پریشان حال ،مایوس اور اداس لوگوں کے چہروں پہ مسکراہٹ اور قہقہے دلانے والے شاعر چونچ گیاوی نے اپنی سوچ اور فکر، خواہ مزاج کے مطابق اپنا تخلص ہی ایسا اختیار کر لیا ہے کہ ان کا نام سنتے ہی بغیر کسی تعارف اور گفتگو کے لبوں پہ مسکراہٹ آجاتی ہے ۔ چونچ گیاوی صاحب کی شہرت بھارت سے باہر پاکستان تک بھی پہنچ گئی ہے ۔ جن کی شناخت ایک مزاحیہ شاعر کے طور پر ہے لیکن وہ سنجیدہ قسم کی شاعری بھی کرتے ہیں اوربہت اچھے خیالات رکھتے ہیں ۔ ان کے تعارف سے پہلے ان کی شاعری میں سے ایک نمائندہ شعر سن لیجیئے
جس کو دیکھا نہ کبھی ہم نے تلاوت کرتے
وہ قسم کھانے کو قرآن اٹھا لیتا ہے
چونچ گیاوی صاحب کا اصل نام سید محمد قسیم احمد اور والد صاحب کا نام سید اظہار احمد ہے ۔ وہ 5 جنوری 1967کو آبگلہ ،گیا ، ریاست بہار بھارت میں پیدا ہوئے ۔ وہ ایک کے بجائے 2 تخلص استعمال کرتے ہیں اور وہ چونچ گیاوی اور رہبر گیاوی ہیں ۔ تاہم ان کی شہرت چونچ گیاوی کے تخلص سے ہے ۔ انہوں نے ایم اے تک پوسٹ گریجویٹ کی تعلیم حاصل کی ہے اور پرائیویٹ اسکول سے منسلک ہو گئے ہیں اور درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ دیگر اکثر شعراء کی طرح ان کو بھی بچپن سے ہی شاعری کا شوق پیدا ہوا لیکن باقاعدہ شاعری کا آغاز 1987 سے کیا ۔ 2 تخلص کے حامل اس شاعر صاحب کے شاعری میں استاد بھی 2 ہیں اور وہ اساتذہ کرام ثمر ٹکاروی صاحب اور شجر ٹکاروی صاحب ہیں ۔ ان کے تخلص سے ہی یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ دونوں اساتذہ صاحبان علم و ادب کے حوالے سے شجر اور ثمر بھی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
چونچ گیاوی صاحب صحافت سے بھی وابستہ ہیں اور افسانہ نگاربھی ہیں ۔ ان کی شاعری، افسانے اور تبصرے وغیرہ انڈ و پاک کے اخبارات اور رسائل و جرائد میں چھپتے رہتے ہیں ۔ ان کو اکثر مشاعروں میں اور آکاشوانی ریڈیو اور دور درشن کے پروگراموں میں بھی بلایا جاتا ہے جہاں ان کو مناسب اعزازیہ بھی دیا جاتا ہے جس سے ان کی مالی معاونت بھی ہو جاتی ہے ۔ بھارت میں اردو زبان و ادب کے حوالے سے کیئے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بھارت سرکار نےاردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی اور فروغ کیلئے مناسب اقدامات کر رکھے ہیں اور اسی وجہ سے ہی بھارت میں کئی اردو اکیڈمیاں بنی ہوئی ہیں ۔ انہوں نے اردو کے حوالے سے اپنے قارئین سے اپیل کی ہےکہ وہ اپنے گھر میں اردو زبان کا ماحول بنائیں ۔ ماضی کے دور کے پسندیدہ شعراء میں مرزا غالب اور علامہ محمد اقبال اور موجودہ دور کے شعراء میں منور رانا، راحت اندوروی اور نواز دیوبندی چونچ صاحب کے پسندیدہ شعراء ہیں ۔ ان کو شاعری کے حوالے سے متعدد ایوارڈز مل چکے ہیں جن میں ثمر ٹکاروی ایوارڈ اور شوق نیموی ایوارڈ بھی شامل ہیں ۔
چونچ گیاوی صاحب کی شاعری سے نمونے کے طور پر حمد و نعت ،نظم اور قطعات قارئین کیلئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حمدیہ کلام
غم سے سب کو ابار دے مولا
یعنی قسمت سنوار دے مولا
جینا دوبھر ہے میرا بھارت میں
اب نبیؐ کا دیار دے مولا
اپنے محبوب کے تو صدقے میں
جو بھی دے بے شمار دے مولا
جامِ کوثر سے میں رہوں مدہوش
مجھ کو ایسا خمار دے مولا
بچے بھوکے بلکتے رہتے ہیں
من وسلویٰ اتار دے مولا
کب تلک موسم خزاں دیکھوں
زندگی میں بہار دے مولا
جو محمدؐ کی پیروی نہ کرے
ایسی روحوں کو مار دے مولا
کیوں جھلکتی ہے فکر چہرے سے
میرے رخ کو نکھار دے مولا
**********
نعت
محمدؐ مصطفیٰ کی دوجہاں میں حکمرانی ہے
مدینہ جس کو کہتے ہیں وہ انؐ کی راجدھانی ہے
معطر ذکر سرورؐ سے ہماری زندگانی ہے
جدھر نظریں اٹھاتا ہوں ادھرہی شادمانی ہے
قیامت کی گھڑی ہم کو بھلاکیسے ڈرائے گی
رسولؐ اللہ کی حاصل ہمیں جب نگہبانی ہے
فرشتے مرحبا صل علیٰ کا وردکرتے ہیں
جہاں میں جشن میلادالنبیؐ کی شادمانی ہے
خدائے پاک نے انؐ کا کبھی سایہ نہیں رکھا
نہ کوئی ہم صفت انؐ سا، نہ کوئی ان کا ثانی ہے
ہوئی بیمار جب بڑھیا عیادت کو نبیؐ پہنچے
ہوئی اسلام میں داخل،کہاکہ مہربانی ہے
ابھی کچھ سال پہلے کی خبر سے ہوگیا ثابت
رسول پاک کی رہبر حیات جاودانی ہے
********
*********
مصیبت پر مصیبت آپڑی ہے
ہماری راہ میں بڑھیا کھڑی ہے
خدایا !آگئی کیسی گھڑی ہے
کہ بیگم کی مدر در پہ کھڑی ہے
کسی نے کان اس کے بھردئیے ہیں
لئے ہاتھوں میں اک موٹی چھڑی ہے
مرےسر کی حجامت جس نے کی تھی
نظر میری اسی سے جالڑی ہے
نظرآتی تھی وہ معصوم بے حد
نہ سمجھاتھا کہ اندر سے کڑی ہے
وہ اپنے دل کی خاطر مررہے ہیں
پرائے دل کی ان کوکیا پڑی ہے
کمانے والی سے کرلو محبت
سہارا ڈھونڈنے کی کیا پڑی ہے
………………………………….
BOSS
مجھ سے یہ شیطان نے اک دن کہا
نیک انساں کا مجھے نمبر بتا
مجھ سے جورہتاہو اکثر بے خبر
میں کروں گا تنگ اس کو اس قدر
مجھ کو فرصت رہتی ہے اب ہرپہر
میں کروں گا اس کو میسیج اس قدر
اس طرح جھانسے میں میرے آئے وہ
اور مجھ سے عشق بھی فرمائے وہ
نیک انساں آپ سے بڑھ کر کہیں
میں نے ڈھونڈا وہ ملا مجھ کو نہیں
آپ کا نمبر اسے جب دے دیا
دیکھ کر نمبر وہ یوں گویا ہوا
مار ہم کو چونچ تو کھلوائے گا
یہ تو نمبر ہے ہمارے Boss کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*قطعات
کہا پنڈت نے مولانا سے اک دن
ہواہے فیل جنتر اور منتر
ملے گی فیس منھ مانگی، مجھے دیں
کرونا کےلئے تعویذ لکھ کر
***********
لگی تھی بھیڑ مولانا کے درپر
پریشاں حال اک بچے نے پوچھا
کہیں گے جتنا نذرانہ میں دوں گا
کرونا کےلئے تعوید ہے کیا
***********
ڈر ہے دماغی اس کا توازن بگڑ نہ جائے
نہ جانے کیاوہ سوچتارہتاہے رات میں
جس کوبھی دیکھئے وہ پریشاں ہے چونچ جی
آیا ہے کیسا ناریل بندر کے ہاتھ میں
کام اس نے کون سا اچھا کیا گجرات میں
دے دیا جو ساتھ ای وی ایم نے بھی جذبات میں
ہرطرف دنیا میں تھوتھو ہورہی ہے چونچ جی
آگیا ہے ملک کیسے حکمراں کے ہاتھ میں
چونچ گیاوی