزاحمت کر رہے ہیں۔مگر آپکا دماغ الیکٹرانز کی اس باہمی مزاحمت کو ایک احساس سمجھتا یے جسے ہم چھونا کہتے ہیں۔
مگر تصویر محض اتنی سادہ نہیں ہے۔کوانٹم ورلڈ میں جائیں تو یہ پاؤلی ایکسکلوژن پرنسپل ہے جو ہمیں کسی شے کو چھونے سے روکتا ہے۔ یہ اُصول یہ کہتا ہے کہ دو الیکٹرانز ایک کوانٹم سٹییٹ میں نہیں رہ سکتے۔ اس لیے جب دو مخلتف اشیاء کی سطح کے الیکٹران ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں تو یہ ایک تو ایک دوسرے کو ریپیل کرتے ہیں اور دوسرا یہ ایک دوسرے کے ایٹموں میں نہیں گھستے پاؤلی ایکسپون پرنسپل کی وجہ سے۔
گویا اب سائنس کی رو سے دیکھا جائے تو نصیر الدین شاہ صاحب کا دامن اس گیت میں پاک ہے کہ اُنہوں نے واقعتاً ودیا بالن جی کو نہیں چھوا البتہ ناظرین، پولیس یا عدالت کی رائے اس پر مختلف ہو گی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...