یہ کوالالمپور تھا۔ پوری دنیا سے ممتاز سکالر آئے ہوئے تھے۔ لندن سے لے کر قاہرہ تک‘ اردن سے لے کر مراکش تک اور برونائی سے لے کر ریاض اور خرطوم تک کے علوم و فنون کے ماہرین جمع تھے۔ تقریب کا مقصد سوشل سائنسز‘ میڈیکل کے علوم اور سائنس اور ٹیکنالوجی کو اسلامی دنیا کے حوالے سے زیر بحث لانا تھا۔ اس حوالے سے یہ پہلی بین الاقوامی کانگرس تھی۔ میزبانی کا شرف ملائیشیا کو ملا تھا۔
اس انتہائی اہم عالمی فورم میں کلیدی خطاب کرنے کی دعوت جس سکالر کو دی گئی تھی اس کا تعلق پاکستان سے تھا۔ یہ اور بات اہل پاکستان میں سے کم‘ بہت ہی کم‘ افراد کو معلوم ہوگا کہ یہ اعزاز ان کے ملک کو ملا ہے۔
محمد اکرم خان اقتصادیات کے شعبے میں بین الاقوامی شہرت رکھنے والے عالم ہیں۔ چار عشروں سے مستقل مزاجی کے ساتھ اس میدان میں کام کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ آج مغربی دنیا کے سکالر ان کے نام سے بخوبی آشنا ہیں اور اقتصادیات پر اسلامی حوالے سے جہاں بھی کوئی مباحثہ ہو یا کانفرنس‘ اکرم خان کو ضرور مدعو کیا جاتا ہے۔ چراغ تلے اندھیرا‘ گھر میں یہ مرغی دال برابر ہے۔ ہمارے ہاں‘ یوں بھی انتھک اور بے غرض محنت‘ بالخصوص تخلیقی میدان میں کام کرنے والوں کی پذیرائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ بقول شاعر ؎
اے رے چراغ پہ جھکنے والے! یوں ماتھا نہ جلا اپنا
یہ وہ عہد ہے جس میں کسی کو دادِ ہُنر معلوم نہیں
ہاں‘ وہ حضرات جو پی آر کے ماہر ہیں‘ وہ اور ان کے مربی کارناموں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ امرِ محال (Paradox)
یہ ہے کہ ایک سنجیدہ اور متین سکالر کو پی آر میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ پی آر کا خمیر اور اخلاص سے کام کرنے کا مادہ… دونوں ایک انسان میں یکجا ہو بھی نہیں سکتے!
سول سروس کے ایک اعلیٰ منصب سے ریٹائر ہو کر اکرم خان اقوامِ متحدہ میں چلے گئے اور کئی ملکوں میں فرائض سرانجام دیتے رہے۔ مگر افتادِ طبع اور پائی تھی ؎
بہائو کی سمت آبجو کے اسی کنارے
اک اور تصویر راستہ میرا تک رہی تھی
چار عشروں سے اقتصادیات میں تخلیقی اور تحقیقی کام کر رہے ہیں۔ 35 تصانیف برطانیہ‘ کویت‘ سعودی عرب اور پاکستان سے شائع ہو چکی ہیں۔ سو سے زیادہ مقالات‘ انسائیکلو پیڈیا آف اسلامک اکنامکس لندن‘ امریکن جرنل آف سوشل سائنسز اور دیگر بین الاقوامی جرائد میں چھپ کر اہلِ علم سے داد وصول کر چکے ہیں۔ اسلامی اقتصادیات کو اس معیار کی سوشل سائنس ثابت کرنے میں انہوں نے بے پناہ محنت کی جس معیار پر سوشل سائنس کی دوسری شاخوں کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ مگر اکرم خان کا اصل کارنامہ اُن کی تازہ ترین تصنیف ہے جس نے ’’اسلامی اقتصادیات‘‘ کے سمندر میں غضب کا ارتعاش پیدا کیا ہے۔ اس معرکہ آرا کتاب کا عنوان ہے
What is wrong with Islamic economics?
اسے برطانیہ کے ممتاز اشاعتی ادارے ایڈورڈ ایلگر نے شائع کیا ہے۔ تصنیف کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ’’اسلامی اقتصادیات‘‘ کے میدان میں کہاں کہاں ٹھوکر کھائی گئی ہے اور کیا وجہ ہے کہ یہ موضوع اب تک تسلیم شدہ مقام نہیں حاصل کر سکا۔ مثلاً اسلامی فلسفہ اور اسلامی قانون‘ علوم کی وہ شاخیں ہیں جو مغرب و مشرق میں اپنی آزاد اور الگ حیثیت منوا چکی ہیں۔ ایسا ’’اسلامی اقتصادیات‘‘ کے ساتھ نہ ہو سکا۔ یہ تصنیف اکرم خان کے فکری ارتقا کا کارنامہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں… ’’یہ کتاب اپنے محاسبے اور اپنے آپ پر تنقید کی کوشش ہے۔ میں گزشتہ چار عشروں سے ’’اسلامی اقتصادیات‘‘ کو علم کی ایک الگ شاخ منوانے کے لیے سوچتا رہا ہوں‘ لکھتا رہا ہوں اور وکالت کرتا رہا ہوں؛ تاہم گزشتہ ایک دہائی سے میری سوچ‘ آہستہ آہستہ‘ تبدیل ہوتی گئی‘‘۔ آگے چل کر وہ مزید وضاحت کرتے ہیں… ’’میرا مقصد یہ ثابت کرنا نہیں کہ ’’اسلامی اقتصادیات‘‘ کے طور پر جتنا کام کیا گیا ہے وہ حرفِ غلط ہے۔ میری تنقید کا ہدف یہ ہے کہ ہم ایک مخصوص دائرے سے نکل کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں تاکہ اقتصادیات کے بارے میں اسلام کا پیغام ہم عصر معیشت دانوں کی زیادہ بڑی تعداد تک پہنچ سکے‘‘۔
اکرم خان نقطۂ آغاز کے طور پر بتاتے ہیں کہ بدلتے ہوئے حالات‘ بالخصوص غیر مسلم ملکوں میں مسلمانوں کی کثیر تعداد پہنچنے کی وجہ سے‘ مسلم دانشور اور علماء صدیوں سے قائم مذہبی‘ فقہی اور ثقافتی نظریات پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ مثلاً اب تک قانون یہ ہے کہ ایک غیر مسلم عورت اگر اسلام قبول کرے تو اس کا غیر مسلم شوہر سے تعلق ختم ہو جاتا ہے۔ مگر ’’یورپی کونسل آف فتویٰ اینڈ ریسرچ‘‘ نے تصویر کا دوسرا رخ پیش کیا ہے کہ ایسا کرنے سے اُن عورتوں کی حوصلہ شکنی ہوگی جو اسلام قبول کرنا چاہتی ہیں۔ اس بات کا کافی امکان ہوتا ہے کہ مسلمان ہو جانے والی عورت کا شوہر بھی کچھ عرصہ بعد اسلام قبول کر لے مگر فوری طور پر علیحدہ ہو جانے سے ایسے شوہر بھی اسلام سے دور ہی رہیں گے۔ مشہور سوڈانی عالم دین حسن ترابی‘ جنہوں نے اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور پورے عالم اسلام میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اس مسئلے میں یورپی کونسل آف فتویٰ کے خیالات سے اتفاق کرتے ہیں!
اکرم خان کی یہ تصنیف اپنے موضوع پر ایک جامع اور بے مثال تحقیق ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ اس حوالے سے علم کا خزانہ ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ مصنف بغیر کسی تعصب کے‘ بغیر کسی طے شدہ نتیجہ کے‘ اسلامی اکنامکس‘ رِبا‘ اسلامی بینکنگ‘ اسلامی مالیات‘ زکوٰۃ اور دوسرے متعلقات پر بے لاگ محاکمہ کرتے جاتے ہیں۔ وہ نہ روایتی علما کے نکتۂ نظر سے مطمئن ہیں اور نہ ہی رِبا کی ’’مقبولِ عام‘‘ تشریح کرنے والے جدت پسندوں سے اتفاق کرتے ہیں۔ سچ کی تلاش میں وہ اپنے شائع شدہ نظریات پر بھی بے رحم تنقید کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ وہ مثالوں سے ثابت کرتے ہیں کہ اسلامی اقتصادیات پر زیادہ تر کام ’’دینیات‘‘ سے مماثل ہے اور سائنسی بنیادوں پر نہیں کیا جا سکا۔ اصل سوال جو وہ اٹھاتے ہیں یہ ہے کہ ’’رِبا‘‘ کو صرف قرض تک محدود کیوں نہیں رکھا جا رہا؟ یہاں وہ قرض اور سرمایہ کاری میں فرق کرتے ہیں۔ قرض دینے والے کو جو اضافی رقم دی جائے گی وہ یقینا رِبا ہے۔ لیکن کاروبار کرنے والا شخص اگر کسی سے رقم سرمایہ کاری کے طور پر لیتا ہے تو اس سرمایہ کاری کے ساتھ قرض والا سلوک کیسے روا رکھا جا سکتا ہے؟ قرض اور سرمایہ کاری کے درمیان اور قرض اور فنانسنگ کے درمیان جو بعدالمشرقین ہے اکرم خان اُس پر دلائل اور ا عداد و شمار کے ساتھ طویل بحث کرتے ہیں اور جدید معیشتوں سے مثالیں بھی دیتے ہیں۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی بینکاری نے روایتی بینکاری ہی کو برقرار رکھا ہے اور صرف نام بدل دیے ہیں۔ مکان خریدنے کے لیے جو شخص عام بینک سے قرض لیتا ہے وہ سود ادا کرتا ہے مگر جو اسلامی بینک سے قرض لیتا ہے وہ سود سے بھی زیادہ ادائیگی کر رہا ہے مگر اس کا نام سود ہے نہ رِبا نہ انٹرسٹ بلکہ ’’کرایہ میں شرکت‘‘ ہے۔ اسلامی بینکوں سے جو افراد قرضہ لیتے ہیں ان سے کاغذات کے ایک بے پایاں انبار پر دستخط کروائے جاتے ہیں جنہیں پڑھنا اور سمجھنا ننانوے فیصد سائلین کے لیے ناممکن ہے۔ جب ادائیگی کا وقت آتا ہے تو یہ خبر دی جاتی ہے کہ آپ فلاں شرط بھی مان چکے ہیں اور فلاں ادائیگی کے وعدے پر بھی دستخط کر چکے ہیں! گویا بوتل میں پانی وہی ہے۔ صرف لیبل مختلف ہے۔ سود کے خلاف سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ مقروض کی کھال اتر جاتی ہے۔ اسلامی بینکاری میں بھی مقروض سے کم و بیش یہی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ روایتی علما کا یہ اصرار کہ نظام بالکل وہ ہو جو ابتدائے اسلام میں تھا‘ اسلام کے حق میں نہیں جاتا۔ اس لیے کہ آج کے تقاضے‘ آج کے حالات اور آج کی حقیقتیں یکسر مختلف ہیں۔ آج بنیادی اصول وہی رہیں گے جو اسلام نے نافذ کیے ہیں مگر جدید معاشرے کی ضروریات کا بھی خیال رکھا جائے گا!
اسی کتاب کا دنیا بھر کے ’’اسلامی اقتصادیات‘‘ کے سنجیدہ طالب علم مطالعہ کر رہے ہیں۔ اس پر تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ ریویو شائع ہو رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کا اردو زبان میں ترجمہ کیا جائے تاکہ سنجیدہ پاکستانی علما اور سکالر بھی اس تک رسائی حاصل کر سکیں اور مصنف سے اتفاق یا اختلاف کر سکیں۔ یاد رہے کہ اس قبیل کے مسائل میں اختلاف ناگزیر ہے اور آگے بڑھنے کے لیے اختلاف رکاوٹ نہیں بنتا‘ سیڑھی کا کام دیتا ہے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“