چین کے صدر "لیو شاو چی" 31 مارچ سن 1966 کو کراچی تشریف لاۓ تھے۔ مذکورہ بالا تصویر اسی دن کے "روزنامہ جنگ، کراچی" کے اخبار سے لی گئی ہے۔
پاکستان کے ہر بڑے شہر میں ان کا شاندار خیر مقدم کیا گیا تھا۔ وہ اس وقت "ماؤ زے تنگ" کے جانشین اور دست راست سمجھے جاتے تھے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس دورے کے تین ماہ بعد یعنی جولائی 1966 میں لیو کو "غدار" اور "پارٹی میں سب سے بڑا "سرمایہ دار" قرار دے دیا گیا۔ 1966 کے آخر میں ان کے چیئرمین "ماؤ" سے اختلافات شروع ہو گئے اور لیو کو اُن کے تمام عہدوں سے برطرف کر دیا گیا۔
لیو شاؤ چی 24 نومبر 1898 میں چین کے صوبہ ہنان کے شہر نِنگ شیانگ میں ایک جاگیردار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 1919 میں آپ فرانسیسی زبان کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے شمالی چین چلے گئے۔ ایک سال بعد آپ نے سوشلسٹ یوتھ لیگ کے ممبر کی حیثیت سے ماسکو کا سفر اختیار کیا اور وہاں جا کر ماسکو یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ 1922 میں آپ واپس چین آگئے اور پہلی قومی مزدور کانگریس کو منظم کرنے میں مگن ہو گئے۔ اس کے کچھ عرصے بعد ہی وہ ہنان صوبے کی کمیونسٹ پارٹی میں ماؤزے تنگ کے نائب کے طور پر کام کرنے لگے۔ اگلے ہی سال ان کو کوئلے کی کانوں کے علاقوں میں بھیج دیا گیا۔ وہاں پر انہیں پارٹی کی جانب سے عام ہڑتال کروانے کی ذمہ داری سونپی گئی جو انہوں نے بخوبی نبھائی اور بہت ہی کامیاب ہڑتال کروائی۔ اس کے بعد مزدور تحریک چلانے کا کام ان کے سپرد کر دیا گیا۔
1927 تک چین کی کمیونسٹ پارٹی اور نیشنیلسٹ پارٹی ایک ساتھ مل کر کام کر رہی تھیں۔ اپریل 1927 میں نیشنیلسٹ پارٹی نے چیانگ کائی شیک کی قیادت میں اپنی راہیں کمیونسٹ پارٹی کے قائد ماؤزے تنگ سے جدا کر لیں۔ اس موقع پر لیو شاؤ چی نے محسوس کیا کہ شہری علاقوں میں نینشنیلسٹ پارٹی ہماری کمیونسٹ پارٹی کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے چنانچہ لیو شاؤ چی نے اپنی سرگرمیاں زیرِ زمین رہ کر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ لیو شاؤ چی کے وضع کردہ اس نئے طریقے کار نے پارٹی کو بے انتہا فائدہ پہنچایا اور لیو بڑی تیزی سے پارٹی کے اندر ترقی کے مدارج طے کرنے لگے۔حتٰی کے 1943 تک لیو شاؤ چی سینٹرل سیکرٹریٹ کے سیکرٹری کے ساتھ ساتھ پیپلز ریولیشنری ملٹری کونسل کے وائس چیئرمین بھی بنا دیے گئے۔ جون 1945 میں آپ پارٹی معاملات کے واحد ترجمان بن چکے تھے۔ دوسری جنگِ عظیم کے آخری دنوں میں جب ماؤزے تنگ 'چیانگ کائی شیک' کے ساتھ طویل مذاکرات میں مصروف تھے تو لیو شاؤ چی قائم مقام پارٹی چیئرمین کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ 1949 کے آخر میں چین میں کمیونسٹ پارٹی کی انقلابی حکومت برسراقتدار آگئی تو لیو شاؤ چی وائس چیئرمین کے عہدے کے لیے نامزد کر دیے گئے۔ 1956 میں ان کو سرکاری سطح پر ماؤزے تنگ کی جانب سے اپنا جانشین قرار دے دیا گیا۔ 1959 کی ابتدا میں ماؤزے تنگ نے حکومتِ چین کے سربراہ کا عہدہ چھوڑ دیا البتہ پارٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے آپ اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ اپریل 1959 میں لیو شاؤچی چینی حکومت کے صدر/چیئرمین بن گئے۔ 1966 تک حکومتی معاملات پر اُن کی گرفت بہت مضبوط رہی لیکن پھر آہستہ آہستہ اُن کی پالیسیوں کے خلاف کیے گئے ماؤزے تنگ کے سخت اقدامات کی وجہ سے حکومتی معاملات پر اُن کی گرفت ڈھیلی ہونا شروع ہو گئی۔ 1967 میں ثقافتی انقلاب کے دوران لیو شاؤچی اور ان کی بیوی "گوانگ می" کو باقاعدہ طور پر گرفتار کر کے نظربند کر لیا گیا۔ نظربندی کے اگلے برس اکتوبر 1968 میں "لیو" کو حکومتی عہدوں سے برطرف کر کے پارٹی سے بھی نکال دیا گیا۔
قید کے دوران ان کو بھوکا رکھا جاتا تھا۔ وہ زیابطیس کے مریض تھے لیکن ان کا علاج نہیں کیا گیا اور انہیں قید میں ہی نمونیا جیسی بیماری بھی لاحق ہو گئی۔
جب ماؤ کی بیوی کو پتہ چلا کہ بے پناہ خراب برتاؤ کی وجہ سے لیو شاؤ چی کسی بھی وقت مر سکتے ہیں تو انہوں نے جیل کے ڈاکٹر سے یہ تاریخی جملے کہے تھے کہ
"اس کو زندہ رکھو کیونکہ ہمیں عوام کو عبرت کا احساس دلانے کے لیے ایک زندہ ہدف چاہیے"
دلچسپ بات یہ ہے کہ ماؤزے تنگ کی موت کے بعد جب چین میں ایک نئی قیادت برسراقتدار آئی تو ماؤ کی بیوی کو گرفتار کر لیا گیا۔ دورانِ قید وہ بہت دردناک انجام سے دوچار ہوئیں اور آخرکار نوّے برس کی عمر میں خودکشی کرنے پر مجبور ہو گئیں۔
لیو شاؤ چی کو بطور سزا عوامی جلسوں میں لے جا کر بےعزت کیا جاتا تھا اور ریڈ گارڈر ان کی باقاعدہ پٹائی کرتے تھے۔ جدید چین میں لیو شاؤ چی کو سیاسی اختلافات کی بنا پر جس طرح عوامی جلسے جلوسوں میں لے جا کر بےعزت کیا گیا تو اس سے مجھے قرونِ وسطیٰ کے زمانے کا وہ مسلم اسپین یاد آگیا جہاں پر عظیم مسلم فلسفی ابنِ رشد کو بطور سزا مسجد کی سیڑھیوں پر بٹھا دیا جاتا تھا اور نمازیوں کو حکم تھا کہ وہ مسجد کے اندر جاتے ہوئے اور مسجد سے باہر نکلتے ہوئے "ابنِ رشد" پر تھوکیں۔
1969 میں دورانِ قید بیماری کی ہی حالت میں آپ انتقال کر گئے۔
1969 میں لیو شاؤچی کی جگہ لِن پیاؤ کو ماؤ کا نیا جانشین مقرر کر دیا گیا۔ جانشینی سے قبل "لِن پیاؤ" چین کی مسلح افواج کے سربراہ تھے۔ یہ ایک الگ قصہ ہے کہ 1971 میں "لِن پیاؤ" بھی چین کے سیاسی منظر سے حیرت انگیز طور پر اچانک غائب ہو گئے۔ سرکاری سطح پر ان کے لیے محض ایک بیان جاری کر دیا گیا کہ
"لِن پیاؤ غدار اور سازشی تھے جو ایک ہوائی حادثے میں مارے گئے"
سب زیادہ حیران کُن بات یہ ہے کہ "لیو" کے انتقال کے دو برس بعد اور ماؤ کی موت کے فوراً بعد اُن کے ہمدرد چین میں برسراقتدار آگئے اور یوں پارٹی میں ان کی حیثیت بعداز مرگ بحال کر دی گئی۔
“