آج – ٢٦؍جون؍١٩٥٥
بیسویں صدی کے جید ادیبوں میں شمار، صحافی، مزاحیہ کالم نگار اور معروف شاعر” چراغ حسن حسرتؔ صاحب“ کا یومِ وفات…
چراغ حسن حسرتؔ، ولادت ١٩٠٤ء کو پونچھ (کشمیر) میں ہوئی ۔ فارسی اردو اور عربی کی ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی ، پونچھ میں میٹرک کیا اور لاہور سے بی، اے کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد ’زمیندار‘ ’انصاف‘ اور ’احسان‘ جیسے اہم اخبارات سے وابستہ ہوکر صحافیانہ سرگرمیوں میں شامل ہوگئے۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران حسرتؔ ’فوجی اخبار‘ کے مدیر بھی رہے۔ روزمانہ ’امروز‘ میں حسرت نے ’سند باد جہازی‘ کے نام سے مذاحیہ کالم لکھے جو اس وقت بہت مقبول ہوئے اور بہت دلچسپی کے ساتھ پڑھے گئے۔ حسرت زندگی بھر اس قدر متنوع علمی اور تحقیقی کاموں میں لگے رہے کہ انہیں شاعری کے لئے کم وقت مل سکا۔ انہوں نے مسلمانوں کے عروج و زوال کی ’سرگذشتِ اسلام‘ کے نام سے کئی جلدوں پر مشتمل تاریخ لکھی۔ اسی کے ساتھ قائد اعظم محمد علی جناح اور اقبال پر ان کی کتابیں اپنے علمی اور فکری مباحث اور استدلال کی وجہ سے آج بھی اہمیت کی حامل تصور کی جاتی ہیں۔ ٢٦؍جون؍١٩٥٥ء کو لاہور میں انتقال کر گئے۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
معروف شاعر چراغ حسن حسرتؔ کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
ﺩﺷﻤﻦ ﺟﻮﺍﻧﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺁﺷﻨﺎﺋﯿﺎﮞ ﮨﯿﮟ
ﺍﻥ ﺁﺷﻨﺎﺋﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﺑﺮﺍﺋﯿﺎﮞ ﮨﯿﮟ
—
ﯾﺎﺭﺏ ﻏﻢِ ﮨﺠﺮﺍﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﺎ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ
ﺟﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﺟﮕﺮ ﭘﺮ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺩﺳﺖِ ﺩﻋﺎ ﮨﻮﺗﺎ
—
آؤ حُسنِ یار کی باتیں کریں
زلف کی رخسار کی باتیں کریں
—
ﺟﺐ ﺳﮯ ﺗﯿﺮﺍ ﮐﺮﻡ ﮨﮯ ﺑﻨﺪﮦ ﻧﻮﺍﺯ
ﺳﻮﺯ ﮨﮯ ﺳﻮﺯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺳﺎﺯ ﮨﮯ ﺳﺎﺯ
—
ﺯﻟﻒ ﺑﺮﮨﻢ ﮨﮯ ﺩﻝِ ﺁﺷﻔﺘﮧ ﺻﺒﺎ ﺁﻭﺍﺭﮦ
ﺧﻮﺍﺏِ ﮨﺴﺘﯽ ﺳﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺧﻮﺍﺏِ ﭘﺮﯾﺸﺎﮞ ﮐﻮﺋﯽ
—
ﯾﮧ ﻣﺎﯾﻮﺳﯽ ﮐﮩﯿﮟ ﻭﺟﮧ ﺳﮑﻮﻥِ ﺩﻝ ﻧﮧ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﮯ
ﻏﻢ ﺑﮯ ﺣﺎﺻﻠﯽ ﮨﯽ ﻋﺸﻖ ﮐﺎ ﺣﺎﺻﻞ ﻧﮧ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﮯ
—
ﺍﮎ ﻋﺸﻖ ﮐﺎ ﻏﻢ ﺁﻓﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﭘﮧ ﯾﮧ ﺩﻝ ﺁﻓﺖ
ﯾﺎ ﻏﻢ ﻧﮧ ﺩﯾﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﯾﺎ ﺩﻝ ﻧﮧ ﺩﯾﺎ ﮨﻮﺗﺎ
—
ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﺮ ﮔﯿﺎ ﺩﻝ ﮐﻮ ﻣﺮﮮ ﻭﯾﺮﺍﮞ ﮐﻮﺋﯽ
ﻧﮧ ﺗﻤﻨﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﻗﯽ ﮨﮯ ﻧﮧ ﺍﺭﻣﺎﮞ ﮐﻮﺋﯽ
—
ﺁﺧﺮﯼ ﺳﺎﻋﺖ ﺷﺐِ ﺭﺧﺼﺖ ﮐﯽ ﮨﮯ
ﺁﺅ ﺍﺏ ﺗﻮ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﯾﮟ
چراغ حسن حسرتؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ