جامعہ ریاض الصالحین فکر ندوہ کا ترجمان ادارہ ہے وادی کشمیر میں بوٹینگو کی پاکیزہ بستی کے ساتھ پیچھے کھڑی پہاڑی کے دامن میں آغوش علم و ادب لہرائے یہ ادارہ دعوت نظارہ دیتا ہے جس کے ایک طرف اونچی پہاڑیوں کا سلسلہ تا حد نگاہ تک وسیع و عریض ہے اور سامنے نیچے بوٹینگو کی بستی اپنے تمام حسن و جمال کے ساتھ دعوت نظارہ دیتی ہے علماء ندوہ کے استقبال و مہمان نوازی کا شرف پانے والا یہ ادارہ مفتی محمود حسن گنگوہی صاحب کی پیشن گوئی کا ثمر ہے وہیں یہ ادارہ الشیخ مولانا زکریا سنبھلی دامت برکاتھم کی آرزؤں کا ثمر جن کے لرزیدہ قدم بوسی کا شرف اس جگہ کو حاصل ہے شاید کچھ قیمتی آنسو بھی تب ملے ہوں جب مولانا سنبھلی نے دعا کی ہوگئی اپنے شاہگرد رشید کی کامیابی و کامرانی کے لئے اپنی پوری شان سے دعوت نظارہ دیتا ہے کوہ دامن کے افق سے وہی اداراہ ہے جس کی بنیاد میں اب بھی مولانا نیاز ندوی صاحب کے ہاتھوں کا لمس محسوس ہوتا ہے جنہوں نے اپنے ہاتھوں ادارے کی بنیاد رکھی ہے
عجب لذت و اپنائیت کا احساس دلا رہا ہے یہ ادارہ جو ہمارے پیارے رفیق مولانا سجاد حسین ندوی کی محنت و مشقت پر صبر سے ایستادہ رہے مکرم کے صبر کا میٹھا پھل ہے جہاں ایک طرف وادی کشمیر کے نامی ولی کامل حضرت شیخ حمزہ مخدومی رحمتہ اللہ کے خادم و حضرت ارزان شاہ کا مسکن ہے تو وہیں دوسری طرف اسی اونچائی پر دور ایک اور پہاڑی پر حضرت بابا شکور الدین رحمہ اللہ کی زیارت موجود ہے
مولانا زکریا سنبھلی وارد کشمیر ہوکر دارالعلوم سوپور میں خیمہ زن ہوتے ہیں تو خبر اخبارات کے ذریعے پیارے سجاد حسین تک پہنچ جاتی ہے جو اس وقت ندوہ سے فارغ ہوکر علیگڑہ سے ایم اے عربی کرکے سوپور کے ڈگری کالج سے ہوتے ہوئے ہندواڑہ کے کالج میں بحیثت مدرس اپنے فرائض انجام دے رہے ہوتے ہیں دو ساتھی ندوی آپسی مشورہ کرکے اپنے استاد جن کی شفقت و محبت کا خاصا حصہ سجاد حسین کے حصے میں زمانہ طالب علمی میں آتا ہے کے شوق دیدار میں سوپور چلے آتے ہیں ملاقات کے شوق میں مسرور ہوکر استاد دونوں عزیز طلبہ کی روداد سفر سنتا ہے تو تڑپ کر کہتا ہے ارے بیٹے سجاد کوئی علمی کام کرتے تو زیادہ بہتر رہتا بس پھر کیا تھا سجاد حسین کے دل میں اس خواہش استاد کے احترام میں اس قدر تڑپ پیدا ہوتئ ہے اسے تکمیل تک پہنچانے کی کہ راتوں کی نیند اور دن کا سکوں اڑ جاتا ہے انہیں رہ رہ کر اپنے استاد کے وہ محبت بھرے الفاظ کہ او سجاد ذرا میرے سامنے آکر بیٹھ جاؤ پڑھائی میں دل لگاؤ سجاد حسین زمانہ طالب علمی کو یاد کرکے آنسوؤں سے بھیگی پلکیں لئے کہتے ہیں مجھے اپنے وطن سے دور لکھنو کی سرزمین پر اپنے وطن اپنے والدین بہن بھائیوں کی یادیں خون کے آنسو رلایا کرتی تھیں بس اک ہستی تھی جن کی آغوش شفقت و محبت میں آکر میں اپنے کرب سے سسکتے لمحات بلا کر کچھ پل خوشیوں کے گزار لیتا تھا مولانا سجاد حسین سنبھلی مجھ پر گزرے کرب کے واقف تھے اسی لئے میں ان کی محبتوں کا خاص محور بنا رہا اب جب کہ وہ میری وادی میں آکر مجھ سے میرے لئے کسی خواہش کا اظہار کرتے ہیں تو میرا تڑپ اٹھنا بے سبب تو نہیں تھا بس یہ تڑپ اور غم ستانے لگا کہ کیسے اور کب اپنے استاد کے حکم کی تعمیل کر لوں نگاہیں نیچی رکھے سوچا تو خیال آیا اف میرے بیتے لمحے تو میرے لئے ذخیرہ تو کیا خاک ہیں ہاں وقت جو بیت گیا برباد ہوگیا اسی غم کی تپش میں سلگتے ہوئے اپنے ہم جماعت ندوی ساتھیوں کو روداد غم سنائی انہیں اپنے گھر مدعو کیا تو اک سہارا تب ملا جب برستی بارش میں میرے ساتھی کپڑے بچاتے ہوئے خود کو سنبھالتے ہوئے میرے گاؤں کے راستوں پر چلتے مجھے نظر آئے ایسا لگا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ میرے ساتھی بھیگتے ہوئے راستے کے کیچڑ پر گرتے پڑتے میرے دولت خانہ پر آرہے ہیں ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ان کی کوئی متاح حیات کھو گئی ہے اور میں نے پالی ہے مشورہ ہوا اپنے ان پیارے ساتھیوں سے پر مجھے میری سیاہ کاریاں مسلسل تڑپا رہی تھیں میری کوئی پہچھان نہیں کوئی میدان نہیں دنیا علم کے افق پر میں تو آج تک اس پر سوچنے سے بھی محروم ہی رہا تھا پر دل کا کرب مٹانے کے لئے ہمت کی اور چل پڑا ابتداء میں مدرسہ تفھیم القرآن کے نام سے ایک مکتب شروع کیا اپنی ناکامیوں کو روندتے ہوئے اسی دامن کوہ پر ایک قطعہ ارضی خریدا جس کی نصف قیمت ادا کی پر بقیہ نصف نے مجھے انتہائی غمگین کردیا اپنی شریک حیات نے پوچھا کیا ہوا ہے کیوں بجھے بجھے سے ہو تو بیقرار ہوکر کہہ دیا کہ میں قرض ادا نہیں کرپارہا ہوں یہ غم مجھے کھائے جارہا ہے میری شریک حیات نے اپنے زیورات لاکر رکھ دئے لو اور اپنی منزل پر چلتے ہوئے تھکن کے آثار بھی ماتھے پر نہ آنے دینا ماتھے پر جہاں میری بے بسی کا غم رقصاں تھا وہیں اب میری شریک حیات کی اس مدد نے میری روح تک میں تازگی کا احساس دوڑا دیا
میں نے اک مصمم ارادہ باندھ لیا اک جلسہ ہوا اسی بوٹینگو کی بستی کی جامع مسجد میں جہاں کچھ ساتھیوں کے سوا میرے ساتھ کوئی معاون نہ بنا ہزاروں خدشات کا ادراک کرتے ہوئے لوگ مجھ سے دوری بنائے رہے اور میں مغموم جامع مسجد میں کبھی خود کو تو کبھی اپنے آئے مہمان اساتذہ کو دیکھتا رہا جوکہ میرے ارادوں کا خون جیسا ہورہا تھا جلسہ کیا پر دل اداس ہزاروں وسوسے ہزاروں خدشات کہ میرے مربی میرے مرشد سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ میرے خواب میں آکر مجھے تسکین دے رہے ہوں خواب میں اک بستی دیکھی جوکہ مدرسہ کے بالکل بغل میں ہے کہ مولانا ندوی رحمہ اللہ کا جلسہ ہے بیان علم پر ہورہا ہے اور شرکائے مجلس کے بجائے مولانا رحمہ اللہ کی نظریں مجھ پر ہیں اپنے استاد محترم مولانا محمد رابع ندوی سے خواب کہا تو فرمایا آپ کے کام کی اور لگن و محنت کا ثمر مل رہا ہے حضرت مولانا ابو الحسن ندوی رحمہ اللہ آپ کے کام کی تصدیق آپ کے خواب میں آکر فرما رہے ہیں بس پھر کیا تھا اک نئی قوت اک نئے جذبہ کے ساتھ مشغول ہوگیا اور اللہ کے فضل و کرم کے سایہ میں ادارے کی بنیاد مولانا نیاز ندوی صاحب کے دست مبارک سے رکھی گئی عمارت کی بنیاد کے بعد وہ صبر آزما لمحے بھی آئے جہاں میرے قوت بازو تھک گئے پر میرے استاد کے الفاظ مسلسل مجھے تحریک دیتے رہے تھکاوٹ کافور ہوتی غم بکھر جاتا جوں یاد آتا میں اپنے استاد کی خواہش کی تکمیل کرنے کی سعادت پانے والا ہوں
اللہ بھی دستگیری انہیں کی فرمایا کرتا ہے جن کے پاکیزہ ارادے مضبوط ہوں یوں ہی مشکلیں بکھرتی رہیں اور خوشیوں اور شادمانیوں کے لمحات آتے گئے وہ لمحہ بھی آیا جب میرا استاد محترم مولانا شیخ زکریا سنبھلی دامت برکاتھم مولانا عدنان ندوی صاحب کے ساتھ میرے ادارے کو دیکھنے آئے وہ لمحہ بڑا خوبصورت تھا جب مولانا نے فرمایا سجاد حسین میرے گھٹنوں میں درد ہے اس پہاڑی پر کیسے جاؤں میری امید بکھرنے کے قریب تھی کہ میں نے سنا مولانا محترم فرما رہے ہیں او عدنان چل چلتے ہیں سجاد حسین ندوی کی دلجوئی کرنے کو وہ لمحہ میرے لئے ایسا تھا کہ خوشیاں بھی رقصاں تھیں جب میرے استاد محترم کے قدم آہستہ آہستہ خراب راستے پر پڑھتے ہوئے میرے اس خواب کی اور بڑھ رہے تھے جسے مولانا کے ایک لفظ سے میں نے حکم جان کر شروع کیا تھا مولانا جامعہ کے صحن میں پہنچے تو دعا دی مبارک باد ملی اب تو یوں محسوس ہورہا تھا کہ میں اپنی دنیا کا شہزادہ ہوں اور میرا بادشاہ علم و ادب کا عظیم ستارہ میرے لئے دعائیں مانگ رہا ہے اس رب کے حضور جس کے سہارے میں اور میرے ارادے تکمیل کی اور رواں دواں رہے اب یہ گلشن اک حسین و دلکش باغ بنتا جارہا ہے میرے اساتذہ جن میں مولانا زکریا مولانا نیاز ندوی مولانا سلمان ندوی جیسے کبار علماء بھی ہیں میرے خوابوں کے اس حسین گلشن کی زینت بنتے رہے جس گلشن کو ہزاروں آنسوؤں اور آہوں نے جلا بخشی ہائی تھی
ادارے کی خصوصیات
ادارہ اپنے اور ہزاروں ندویوں کے لئے اپنی پلکیں بچھائے منتظر ہے کہ وہ آئیں اور اپنی ذاتی ترجیحات پر دین مبین کی آبیاری کی تڑپ لئے اپنے ارمانوں کی تکمیل کریں جہاں کوئی فکری دیوالیہ پن نہیں بلکہ مادر علمی کی طرز پر فکری رخصت ہے جہاں دنیاوی علوم اور علوم اسلامیہ ایک ساتھ محو سفر ہیں جہاں سسکتی انسانیت کے لئے انسانیت ہمدردی اخوت بھائی چارے کی لامثال تعلیم دی جاتی ہے جہاں ایک طرف ندوی فکر ہے تو دوسری طرف دیوبند کی علمی خدمات ہیں جہاں دین و دنیا کی فلاح کا احساس زندہ کرایا جاتا ہے جو کامیابی کی ابتدائی منزلیں بڑی سرعت سے طے کررہا ہے جو تمام علماء امت کے علم کا ترجمان ہے جو اپنے ساتھیوں کے لئے ایک بہترین پلیٹ فارم ہے آئے ہاتھ بٹائیں خود کو اس سفر کا مسافر بنا کر چل پڑیں منزل دشوار صحیح پر ناممکن تو نہیں
“