ساتھ لگی تصویر کوکو کے پھل کی ہے، جس کے بیج دنیا میں ایک کھرب ڈالر کا بزنس ہے۔ چاکلیٹ یہاں سے آتی ہے۔
ان بیجوں کو اگر چکھیں گے تو تھوک دیں گے۔ کڑواہٹ دیر تک منہ میں رہے گی۔ اس کے بیس فیٹ اونچے درخت کیلے اور ناریل کے درختوں کے سائے میں اگتے ہیں۔ جن جگہوں میں ان کو کاشت کیا جاتا ہے، اس میں ان درختوں کے سبز رنگ کے کئی شیڈ نظر آتے ہیں اور بھنبھناتے مچھر بھی۔
ان پھلوں کو توڑ کر ان کے بیج بڑے چاقو سے نکال کر ان کا زمین پر ڈھیر لگا دیا جاتا ہے اور گلنے سڑنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ دو ہفتے بعد کوکو بین کے ڈھیر گلنا اور خمیرہ ہونا شروع کر دیں گے اور گرم ہوتے جائیں گے۔ ان سے اب نئے درخت نہیں اگ سکیں گے۔ اس خمیرہ ہوتے بیجوں میں وہ کیمیائی تبدیلیاں آنا شروع ہوں گی جو چاکلیٹ کے ذائقے کے لئے ضروری ہیں۔اس میں پھلوں سے ذائقے والے ایسٹر مالیکیول بنیں گے۔ جو خمیرہ ہو کر بننے والی الکوحل اور کوکو بین کے انزائم کے بنائے ایسڈ کے ملاپ کا نتیجہ ہیں۔
اس ملاپ میں بڑی تعداد میں ویری ایبل ہیں۔ اجزاء کا تناسب، درجہ حرارت، آکسیجن کا تناسب اور بہت سے دوسرے۔ چاکلیٹ کے ذائقے کا انحصار نہ صرف پھل کے پکا ہونے اور اس کی اپنی نوع کی خاصیت پر ہے بلکہ اس پر بھی کہ بیجوں کا ڈھیر کتنا اونچا لگایا گیا تھا، کتنی دیر ان کو دھوپ میں چھوڑا گیا تھا، اس علاقے کا موسم کیسا تھا۔
چاکلیٹ بنانے والے ان باریکیوں کی بات کبھی نہیں کرتے کیونکہ یہ ٹریڈ سیکرٹ ہیں۔ شکل سے تو کوکو کسی اور کموڈیٹی، مثلا چینی جیسی لگتی ہے جس کو مارکیٹ میں عام خرید و فروخت کیا جا سکتا ہے لیکن کافی اور چائے کی طرح مختلف قسم کی ورائٹی کا ذائقہ بہت مختلف ہوتا ہے۔ دنیا کی نفیس ترین چاکلیٹ بنانے والے بیج سے لے کر چاکلیٹ تک کا سفر خفیہ رکھتے ہیں، جس میں ٹھیک بیج کی پہچان بھی ہے کہ کونسا بیج کہاں سے حاصل کرنا ہے اور بیماریوں کی پہچان بھی ہے کہ کب کونسی بیماری کہاں پر وارد ہوئی ہے۔ اس سب میں توجہ اور احتیاط لگتی ہے۔ اچھی چاکلیٹ اس لئے مہنگی بکتی ہے۔
چاکلیٹ کے ذائقے میں صرف فروٹی ایسٹر نہیں بلکہ مٹی کے کئی اور ذائقے ہیں۔ یہ اس پراسس کا نتیجہ ہیں جو خمیرہ کرنے کے بعد ہوئے۔ ان بیجوں کو سکھایا گیا اور روسٹ کیا گیا۔ ان کو روسٹ کرنا ہر بیج کو ایک چھوٹی کیمیکل فیکٹری میں بدل دیتا ہے جس میں نئے ری ایکشن ہونے لگتے ہیں۔ اس بیج کے کاربو ہائیڈریٹ، جو شوگر اور سٹارچ ہیں، ٹوٹنے لگتے ہیں۔ ویسے جیسے چینی کو توے میں گرم کرنے سے کارامل بنتا ہے۔ یہاں پر یہ والا ری ایکشن بیج کے اندر ہی ہو رہا ہوتا ہے۔ ان کا سفید رنگ براوٗن ہو جاتا ہے اور باداموں والے کارامل ذائقوں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔
شوگر مالیکیول خواہ توے میں پکے یا ان بیجوں میں آخر براوٗن کیوں ہوتا ہے؟ اس کی وجہ کاربن ہے۔ کاربو (کاربن) ہائیڈر (پانی) یٹ (آکسیجن) کے لمبے مالیکیول ٹوٹ کر چھوٹے ٹکڑوں میں بدلتے ہیں۔ ان میں سے کچھ اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ بخارات میں بدل جاتے ہیں۔ (یہ ان کی خوشگوار مہک ہے)۔ اس سے کاربن کاربن کے ڈبل بانڈ بن جاتے ہیں جو جلنے والا ذائقے اور گہرا بھورا رنگ ہے۔ اگر روسٹنگ زیادہ ہو جائے تو تمام شوگر کاربن میں تبدیل ہو جائے گی جو سیاہ رنگ ہے۔
ایک اور قسم کا ری ایکشن جو زیادہ درجہ حرارت پر ہوتا ہے، جو رنگ اور ذائقے میں حصہ ڈالتا ہے، میلارڈ ری ایکشن ہے۔ یہ وہ ری ایکشن ہے جس میں شوگر اور پروٹین ملاپ کرتے ہیں۔ خلیوں کی دنیا میں کاربوہائیڈریٹ ایندھن ہیں تو پروٹین کام کرنے والے گھوڑے۔ خلیوں کی مشینری کی سٹرکچرل مالیکیول۔ جب درجہ حرارت 160 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا تو یہ ری ایکشن شروع ہو گیا۔ اس سے کئی طرح کے ذائقوں والے چھوٹے مالیکیول بن گئے۔ یہ میلارڈ ری ایکشن ہے جس کی وجہ سے دنیا اس قدر ذائقہ دار ہے۔ روسٹ سبزیوں ہو یا روٹی کی کرسٹ، ان کا ذائقہ اسی ری ایکشن کی وجہ سے ہے۔ اس نے ان بینز میں سے کڑواہٹ کم کی اور لحمیاتی ذائقے کا اضافہ کیا۔
اس کے بعد صنعتی انقلاب کے دور میں ایجاد ہونے والے ایک عمل کی باری آئی جس نے ان بیجوں کی قسمت بدلی تھی۔ روسٹ بین کو دبایا گیا اور اس میں سے کوکو کا مکھن باہر نکال لیا گیا۔ فیٹ نکل جانے سے کوکو کو باریک پیسا جا سکتا ہے۔ اور یہ سموتھ اور ملائم ہو جائے گا۔ یہ کوکو کی وہ شکل ہے جو آج مقبول ہے۔
اس سے اگلا قدم ایک جینیس کا سٹیپ ہے۔ جو فیٹ نکالا تھا اور اس کی وجہ سے پاوؐڈر بنانا ممکن ہوا تھا، اب ان دونوں کو واپس ملا دیا گیا۔ اور ساتھ چینی کا اضافہ کر دیا گیا۔ کس تناسب سے؟ اس کا انحصار ہے کہ کونسی چاکلیٹ بن رہی ہے۔
یہ کوکو کا مکھن ہے جو منہ میں جا کر پگھلتا ہے اور کوکو پاوٗڈر خارج کرتا ہے اور ایک منفرد احساس پیدا کرتا ہے۔ مختلف چاکلیٹیں، مختلف کمبی نیشن۔ اور اس کی اینٹی آکسی ڈیشن کی خاصیت ہے جس کی وجہ سے یہ لمبا عرصہ محفوظ رہ جاتا ہے۔ دودھ کا فیٹ تو چند روز میں خراب ہو جاتا ہے۔ یہ خراب ہوئے بغیر برسوں گزار سکتا ہے۔ ریفریجیریٹر کی ایجاد سے پہلے اس خاصیت نے چاکلیٹ کی انڈسٹری کو جنم دیا تھا۔
تیس فیصد چینی کے اضافہ کے بعد بھی چاکلیٹ ابھی کڑوی ہے اور ایک اور چیز کا اضافہ کیا جائے گا جو اس کے ذائقے پر اثرانداز ہو گا۔ یہ دودھ ہے۔ یہ اس کے کسیلے پن میں نمایاں کمی کر دے گا اور مٹھاس میں اضافہ۔ یہ جدت نیسلے کی کمپنی کی تھی جب وہ ابھی اپنے بچپنے میں تھی۔
دودھ کیسا ڈالا جائے گا؟ اس کا تعلق یہ ہے کہ یہ دنیا کے کونسے حصے میں بن رہی ہے۔ امریکہ میں دودھ سے فیٹ کو انزائم کی مدد سے پہلے نکالا جائے گا۔ برطانیہ میں مائع دودھ کا کنسنٹریٹ بنا کر، باقی یورپ میں دودھ کا پاوؐڈر۔ گلوبلائزیشن اپنی جگہ لیکن ہر خطے میں بسنے والوں کے ذائقوں کی ترجیحات میں فرق ہے۔