بشیر بلور اور ان کے ساتھ آٹھ افراد کو شہید کر دیا گیا، درجنوں زخمی ہوئے، تین زخمی موت و حیات کی کشمکش میں ہیں، بارود ایک بار پھر جیت گیا۔ دلیل ایک مرتبہ پھر ہار گئی ؎
صحنِ گلشن میں بہرِ مشتاقاں
ہر روش کھِنچ گئی کماں کی طرح
اس کالم نگار نے کئی مواقع پر اے این پی کی پالیسیوں سے اختلاف کیا ہے۔ بعض اوقات شدید اختلاف۔ لیکن طاقت کے ظالمانہ استعمال کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ انسانی جان لینے کا حق اس دنیا کے خالق نے کسی کو نہیں دیا۔ کسی فرد یا گروہ کو عدالتیں لگانے اور لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا کوئی اختیار نہیں۔ آج نہیں تو کل حساب دینا ہوگا ؎
کھڑے ہوں گے نگوں سر قُطب اور ابدال سارے
کھرے کھوٹے الگ ہو جائیں گے اعمال سارے
دہشت گردی کا کوئی مذہب ہے نہ نظریہ۔ آخر اس بھیڑیے کا نظریہ یا مذہب ہو بھی کیا سکتا ہے جو دلیل کا جواب پنجے سے دے۔ اس نے جب میمنے سے کہا کہ تم پانی گدلا کر رہے ہو اور میمنے نے دلیل دی کہ پانی تو اونچائی سے نشیب کی طرف بہہ رہا ہے، تم اونچائی پر کھڑے ہو اور میں نشیب میں ہوں تو اس دلیل کا جواب میمنے کو اپنی موت کی شکل میں ملا۔ جو حضرات اصرار کر رہے ہیں کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کیے جائیں، انہیں یہی نہیں معلوم کہ مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہوگا اور دہشت گرد چاہتے کیا ہیں۔
پاکستان کی اصل بدقسمتی تو اس بچے کی بدقسمتی کی طرح ہے جو پیدائشی اپاہج ہو۔ افغانستان کے ساتھ مشترکہ سرحد ایک ایسی جغرافیائی بدبختی ہے جس کا شاید ہی کوئی علاج ہو۔ مغلوں سے لے کر انگریزوں تک… شاید ہی کوئی حکومت ایسی ہو جسے افغانستان کے جنگجوئوں نے آرام سے بیٹھنے دیا ہو۔ حضرت عمر فاروقؓ کے عہد میں مدائن فتح ہوا۔ اس کے بعد جب حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے فاروق اعظم ؓسے پہاڑوں کے اس پار ایرانیوں کا تعاقب کرنے کی اجازت طلب کی تو امیر المومنین نے جواب میں لکھا:
’’کاش! سواد اور پہاڑ کے درمیان ایک دیوار کھڑی ہو جائے کہ نہ وہ ہماری طرف آ سکیں اور نہ ہم ان کی طرف جا سکیں۔ ہمارے لیے سواد کی شاداب زمینیں کافی ہیں۔ میں مسلمانوں کی سلامتی کو مال غنیمت پر ترجیح دیتا ہوں۔‘‘
حضرت عمرؓ کی یہ پالیسی کامیاب کیوں نہ ہوئی، یہ ایک اور موضوع ہے، لیکن افغانستان کا معاملہ ایسا ہی ہے۔ کاش افغانستان اور پاکستان کے درمیان ایک دیوار کھڑی ہو جائے کہ نہ وہ ہماری طرف آ سکیں اور نہ ہم ان کی طرف جا سکیں۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! ہم ایک ایسے ملک کے پڑوسی ہیں جس میں جُراب تو کیا بٹن تک نہیں بنتا اور جہاں مویشیوں اور پکی ہوئی روٹیوں سے لے کر مکان تعمیر کرنے کے لیے سیمنٹ اور سریا تک یہاں سے سمگل ہو کر جاتا ہے اور مستقبل میں بھی یہی ہوگا ؎
کام اس سے آ پڑا ہے کہ جس کا جہان میں
لیوے نہ کوئی نام ستم گر کہے بغیر
اس جہاد کا، جسے بہت سے لوگ جہاد نہیں مانتے اور جس کے لیے ہتھیار اور ڈالر امریکی نصرانیوں اور یہودیوں نے فراہم کیے تھے، اس جہاد کا سب سے زیادہ نقصان خیبر پختونخوا کے پاکستانیوں کو پہنچا۔ افغان مہاجرین، جنہیں ایران نے کیمپوں کے اردگرد لگی ہوئی خاردار تاروں سے باہر نہ نکلنے دیا، خیبر پختونخوا اور پھر پورے ملک میں حشرات الارض کی طرح پھیل گئے، پشاور اور دوسرے شہروں میں مکانوں کے کرائے آسمان کو چھونے لگے، ٹرانسپورٹ سے لے کر مزدوری اور دکانداری تک ہر شعبے پر مہاجرین چھا گئے اور خیبر پختونخوا کے پاکستانی اپنے ہی ملک میں ثانوی حیثیت اختیار کرتے گئے۔ یہ وہ اونٹ تھا جو خیمے کے اندر گھستا چلا آیا۔ آج لاکھوں ’’مہاجرین‘‘ یہاں صاحب جائیداد ہیں اور ان کی جیبوں میں پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ہیں!
کچھ سیاسی جماعتوں کا، بالخصوص مذہبی سیاسی جماعتوں کا اور علماء کا کردار حالات کو سنگین تر کرتا رہا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مولوی فضل اللہ سے لے کر حکیم اللہ محسود تک… تمام عسکریت پسند ایک مخصوص مکتب فکر کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اس مکتب فکر کے علماء کی بھاری اکثریت نے عسکریت پسندوں سے اور ان کی خونریزی سے برأت کا اعلان کبھی نہیں کیا۔ یہاں تک کہ جب قبروں سے دوسرے عقیدے کے سرکردہ افراد کی نعشیں تک نکال کر بازاروں میں لٹکائی گئیں اور مزاروں پر پے در پے دھماکے کیے گئے تب بھی اعلان لاتعلقی نہ کیا گیا۔ ایک معروف عالم دین سے جب ٹیلی ویژن پر اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ فتنوں کا زمانہ ہے اور خاموشی بہتر ہے لیکن یہی دھماکے جب کراچی کے جوڑیا بازار میں ہوئے تو باقاعدہ پریس کانفرنسیں کی گئیں اور تشویش کا اظہار کیا گیا۔ یہ رویہ پورے ملک کے بارے میں ہونا چاہیے تھا۔ بشیر بلور کی شہادت کے واقعہ ہی کو لے لیجئے۔ اسی شام ایک ٹیلی ویژن چینل پر ایک اینکر پرسن نے سیاست دانوں سے گفتگو کی جس کی روداد دوسرے دن کے اخبارات میں شائع ہوئی۔ پڑھ کر انسان گنگ رہ جاتا ہے کہ سیاسی مصلحتیں اور عقیدے کا لحاظ کس طرح حقائق کو نگاہوں سے اوجھل کر دیتا ہے۔ خبر کے مطابق مسلم لیگ کے رکن قومی اسمبلی ایاز امیر نے کہا کہ بشیر احمد بلور نڈر مگر دھیمے لہجے کے مالک تھے۔ انہوں نے کہا کہ بشیر بلور کو کئی مرتبہ جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی ملتی تھیں لیکن انہوں نے ہمیشہ بہادری کا مظاہرہ کیا اور کبھی کسی خندق میں نہیں گئے۔ بطور قوم ہمیں دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کا سوچنا ہوگا۔ اسلام کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ افسوس ناک ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ طالبان کے حملوں کی مذمت اور بلور خاندان سے ہمدردی لازمی ہے۔ اسی پروگرام میں جماعت اسلامی کے رہنما سراج الحق صاحب کیا فرماتے ہیں، یہ بھی پڑھیے: ’’سراج الحق نے کہا کہ عوام شدید کرب سے گزر رہے ہیں۔ حکومت پانچ سال پورے کر رہی ہے مگر امن نہیں دے سکی۔ پچھلے پانچ سال میں ہمیں حکومت میں سے کسی نے نہیں بلایا کہ یہ مسئلہ ہے اور اس پر مشاورت کرنی ہے حکومت کی پالیسی دو سو فیصد تک ناکام ہو چکی ہے۔‘‘
یہ حضرات جو عسکریت پسندوں کی مذمت تو کیا، نام تک لینا گوارا نہیں کر رہے، یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ اس آگ کے شعلے کل ان کے گھروں تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔ مشہور جرمن پادری مارٹن نیمولر، اشتراکیوں کا مخالف تھا۔ اس مخالفت کے چکر میں آ کر اس نے شروع میں ہٹلر کا ساتھ دیا لیکن جب اس نے دیکھا کہ ہٹلر کسی کو بھی معاف نہیں کر رہا تو وہ دلبرداشتہ ہو کر مخالف کیمپ سے وابستہ ہو گیا۔ 1937ء میں جب اسے گرفتار کیا گیا تو اس کا جرم یہ تھا کہ وہ ’’نازی تحریک کے بارے میں زیادہ پرجوش نہیں…‘‘۔ نیمولر کی ایک نظم ضرب المثل ہو چکی ہے:
’’سب سے پہلے وہ کمیونسٹوں کو پکڑنے آئے۔
میں خاموش رہا کیونکہ میں کمیونسٹ نہ تھا۔
پھر وہ سوشلسٹوں کو مارنے آئے۔
میں خاموش رہا کیونکہ میں سوشلسٹ نہ تھا۔
پھر وہ مزدور رہنمائوں کو قتل کرنے آئے۔
میں چپ رہا، میرا ٹریڈ یونین سے کوئی تعلق نہ تھا۔
پھر وہ یہودیوں کو تلاش کرنے آئے۔
میں خاموش رہا، میں یہودی نہ تھا۔
پھر وہ کیتھولک عیسائیوں کو ختم کرنے کے لیے آئے۔
میں خاموش رہا، میں کیتھولک نہ تھا۔
پھر وہ مجھے پکڑنے آ گئے،
افسوس! اب کوئی باقی ہی نہ بچا تھا کہ میرے لیے آواز اٹھاتا۔
جس صورت حال سے ہم گزر رہے ہیں اس کا تعلق یقینا خطے میں امریکی مداخلت سے بھی ہے۔ لیکن امریکی مداخلت کو واحد سبب قرار دینا درست ہے نہ دانش مندی۔ اسباب کے ڈانڈے ہماری اس پالیسی سے جا ملتے ہیں جو ہم نے انگریزی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی اپنے قبائلی علاقوں کے لیے جاری رکھی اور اس نظام تعلیم سے بھی جس نے ایک طرف مدارس کو کھڑا کر رکھا ہے اور دوسری طرف سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو۔ لیکن یہ موضوع طویل ہے، اسے کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔
سلطان محمود غزنوی اور فردوسی کا ہم عصر اسدی طوسیؔ ایک جنگل کی تعریف کرتے ہوئے بیان کرتا ہے کہ جنگل کس قدر گھنا تھا ؎
نتابیدہ اندر وی از چرخ ہور
ز تنگی رہش پوست رفتی ز مور
سورج کبھی اس جنگل میں چمکا ہی نہ تھا اور گھنا اتنا تھا کہ چیونٹی اس میں چلتی تو اس کی کھال اتر جاتی۔
ہم ایک ایسے ہی جنگل میں پھنس چکے ہیں۔