بلند و بالا چوٹیوں، حسین وادیوں، چنار کے درختوں، خوبصورت جھرنوں اور جھومتے دریاؤں کی سرزمین کشمیر کے آزاد خطے میں آج کل انتخابات کا زور شور ہے اور آزاد خطے کے عوام پچیس جولائی کو اگلے پانچ سال کے لیے اپنے نمائیندوں کا انتخاب کریں گے۔ آزاد کشمیر کی جغرافیائی حیثیت اور کشمیر تنازعہ کے پس منظر میں یہ انتخابات بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے تمام تر مین سٹریم میڈیا کا فوکس آج کل آزاد کشمیر میں ہونے والے انتخابات ہیں۔ پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں بھی ان انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں اور بڑے زور و شور سے اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری نے آزاد کشمیر کی انتخابی مہم کے دوران آزاد خطے کے طول و عرض میں بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے نہ صرف اپنی جماعت کی کشمیر کی آزادی کے لیے کی جانے والی تاریخی جدوجہد کو عوام کےسامنے رکھا بلکہ پیپلزپارٹی کی پچھلی حکومتوں کے دوران آزاد خطے کے عوام کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا ذکر بھی کیا۔ پیپلزپارٹی اور اس کے قائدین کی جانب سے کشمیر کی آزادی کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کا کسی اور جماعت سے موازنہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ پیپلزپارٹی کے بانی قائد کا کہنا تھا کہ کشمیر کے بارے میں سوتے ہوئے بھی کوئی غلط فیصلہ نہیں کرسکتا اور کشمیرکی آزادی کے لیے ہم ہزار سال تک بھی جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ دوسری طرف پچھلے سال جب بھارت نے ایک آئینی ترمیم کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کا سٹیٹس تبدیل کر کے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا لیا تو موجودہ وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے اپنی بزدلی کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ بھارت کے اس اقدام کے جواب میں ہم کیا کرسکتے ہیں؟ کیا ہم بھارت سےجنگ شروع کردیں؟ موجودہ وزیراعظم کے کشمیر پر اسی ڈھیلے ڈھالے موقف کے باعث آزاد کشمیر کے انتخابات کے دوران موجودہ وزیراعظم اور ان کی جماعت پر کشمیر فروشی کا الزام لگایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے تحریک انصاف کو اپنی انتخابی مہم چلانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک طرف جہاں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے قائدین بڑے بڑے جلسے اور ریلیاں منعقد کررہے ہیں وہاں تحریک انصاف کی انتخابی مہم چھوٹی چھوٹی کارنر میٹنگز سے آگے نہیں بڑھ رہی۔
آزاد کشمیر کی انتخابی مہم کے دوران وفاق میں براجمان حکمران جماعت تحریک انصاف کی جانب سے انتخابی قوائد و ضوابط کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ امور کشمیر کے وزیر کی جانب سے ووٹ خریدنے کے لیے بڑی بڑی رقوم تقسیم کیے جانے کی ویڈیو بھی سامنے آ چکی ہے۔ اس کے علاوہ وفاقی وزرا پر انتخابی مہم چلانے کی پابندی کے باوجود وفاقی وزرا کھلم کھلا انتخابی مہم چلارہے ہیں۔ وفاقی حکومت اور اس کے وزرا کی جانب سے آزاد کشمیر کے انتخابات میں مداخلت اور انتخابی قوائد کی خلاف ورزی کوروکنے کے لیے حسب توقع الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔ تحریک انصاف کے وفاقی وزرا کی جانب سے انتخابی مہم کے دوران سیاسی مخالفین کے بارے نہایت غلیظ زبان استعمال کی جا رہی ہے جو تحریک انصاف کے کلچر کو توظاہر کر ہی رہی ہے لیکن اس کی وجہ سے آزاد کشمیر کے عوام میں شدید بے چینی بھی پائی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جگہ جگہ وفاقی وزرا کا استقبال جوتے اچھال کر کیا جا رہا ہے اور ان کے قافلوں پر لوگ گندے انڈوں اور ٹماٹروں کی بارش کر رہے ہیں۔آزاد کشمیر کی انتخابی سیاست میں عوام کی جانب سے اس طرح کے ردعمل کا اظہار ایک نیا عنصر بن کر سامنے آیا ہے جو تحریک انصاف کی قیادت کے لیے لمحہ فکریہ ہے اور سوچنے کا مقام ہے کہ عوام کی جانب سے ان کے خلاف اتنے شدید ردعمل کا مظاہرہ کیوں کیا جا رہا ہے۔
آزاد کشمیر کی انتخابی مہم کے دوران امور کشمیر کے وفاقی وزیر علی امین گنڈہ پور کی جانب سے کشمیری عوام کے احتجاج کے جواب میں کشمیری عوام پر کی جانے والی سیدھی فائرنگ کا انتہائی افسوسناک واقعہ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں تحریک انصاف کے پاوں اکھڑ چکے ہیں اور تحریک انصاف یہ انتخاب بری طرح ہارنے جا رہی ہے۔
تنازعہ کشمیر اور خطے کی حساس صورتحال کے تناظر میں یہ واقعہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور اس افسوسناک واقعہ سے عالمی سطح پر پاکستان کے موقف کو بہت زیادہ نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ بھارت کے پاس پورا موقع ہے کہ وہ اس واقعہ کو بنیاد بنا کرپوری دنیا میں پاکستان کے خلاف غلیظ پروپیگنڈہ کرے اور موجودہ حکومت کی ناکام خارجہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان جو پہلے ہی عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہے اس کے لیے مزید مشکلات پیدا کرے۔ اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ امور کشمیر کے وزیر کی اس افسوسناک حرکت پر اس کے خلاف کوئی کاروائی کی جاتی ہے یا ہمیشہ کی طرح آنکھیں بند ہی رکھی جائیں گی۔
آزاد کشمیر کے انتخابات میں مختلف جماعتوں کی انتخابی مہم، امیدواروں کے چناؤ، عوام کے ردعمل اور ان جماعتوں کے مرکزی رہنماوں کے جلسوں کا جائزہ لیں تو مقابلہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ میں ہوتا نظر آ رہا ہے۔ تحریک انصاف وفاقی حکومت کی بھرپور آشیرباد اور سپورٹ ہونے کے باوجود کہیں نظر نہیں آرہی۔ اگرچہ تحریک انصاف نے انتخابات سے پہلے کچھ الیکٹیبلز اپنی جماعت میں شامل کیے ہیں لیکن وہ الیکٹیبلز بھی بوجوہ مشکلات کا شکار نظر آرہے ہیں۔ پیپلزپارٹی جس نے سب جماعتوں سے زیادہ تینتالیس سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے ہیں کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ آزاد کشمیر کے اندر تینتیس سیٹوں پر ہونے والے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے امیدوار ن لیگ سے تھوڑا آگے ہیں جبکہ پاکستان میں کشمیری مہاجرین کی بارہ سیٹوں پر ہونے والے انتخابات میں ن لیگ سب سے آگے ہے۔ اس صورتحال میں مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو پیپلزپارٹی اور ن لیگ میں کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جارہی ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر وفاقی حکومت کی سطح پر بہت زیادہ بے چینی موجود ہے۔ ان کے امیدواروں نےرپورٹ دی ہے کہ گراونڈ پر صورتحال بہت خراب ہے۔ معاملات وفاقی وزیروں کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔ وزیروں کو جلسوں میں جوتے پڑ رہے ہیں، ان کے قافلوں کو روک کر احتجاج کیا جا رہا ہے جس کے باعث تحریک انصاف کے امیدوار کامیابی کےلیے بہت زیادہ پُرامید نظر نہیں آتے۔
گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے انتخابات کی تاریخ رہی ہے کہ یہاں ہمیشہ اس جماعت کی حکومت بنی ہے جس کو پاکستان میں حکومت حاصل ہو لیکن آزاد کشمیر کے موجودہ انتخابات میں صورتحال یہ بن چکی ہے کہ پاکستان کی حکمران جماعت تحریک انصاف آزاد کشمیر کے انتخابات کی دوڑ میں کہیں نظر ہی نہیں آرہی۔ اب اگر وفاقی حکومت انتخابی دھاندلی یا انتخابی انجنئیرنگ کے ذریعےانتخاب جیتنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کے لیے بڑے پیمانے پر دھاندلی کی ضرورت پڑے گی جو خطے کی حساس صورتحال اور عوام کے موڈ کو دیکھتے ہوئے کوئی دانشمندانہ عمل نہیں ہو گا۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی اور ن لیگ اپنی عوامی طاقت کے بل بوتے پر اگردھاندلی روکنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو تاریخ بدل بھی سکتی ہے اور آزاد کشمیر میں پہلی مرتبہ ایک ایسی حکومت کا قیام عمل میں آ سکتا ہے جو پاکستان میں موجود حکومت کے مخالف ہو۔ یہ حکومت پیپلزپارٹی کی بھی ہو سکتی ہے اور ن لیگ کی بھی۔ تقسیم شدہ مینڈیٹ کی صورت میں یہ دونوں جماعتیں مل کر بھی حکومت بنا سکتی ہیں۔ انتخابات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس کا پتہ بہرحال پچیس جولائی کی شام کو ہی لگے گا۔
وفاقی حکومت کو معلوم ہونا چاہئیے کہ کشمیر کے غیور عوام کو نہ تو پیسے سے خریدا جا سکتا ہے اور نہ گولیوں سے ڈرایا جا سکتا ہے اس لئے وفاقی حکومت کو چاہئیے کہ ان تمام اوچھے ہتھکنڈوں سے باز رہے کیونکہ آزاد کشمیر کے عوام کا جو موڈ اس وقت نظر آرہا ہےاس میں دھاندلی، دھونس اور طاقت سے عوام کا مینڈیٹ چھیننے کی کوئی بھی کوشش خطرناک ثابت ہو سکتی ہے اور انتخابی مہم کےدوران وفاقی حکومت اور اس کے وزرا کی جانب سے جن چنگاریوں کو ہوا دی گئی ہے وہ چنگاریاں شعلہ بن کر بہت کچھ جلا سکتی ہیں۔ دانشمندی اسی میں ہے کہ عوام کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے اور چنار وادی کو انگار وادی نہ بنایا جائے۔
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...