ہندوستان کی پہچان ، تاج محل، دنیا بھر کے سیاحوں کے لئے ہندوستان کی سیر کی سب سے بڑی وجہ، تاج محل۔
تاج، ایک شہنشاہ نے بنواکے حسین تاج محل، ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے، تو کسی کے نزدیک اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق۔ محبت کی لازوال یادگار، تاج محل
تاج محل، ہندوستان کے سر کا تاج
لیکن میرے ہندوستانی دوست مجھے معاف کردیں اگر میں کہوں کہ یہ تاج ایک ننگے بھوکے، میلے کچیلے فقیر کے سر پررکھ دیا گیا ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو تاج محل کی جائے قیام ، آگرہ کو ایک نظر دیکھ لیں۔
آگرہ، جسے لودھیوں نے بنایا تو مغلوں نے سنوارا۔ جو بقول نظیر اکبر آبادی کبھی
تھا رشک حسن بلخ و نوشاد آگرہ
اور میری بات بری لگے تو اسی آگرہ کے اس بڑے شاعر کی پوری بات بھی سن لیں۔
اب تو ذرا سا گاؤں بھی بیٹی نہ دے اسے
لگتا تھا ورنہ چین کا داماد آگرہ
آگرہ جسے میں نے آج سے اڑتیس سال پہلے دیکھا تو اس آگرے سے لاکھ درجے اچھا تھا جو آج ہے۔ اس آگرے میں زندگی تھی۔ یا شاید مجھے زندگی اور زندہ دلی نظر آتی تھی کہ جس دن میں آگرہ میں تھا اس دن ہولی تھی اور آگرے والے رنگ، ترنگ اور مستی میں جھومتے تھے۔ گورے سیاح بھی ہولی کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ گو اس وقت کا آگرہ بھی ہماری آگرہ تاج کالونی جیسا ہی تھا۔ ٹوٹ پھوٹ، پسماندگی، خستگی، کہنگی اور گندگی کا شاہکار۔ خستہ حالی جس کے درودیوار سے ٹپکتی تھی۔ جس آگرے میں آج بھی انسانوں کے ساتھ ساتھ گائیں بھینسیں، کتے، بندر اور کہیں کہیں سؤر بازاروں میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔
اور میرے تاریخ دان دوست، اور عظمت رفتہ کے متوالے بھی مجھے معاف رکھیں۔ آگرہ شہر “ عظیم” مغل فرمانرواؤں کے پورے فلسفہ حکمرانی کی چلتی پھرتی تصویر ہے۔ شاہی خاندان کے لئے ہندوستان کا سب سے بڑا قلعہ اور اس کے محلات، شہزادے، شہزادیوں کو اٹھکیلیاں کرنے اور عشق لڑانے کے لئے باغات، چہیتی ملکاؤں کے لئے عظیم الشان مقبرے، شاہی خاندان کے لئے عبادتگاہیں کہ جو دیکھے عش عش کر اٹھے۔ اور دوسری جانب غریب غرباء کے لیے ٹوٹے پھوٹے مکانات، گلیاں اور بازار جو شاید آج سے دو ، تین سو سال پہلے بھی ایسے ہی تھے جیسے آج ہیں۔ آج کے آگرہ والوں کے چہروں پر پھیلی ہوئی مایوسی اور پژمردگی شاید زبان حال سے تاج محل اور قلعہ آگرہ بنانے والوں سے شکوہ کناں ہے کہ ہم بھی انسان تھے، ہماری طرف بھی دیکھا ہوتا، ہمیں بھی جینے کا حق دیا ہوتا۔
اب مجھے حیرت نہیں ہوتی، لیکن تب میں بہت حیران ہوا تھا جب میں آگرہ سے ہوکر سعودی عرب واپس آیا تو میرے دوست فرید ناروی نے کہا کہ وہ دلی میں رہتا ہے، آگرے کی بغل میں ، لیکن اس نے آگرہ نہیں دیکھا۔ فرید کے کے آگرہ نہ جانے کی وجہ اب سمجھ آتی ہے۔ آگرے سے تاج محل، قلعہ آگرہ اور جامع مسجد نکال دیں تو صرف وہاں کا پیٹھا، اور کبھی ہندوستان کا سب سے بڑا پاگل خانہ، معاف کیجئے دماغی ہسپتال بچتا ہے۔
شہر میں داخل ہوتے ہوئے ایک طویل خوبصورت سڑک جس کے ایک طرف جے پور کی طرز کے گلابی مکانات اور دوسری جانب ہرے بھرے کھیتوں کی قطاریں ہیں ۔ یہ شاید چھاؤنی کا علاقہ ہے۔ اور شاید سب سے خوبصورت اور صاف ستھرا علاقہ ۔ یقیناً یہ دل کو بھانے والا منظر ہے لیکن جب شہر میں داخل ہو جاؤ تو مجھے اپنے بچپن کا بہار کالونی اور آگرہ تاج کالونی یاد آجاتے ہیں۔ پھر وہ چاہے یہاں کا مشہور کناری بازار ہو یا ایشیا میں چمڑے کی مصنوعات کا سب سے بڑا مرکز، آگرے کا صدر بازار، یا جامع مسجد کے آس پاس کی گلیاں جہاں کھوے سے کھوا چھلکتا ہے، انسانوں کی بھیڑ کو چیرتے سائیکل رکشے جنہیں مدقوق سے گاڑی بان کھینچ رہے ہوتے ہیں، دکانوں کے تھڑوں اور کہیں کہیں بیچ سڑک پر دھرنا دئے گئو ماتا، دکانوں کی چھتوں، مکانوں کے چھجوں، چوباروں پر اچھل پھاند مچاتے ہنومان جی کے پریوار والے، کوڑوں کے ڈھیر پر لڑتے جھگڑتے موٹے موٹے سؤر، تاج کے آس پاس کی دکانوں میں تاج محل کے نہایت کمزور ماڈل، جو بمشکل گھر تک صحیح سلامت پہنچ پاتے ہیں یا آگرے سے چالیس کلو میٹر دور فیروز آباد کی چوڑیاں ۔ یہ ہے کل کائنات آگرے کی۔
یوں تو آگرے میں تاج اور قلعے کے علاوہ اعتماد الدولہ کا خوبصورت سفید پتھر سے بنا مقبرہ بھی ہے اور مغلوں ہی کے بنائے ہوئے مہتاب باغ اور انگوری باغ اور چنی کا روضہ بھی ہیں لیکن سیاح قلعہ اور تاج کے علاوہ شاید ہی یہاں کا رخ کرتے ہوں۔ اس سے کہیں زیادہ سیاحوں کی دلچسپی کی جگہیں تو آگرے کے آس پاس کے فتح پور سیکری، متھرا اور بندر ابن ( یا برنداون) ہیں۔
فتح پور سیکری جہاں بابا سلیم چشتی کی درگاہ تک ننگے پاؤں پیدل چل کر اکبر نے اولاد کے لئے دعا کی تھی اور دعا پوری ہونے پر اپنے بیٹے کا نام شیخ کے نام پر سلیم رکھا تھا اور لاڈ سے اسے “ شیخو” پکارتا تھا۔ ( یہ ہم نہیں کہتے، امتیاز علی تاج صاحب نے ایسا ہی بتایا ہے) ۔ فتح پور سیکری کے قلعے کا بلند دروازہ ہو یا وسیع وعریض قلعے میں پھیلے محلات، ، غسلخانے، عبادتگاہ ، یہ سب سنگ مرمر کی بنی مسجد اور شیخ کی درگاہ کے سامنے ماند پڑ جاتے ہیں۔ اور شیخ کی مرقد جس کا تعویذ سمندری سیپیوں سے بنا ہے ۔
اور پھر قریب ہی سکندرہ میں مغل اعظم یعنی شہنشاہ اکبر کی قبر اس کے علاوہ کرشنا جی کا جنم استھان متھرا، جس کے مندر اور پیڑے دنیا بھر کے لوگوں کو اپنی جانب کھینچ لاتے ہیں۔ اور دوسری طرف ایک اور تیرتھ یعنی بندرابن اور اس کی کنج گلیاں۔
بندرا بن لیکن ایک بہت ہی خاموش اور پرسکون سا شہر ہے جہاں کی تنگ گلیوں میں مندروں کی قطاروں کے ساتھ ساتھ بندروں کے غول کے غول نظر آتے ہیں۔ لیکن شاید ہنومان جی کے پریوار والے اور یہاں کے رہنے والے بھگت آپس میں بہت شانتی اور پریم سے رہتے ہیں ، ورنہ ہمارے کراچی میں تو مداری کا کمزور سا بندر ذرا سا خوخیاتا تھا تو پورا مجمع ڈر کر پیچھے ہٹ جاتا تھا۔
اب واپس آتے ہیں اپنے آگرے کی طرف۔۔ آخر یہ ایسا بے مایہ شہر بھی نہیں ۔ یہاں قلعہ اور تاج تو ہیں ناں۔ اور تاج دنیا میں اور کہاں ہے۔ تاج سے پہلے ذراقلعے سے ہو آئیں۔
قلعہ آگرہ کو کہا جاتا ہے کہ دلی کے لال قلعے سے بھی بڑا ہے۔یہ بھی لال پتھر سے ہی بنا ہے۔ اندر بنے بہت سارے محلات، دیوان خاص، دیوان عام، بارہ دری ، صحن، حوض ، دالان، دریچے ، لودھیوں اور مغلوں کے ذوق صناعی کی یادگار ہیں ۔ یہاں جہانگیر کا محل بھی ہے جسے کچھ لوگ جودھا بائی کا محل کہتے ہیں لیکن سب سے خوبصورت وہ حصہ ہے جو شاہجہان نے سفید پتھر سے بنوایا ہے۔ لیکن اس بدنصیب شاہجہان کو اس کے نیک اور دیندار بیٹے اورنگ زیب نے اسی قلعے میں بند کیا تھا جس کے ایک روزن سے وہ جمنا کی دوسری جانب بنی اپنی چہیتی ملکہ ممتاز محل کی قبر یعنی تاج محل پر نظر ڈالتا اور آہیں بھرتا تھا۔
تاج اور قلعے کے بیچ میں جمنا ہے۔ اللہ جانے یہ جمنا ندی ہے یا دریا لیکن جب میں نے دیکھا تو مجھے اس میں اور لیاری ندی میں کوئی زیادہ فرق نظر نہیں آیا تھا۔ یہاں پانی بہت تھوڑا تھا اور زیادہ تر حصہ خشک اور گھاس میں ڈھکا نظر آتا تھا۔
اور تاج کی تو خیر بات ہی کیا ہے۔ لوگ باگ پوچھتے ہیں کہ تاج میں کیا خاص بات ہے۔ میرے ساتھ معاملہ یہ ہوا کہ میں بارش ختم ہونے کے بعد تاج محل گیا۔ مینہ میں دھلا سفید براق تاج یوں لگتا تھا جیسے کوئی پاکیزہ روح سفید لباس پہنے کھڑی ہے۔ میں بس تاج کو تکتا ہی رہتا تھا۔ مجھ جیسے کم مایہ کے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ تاج کے حسن کی تصویر کشی کر سکوں۔ میں نے ہر زاوئے سے تاج کی بے تحاشا تصویریں لی تھیں جن میں خاص ترین وہ تھی۔ جو میں نے قلعے سے تاج اور تاج سے قلعے کی لی تھیں۔ دربدر کی مہاجرت میں وہ تصویریں یہاں وہاں ہوگئیں۔
ممتاز محل کی قبر، ہمارے قائد اعظم کے مزار کی طرح نیچے تہہ خانے میں ہے یعنی اوپری منزل میں بڑا ہال اور اس کے اوپر تاج کا خوبصوت گنبد۔ لیکن کہتے ہیں کہ بارش کے بعد دو قطرے اللہ جانے کس طرح قبر کے سرہانے پر ٹپک جاتے ہیں۔ مجھے اتفاق سے یہ بات یاد آئی تھی اور میں نے قبر کا تعویذ چھو کر دیکھا تھا۔ میرے ہاتھوں پر نمی تھی۔
اب یہ بھی نہیں ہے کہ آگرہ میں تاج کے علاوہ کچھ نہیں۔بھلا جس کے پاس تاج ہو اسے اور چاہئیے بھی کیا؟ نظیر اکبر آبادی تو تھے ہی آگرے کے، اپنے مرزا غالب کی پیدائش بھی تو آگرے ہی کی تھی۔ اور یہ آگرہ ایک سو بتیس سال مغلوں کی راجدھانی رہا ہے۔ اور اگر غالب اور نظیر کا اور اکبر اور شاہجہاں اور ممتاز محل کا آگرہ نہ بھی دیکھنا ہو تو کم ازکم پیٹھا خریدنے کے لیے تو آگرہ رک ہی سکتے ہیں ۔ کم از کم لوگ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ
“ بدھیا مری تو مری، آگرہ تو دیکھا”۔
اللہ جانے اس کہاوت کا کیا مطلب ہے کہ” آگے آگرہ، پیچھے لاہور”۔
لیکن سچ بتاؤں اب لاہور بہت آگے ہے اور آگرہ بے چارہ بہت پیچھے رہ گیا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...