چونی اور پچاس روپے (ہیپی فادرز ڈے)
کیرؔ گاؤں کے تھڑے والے سرکاری اسکول میں فیس (بلکہ چندہ) دو آنے ہوا کرتا تھا اور میرے دادا مجھے چار آنے جیب خرچ روزانہ دیا کرتے۔ میں نے اس چار آنے سے کتنی امارت دیکھی آج کے اسکول گوئنگ سوچ بھی نہیں سکتے۔ شکرقندی، برف کے گولے، اور مصالحے والے چنے، شائد اس کرہ ارض پر یہ نعمتیں اترنا بند ہوگئیں ہیں اب۔
کئی سال میں اس اسکول جاتا رہا اور میرا جیب خرچ بھی بڑھتا رہا، اور محنت کرتے دادا کی ہتھیلی کی پھٹی لکیریں بھی۔ اسکول سے کالج جاتے روزانہ دس، بیس، پھر پچاس روپے لیتے مجھے کبھی خیال ہی نہ آیا کہ محنت مزدوری کرنے والے ہاتھ بوڑھے ہوتے جارہے ہیں۔
وقت کچھ اور سرکا، کمانے والے ہاتھ اور بوڑھے ہوگئے۔ مجھے جاب، پھر اچھی جاب، اور پھر بہت اچھی جاب ملتی گئی۔ حالات بدلتے چلے گئے۔ دادا بوڑھا ہوگیا، پوتا جوان اور کماؤ پوت۔ ملکوں ملکوں گھومتا، اور جب واپس آتا تو گھڑی دو گھڑی دادا کے پاس بیٹھ کر اپنا "فرض ادا" کر دیتا۔
ایک روز بیرون ملک ملازمت سے چھٹی گذارنے کے بعد پیکنگ کر کے ائرپورٹ کو نکلنے کی تیاری تھی۔ حسب معمول دادا کی چارپائی پر بیٹھ کر کہا، باباجی، میں جا رہا ہوں۔ دادا کی نگاہیں اٹھیں، بڑھاپے اور کمزور یاداشت کے باوجود ان آنکھوں میں میری آواز سے جو چمک آتی تھی، وہ لفظ بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ شائد کبھی آپ نے کسی بھٹکے ہوئے جہاز کے ملاح کی خشک آنکھوں میں ساحل کی امید جاگتی دیکھی ہو۔
اچھا، اچھا، جاؤ، خیری خیری ۔ دادا نے لرزتے ہاتھ اٹھائے۔ پھر جھجھک کر اپنے جسم پر ہی رکھ لیے اور اپنی پسلیوں کو محسوس کرنے لگے۔ پھر ایک مسکراہٹ انکے چہرے پر نمودار ہوئی۔ یکدم اپنی قمیض کے نیچے پہنے سلوکے میں ہاتھ ڈالا، اور کانپتی انگلیوں سے بٹوا نکالا۔ میں حیرانی سے دیکھ رہا تھا، دادا نے بٹوا کھولا تو اس میں اکلوتا پچاس کا نوٹ تھا۔ شائد دادی یا امی سے لے کر رکھا تھا، کہ عرصے سے بستر تک محدود تھے۔ پھر میری حیرت نے دیکھا کہ انہوں نے اپنا اکلوتا پچاس کا نوٹ نکالا اور میرے ہاتھوں میں دے دیا۔ اور وہی الفاظ دہرائے، جاؤ، کوئی چیز لے لینا۔
میرا جسم تو وہاں سے اٹھ آیا کہ جانا تو تھا، مگر میری روح وہیں پتھر ہوگئی۔ ساری زندگی میری ہتھیلی پر جیب خرچ رکھنے والے کے لیے آج بھی میں وہی چھوٹا سا بچہ تھا، جس نے بستہ لے کر اسکول جانا ہے۔ میں نے حلق میں لگے پھندے کے ساتھ بھیگتی آنکھوں چھپایا اور اس نوٹ کو اپنے بٹوئے کی سب سے اندرونی تہہ میں رکھ لیا، جو اگلے کئی سال میری جیب بھرتا رہا۔
لاہور ائیرپورٹ سے جہاز اڑا تو کینٹ میں رہنے والا میرا دادا عین میرے جہاز کے نیچے کہیں لیٹا کھانس رہا تھا، اور فضا میں میں حلق میں پھنسے آنسوؤں کو نگلنے کی ناکام کوشش میں تھا۔ کیا پالنہار بھی باپ/دادا ہی کی شکل کا ہوتا ہے، جو ہمیشہ آپ کو دینا چاہتا ہے، مانگتا کچھ بھی نہیں؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“