۳ ۔ چڑیاں ( Kanariya , 1924 )
( Canaries )
کاواباتا یاسوناری، اردو قالب؛ قیصر نذیر خاورؔ
۔ ۔ ۔ ۔ جدید جاپان کے ادیب ایک طرف اپنے طویل ، بھرپور ، زرخیز اور عمدہ ادبی روایت کے وارث ہونے کے ساتھ ساتھ مغرب سے آنے والے اثر ، مواد کے بارے میں نئے خیالات ، ادبی ہیت اورمختلف سٹائل کو بھی استعمال کرتے ہیں ۔ کاواباتا بھی ایک ایسا ہی ادیب تھا ؛ اس کا لکھا دونوں کا ایک حسین امتزاج ہے ۔ ۔ ۔ ۔
مادام:
مجھے اپنا وعدہ توڑنا پڑا ہے اور مجھے ایک بار اور آپ کو یہ خط لکھنا پڑ رہا ہے ۔
میں ان چڑیوں کو مزید اپنے پاس نہیں رکھ سکتا جو آپ نے مجھے پچھلے سال دیں تھیں ۔ میری بیوی نے ہمیشہ ان کا خیال رکھا ہے ۔ میرا کام تو بس یہ رہا کہ میں انہیں دیکھتا رہوں ۔ ۔ ۔ انہیں دیکھتے ہوئے آپ کو یاد کرتا رہوں ۔
یہ آپ ہی تھیں نا جس نے یہ کہا تھا ، ایسا ہی تھا نا ؟ ” تمہاری ایک بیوی ہے جبکہ میرا ایک خاوند ۔ ہمیں ایک دوسرے سے ملنا بند کر دینا چاہیے ۔ میں تمہیں یہ چڑیاں دے رہی ہوں تاکہ تم مجھے یاد رکھ سکو . ان کو دیکھو ۔ یہ اب ایک جوڑا ہیں ، لیکن دکاندار نے ایک نر اور ایک مادہ کو بلا کسی مقصد ادھر ادھر سے پکڑا اور پنجرے میں بند کر دیا ۔ چڑیوں کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں تھا ۔ خیر چھوڑو ، مہربانی کرنا ، ان پرندوں کے توسط سے مجھے یاد رکھنا ۔ شاید زندہ چیزوں کو یادگار کے طور پر دینا مناسب نہیں ہوتا ، لیکن ہماری یادیں بھی تو زندہ ہوتی ہیں ۔ کسی روز یہ چڑیاں مر جائیں گی اور پھر ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ ہمارے درمیان کی یادیں بھی اسی انجام کو پہنچ جائیں گی ، انہیں بھی مرنے دینا ۔ “
یہ چڑیاں ، مجھے لگتا ہے ، کہ مرنے کو ہیں . ان کی ریکھا کرنے والی بھی مر چکی ہے ۔ میرے جیسا مصور جو نہ صرف غریب ہے بلکہ غافل بھی ان نازک پرندوں کو کیسے رکھ سکتا ہے ۔ میں سیدھی بات کر رہا ہوں ۔ میری بیوی ان کا خیال رکھا کرتی تھی اور اب وہ مر چکی ہے اور مجھے خدشہ ہے کہ یہ پرندے بھی مر جائیں گے ۔ تو مادام ، یہ میری بیوی ہی تھی جس نے آپ کی یاد کو میرے لئے زندہ رکھا ہوا تھا ۔
جب وہ فوت ہوئی ، پرندوں کے پر بھی اچانک کمزور پڑ گئے اور میں نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ چڑیوں کو آزاد کر دوں ۔ لیکن کچھ ایسا بھی ہے کہ یہ تو آسمان کو نہیں جانتیں ۔ اس جوڑے کا نہ تو شہر میں کوئی واقف ہے اور نہ ہی نزدیکی جنگل میں کوئی ہمنوا جن کے ساتھ یہ جا کر گھل مل سکیں ۔ اور ۔ ۔ ۔ اور اگر ان میں سے کوئی ایک بھی اڑ گیا تو دونوں الگ الگ مریں گے ۔ لیکن آپ ہی نے تو کہا تھا کہ پالتو جانوروں کے دکاندار نےایک نر اور ایک مادہ کو ادھر ادھر سے پکڑ کر پنجرے میں بند کیا تھا ۔
یہ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ میں انہیں واپس دکاندار کوبیچنا نہیں چاہتا کیونکہ یہ مجھے آپ نے دئیے تھے ۔ میں انہیں آپ کو بھی واپس نہیں دینا چاہتا کیونکہ ان کی دیکھ بھال میری بیوی نے کی تھی ۔ پھر ایسا بھی تو سکتا ہے ۔ ۔ ۔ کہ آپ ان پرندوں کو بھول چکی ہوں ۔ ۔ ۔ شاید انہوں نے آپ کو بہت تنگ کیا ہو۔
میں ایک بار پھر کہوں گا کہ میرے بیوی کی موجودگی ہی وجہ تھی کہ یہ پرندے اب تک زندہ ہیں ۔ ۔ ۔ اور میرے لئے آپ کی یاد کا سبب بنے رہے ۔ تو مادام ، میں چاہتا ہوں کہ یہ چڑیاں بھی اس کی پیروی میں موت کو گلے لگائیں ۔ میری بیوی نے صرف یہ نہیں کیا تھا کہ آپ کی یاد کو زندہ رکھنے کے لئے ان کی دیکھ بھال کی تھی ۔ اس نے تو اس بات کو بھی پالا تھا کہ میں نے آپ جیسی عورت سے کیسے محبت کی ؟ میری بیوی نے تومجھے زندگی کی تمام تکلیفوں کو بھلانے کے قابل بنایا تھا ۔ اس نے میری زندگی کے دوسرے’ نصف ‘ کو دیکھنے سے ہمیشہ گریز کیا تھا ۔ اگر اس نے ایسا نہ کیا ہوتا ، تو مجھے آپ جیسی عورت سے یقینی طور پرنظریں چرانی پڑتیں یا میری نظریں جھک گئیں ہوتیں ۔
خیر ، مادام ، کیا ، یہ بہتر نہیں ہے کہ میں ان چڑیوں کو مار دوں اور انہیں اپنی بیوی کی قبر میں دفن کر دوں ؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔