ڈارک چاکلیٹ کا ایک ٹکڑا منہ میں رکھیں اور کچھ دیر رکھا رہنے دیں۔ کچھ دیر کو اس کے سخت کونے زبان اور منہ میں محسوس ہوں گے۔ اس کو چبانے کا دل کرے گا لیکن نہیں، ذرا ٹھہر چائیں۔ اور پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے، یہ سختی نرمی میں بدل جائے گی، جس کی وجہ زبان کی گرمی ہے۔ جس طرح یہ مائع میں بدلنا شروع ہو گی، آپ کو اپنی زبان پر ٹھنڈک کا احساس ہو گا۔ اور پھر میٹھے اور کڑوے ذائقوں کا سیلاب آتا محسوس ہو گا۔ اس کے بعد پھلوں اور میووں کا ذائقہ اور پھر منہ کے پچھلی طرف مٹی جیسا ذائقہ۔ اس کا میٹیریل نہ صرف مزیدار ہے بلکہ اس کی انجیرنگ صدیوں کے تجربوں کا نچوڑ ہے۔ (اس کے ناکام مشروب سے کامیاب میٹھے تک کے سفر کی کہانی نیچے دئے گئے لنک میں)۔ اس کو ممکن کرنے کی وجہ اس کے کرسٹل کی سمجھ اور اس پر کنٹرول تھا، خاص طور پر کوکو کے مکھن کے کرسٹل پر جو سبزیوں کی دنیا کا نفیس ترین کرسٹل ہے۔
یہ کئی وجوہات کی بنا پر خاص ہے۔ اس میں سے ایک اس کا پگھلنے کا درجہ حرارت ہے جو انسانی جسم کو لگ کر پگھل جاتا ہے اور مہنگے لوشن اور چہرے کی کریم میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ منہ میں جا کر پگھل جانے کی بھی یہی وجہ ہے۔ ایک اور چیز یہ کہ یہ قدرتی طور پر اینٹی آکسی ڈینٹ ہے جو اس کو سالوں تک خراب ہونے سے بچاتا ہے۔ اس کی تیسری خاص چیز اس کے کرسٹل ہیں جو چاکلیٹ کی بار کو سختی دیتے ہیں۔ اس کا بڑا جزو ایک بڑا مالیکیول ٹرائی گلیسرائیڈ ہے جو کئی طریقے سے کرسٹل بناتا ہے۔ جتنے یہ ایک دوسرے کے قریب قریب ہوں گے، اتنی زیادہ ڈینسیٹی ہو گی اور اتنا زیادہ میلٹنگ پوائنٹ۔ اس کے پانچ اقسام کے کرسٹل ہیں۔ کم کثیف کرسٹل آئسکریم میں استعمال ہوتے ہیں جس نے سرد رہنا ہے۔ زیادہ کثیف کرسٹل اس کو سخت بناتے ہیں، ویسی سختی جو چاکلیٹ کے ایک بائیٹ میں ہمیں پسند آتی ہے۔ باہر سے سخت اور اندر سے نرم۔ سائیکو فزکس کے نقطہ نظر سے اس کے دانتوں سے ٹوٹنے کی آواز اس سے لطف اندوز ہونے میں اضافہ کرتی ہے۔ جس قسم کرسٹل چاکلیٹ میں استعمال ہوتا ہے وہ 34 ڈگری پر پگھلتا ہے یعنی زبان میں لگنے کے ساتھ۔ ان کو کم درجہ حرارت پر بنایا اور سٹور کیا جاتا ہے۔ منہ میں جا کر ان کا سامنا پہلی بار اتنے درجہ حرارت سے ہوتا ہے۔ ان کو تخلیق ہی اس کیلئے کیا گیا تھا۔ اس دوران پگھلنے کی وجہ سے یہ زبان کی گرمی چوس لیتے ہیں اور ٹھنڈک کا احساس دیتے ہیں، ویسے جیسے خشک ہونے والا پسینہ دیتا ہے اور پھر کوکو پاوؐڈر، کوکو فیٹ اور چینی کے ذائقے کا احساس۔ (اس کے مختلف ذائقوں پر دوسرے لنک میں دی گئی پوسٹ دیکھ لیں)۔
چاکلیٹ سائیکوایکٹو ہے یعنی اس کی عادت لگ جاتی ہے۔ اس میں ایسے اجزاء نہیں۔ کیفین ہے لیکن بہت کم۔ اس کی لت لگنے کی وجہ اس سے ہونے والا حسیاتی تجربہ ہے۔ (ایک تجربے میں بوسہ دینے کی نسبت چاکلیٹ کھانے سے دماغ کو ملنے والا بوسٹ زیادہ اور دیر تک اثر رکھنے والا تھا۔ (اس کی تفصیل نیچے لنک سے)۔
چاکلیٹ کا سب سے زیادہ استعمال سرد ممالک میں ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ اگر یہ درجہ حرارت زیادہ ہو جانے سے یہ پگھل جائے تو کرسٹل واپس اس حالت میں نہں آ سکتا۔ گرم ممالک میں اس سے ببچانے کیلئے اس کو فریج میں رکھا جاتا ہے۔ ایسی سرد چاکلیٹ منہ میں جا کر پگھلتی نہیں۔ اور ایسے ممالک والے افراد اس کے مزے کے اس زاوئے سے محروم رہ جاتے ہیں۔
چاکلیٹ کا میٹیریل کنکریٹ اور سٹیل وغیرہ سے زیادہ شاندار اور حیران کن ہے۔ ہم نے ایک گرم مرطوب جنگل میں اگنے والے کڑوے کسیلے پھل کو سرد، ڈارک، اور ٹوٹ جانے والے سخت ٹھوس میں تبدیل کر دیا جس کا ڈیزائن منہ میں اس کو مائع میں تبدیل کر کے حسیات کو گرم، خوشبودار، کڑوے اور میٹھے ذائقے میں تبدیل کر کے دماغ کے خوشی والے مرکز کو جگا دیتا ہے۔ ہماری سائنسی سمجھ کے باوجود، الفاظ یا فارمولا سے اس کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس کو میٹیریل کی دنیا کی شاعری کہا جا سکتا ہے۔ اس کیلئے لینین نام تھیوربروما یعنی “دیوتاوٗں کی خوراک” غلط نہیں۔
نوٹ: اس آرٹیکل کو چاکلیٹ کی کسی کمپنی نے سپانسر نہیں کیا۔
یہ اس کتاب سے
Stuff Matters: Mark Miodownik