(Last Updated On: )
تحریر: چماماندہ نگوزی ایڈیجی ( نائیجیریا)
مترجم : عقیلہ منصور جدون (راولپنڈی)
اپنے خاوند کے فوت ہونے کے بہت سالوں بعد سے اب تک ،رات کے وقت اس کی اپنی جھونپڑی میں آمد اور پھر صبح کے وقت گنگناتے ہوئے ندی کی طرف جاتے ہوئے اس کی دھویں جیسی خوشبو ،اس کی وزن کی مضبوطی ،اور وہ راز جس میں وہ اپنے سوا کسی کو شریک نہیں کر سکتی تھی ،ان سب یادوں کو اپنے ماضی سے آزاد کرنے کے لئے وامزا وقتاً فقتاً اپنی آنکھیں بند کر لیتی ۔اس وقت وہ اپنے آپ کو روشنیوں کے ہالے میں محسوس کرتی ۔اوبیریکا کی باقی یادیں بہت صاف اور واضح تھیں جیسے اس کی چھوٹی اور موٹی انگلیاں بانسری کے گرد لپٹی ہوئیں جب وہ شام کے سمے اسے بجاتا ،اس کی وہ خوشی جب وہ شام کو اس کے لئے کھانا سجاتی ،اس کی پسینے سے شرابور پیٹھ جس پر لاد کر وہ اس کی برتن سازی کے لئے تازہ مٹی لاتا تھا ۔
اس پہلے دن ہی جب اس نے اسے کُشتی کے میچ کے دوران دیکھا تھا ،تو دونوں ایک دوسرے کو تکتے ہی رہ گئے تھے ۔دونوں ہی جوان تھے ۔ابھی وامزا نے ماہواری کے کپڑے بھی پہننا شروع نہیں کیے تھے ۔انہوں نے یقین کر لیا تھا کہ دونوں کی روحوں کا ملاپ ان کی قسمت میں لکھ دیا گیا تھا ۔چنانچہ جب کچھ سالوں بعد وہ وامزا کے باپ کے پاس کھجور کی شراب سے بھرے برتنوں اور اپنے رشتہ داروں کے ساتھ آیا تو وامزا نے ماں کو بتا دیا کہ وہ صرف اور صرف اسی مرد سے شادی کرے گی، تو اس کی ماں دم بخود رہ گئی تھی ۔وہ اس بات سے پریشان تھی کہ کیا وامزا نہیں جانتی تھی کہ ابیریکا والدین کا اکلوتا بیٹا تھا ۔اس کے مرے ہوے باپ کی بیویوں کے حمل ضائع ہو جاتے تھے اور بچے مر جاتے تھے ۔شاید اس کے خاندان میں سے کسی نے ممنوعات کا مرتکب ہوتے ہوے لڑکی کو غلام بنا کر بیچ ڈالا تھا اور زمین دیوتا آنی (Ani) نے ان پر بد قسمتی مسلط کر دی تھی ۔ وامزا اپنی والدہ کو نظر انداز کرتے ہوے سیدھی باپ کے پاس پہنچی اور اسے بتایا کہ اگر اس کی شادی اوبیریکا کی بجاۓکسی بھی اور شخص سے کی گئی تو وہ وہاں سے بھاگ آۓگی اس کا باپ بھی اس بدزبان اور ضدی بیٹی کے لئے پریشان ہو گیا کہ جس نے ایک دفعہ بھائی کو کشتی لڑتے ہوے زمین پر پٹخ دیا تھا ،جس کے بعد باپ نے سب کو سختی سے متنبہ کیا تھا کہ یہ خبر کسی بھی طرح گھر سے باہر نہ جاۓکہ لڑکی نے لڑکے کو گرایا تھا ۔
وہ خود بھی اوبیریکا کے خاندان کے بانجھ پن سے پریشان تھا ۔لیکن اسے یہ بھی معلوم تھا کہ وہ خاندان برا نہیں تھا ۔اوبیریکا کے والد نے اوزو (Ozo) کا خطاب لیا تھا ۔اوبیریکا پہلے سے ہی شکرقندی اپنے مزارعوں میں بانٹ رہا تھا ۔اگر وامزا اس سے شادی کر لے گی تو کچھ خاص برا نہیں ہو گا ۔اس لئے بہتر یہی ہے کہ اس کی پسند سے اس کی شادی کر دی جاۓ۔اس طرح ہم اس مصیبت سے بچ جائیں گے جو دوسری صورتحال میں ہمیں پیش آۓگی ۔کہ وہ آۓ روز سسرال سے لڑ جھگڑ کر واپس گھر آتی رہے گی ۔چنانچہ اس نے وامزا کو اپنی دعائیں دیں ،تب وامزا نے بھی اسے اچھے نام سے پکارا ۔
دلہن کی قیمت ادا کرنے کے لئے اوبیریکا اپنے دو کزن اوکافو اور اوکویو جو اس کے لئے بھائیوں کا درجہ رکھتے تھے کو ساتھ لے کر آیا تھا ۔وامزا کو وہ پہلی ہی نظر میں نہیں بھاۓتھے ۔جب وہ اس کے والد کے (obi) مردان خانہ میں بیٹھے کھجور کی شراب پی رہے تھے تو اس نے ان کی آنکھوں میں حسد کی آگ جلتے دیکھی تھی ۔
آنے والے سالوں میں جب اوبیریکا نے خطابات حاصل کئے ،اپنا احاطہ وسیع کیا ۔اپنی شکر قندی دور دیس کے اجنبیوں کو بیچی تو اس نے ان کو حسد کی آگ میں جل کر سیاہ ہوتے دیکھا ۔لیکن اس نے انہیں برداشت کیا ۔کیوںکہ وہ اوبیریکا کے لئے اہم تھے ۔وہ ان کے کوئ بھی کام نہ کرنے کو نظر انداز کرتا تھا ۔وہ اس سے شکر قندی اور چکن مانگنے رہتے تھے ۔اس لئے کہ وہ انہیں بھائیوں کی جگہ رکھتا تھا ۔انہوں نے ہی جب وامزا کا تیسرا حمل ضائع ہوا تو اسے دوسری شادی کا مشورہ دیا ۔اوبیریکا نے ان کے مشورے پر سوچنے کا وعدہ کیا لیکن جب رات کے وقت وہ اور وامزا اپنی جھونپڑی میں اکیلے تھے تو اوبیریکا نے اسے یقین دھانی کرائی کہ ان کے گھر میں بہت سے بچوں کا شور ہو گا ۔وہ بوڑھے ہونے تک دوسری شادی نہیں کرے گا وہ بھی اس لئے کہ بڑھاپے میں انہیں کسی خدمت گزار کی ضرورت ہو گی ۔وامزا کو اوبیریکا کی یہ بات بہت عجیب لگی تھی ۔ کہ ایک خوشحال شخص ،ایک ہی بیوی کا شوہر اور وہ پریشان نہیں ۔لیکن وامزا بچہ نہ ہونے پر لوگوں کے سریلے کم ظرف الفاظ پر مبنی گانوں ، “ اس نے اپنا رحم ( بچہ دانی ) بیچ دیا ہے ،اپنے خاوند کا عضو تناسل چبا گئی ہے ،وہ بانسری بجاتا ہے اور اپنی دولت اس کے حوالے کر دیتا ہے “ ،سے بہت پریشان ہو جاتی تھی ۔
ایک دفعہ چاند کی روشنی میں کئے گئے اجتماع میں جب احاطہ عورتوں سے بھرا ہو ا تھا ،کہانیاں سنائی جا رہی تھیں ،ڈانس سیکھا جا رہا تھا ۔ لڑکیوں کے ایک گروہ نے وامزا کو دیکھا تو گانے لگیں ۔ان کی اشتعال انگیز چھاتیاں وامزا کی طرف اشارے کر رہی تھیں۔وہ ان کے پاس رکی ،ان سے تھوڑا اونچا گانے کا مطالبہ کرتے ہوے کہا کہ وہ ان کے الفاظ سننا چاہتی ہے اور پھر انہیں دکھانا چاہتی ہے کہ دو کچھوؤں میں سے بڑا کونسا تھا ؟ ۔لڑکیوں نے گانا بند کر دیا ۔وامزا ان کے خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹنے پر لطف اندوز ہوئی تھی ۔لیکن اسی لمحے اس نے اوبیریکا کے لئے خود دوسری بیوی ڈھونڈنے کا ارادہ کر لیا تھا ۔
وامزا oyi / اوئی ندی پر جانا پسند کرتی تھی ۔اپنی کمر سے چادر کھولتی ،ڈھلوان سے اترتی ،اس چمکدار پانی کی دھار کی جانب بڑھتی جو چٹان سے پھوٹ رہا تھا اوئی ندی کا پانی دوسری ندی اوگلانیا سے زیادہ تازہ تھا ،یا پھر اس لئے کہ اسے اوئی دیوی کے مزار /shrine پر اطمینان قلب حاصل ہوتا تھا ،جو ایک کونے میں عام نظروں سے اوجھل تھا ۔بچپن سے ہی اس نے سیکھ رکھا تھا کہ اوئی عورتوں کی محافظ تھی ۔ اس لئے عورتوں کو غلامی کے لئے نہیں بیچا جا سکتا تھا ۔اس کی بہترین دوست آیاجو پہلے سے ہی ندی پر موجود تھی ۔جب وامزا اس کے پانی کا برتن اس کے سر پر رکھوانے میں اس کی مدد کر رہی تھی تو اس نے اپنی دوست سے پوچھا ،اوبیریکا کے لئے کون بہتر دوسری بیوی ہو سکتی ہے ؟ ۔وہ دونوں اکٹھی پلی بڑھی تھیں ۔فرق یہ تھا کہ ایاجو غلام نسل سے تھی اس کا باپ ایک جنگ کے بعد غلام بنا لیا گیا تھا ۔وہ اپنے خاوند کی بلکل پرواہ نہیں کرتی تھی ،وہ کہتی کہ اس سے چوہے جیسی بو آتی ہے ۔لیکن یہ شادی اس نے اس لئے کر لی تھی کہ غلام نسل ہونے کی وجہ سے اس کی شادی ہونے کے امکانات بہت کم تھے ،کسی بھی آزاد نسل کے مرد کے لئے اس کا ہاتھ مانگنا نا ممکن تھا ۔وہ لمبے اعضاء والی تیز رفتار اور بہت سے تجارتی سفروں کا تجربہ رکھتی تھی ۔وہ اونیجا سے بھی باہر جا چکی تھی ۔وہ لوگوں کو ایگالا اور ایڈو تاجروں کے عجیب و غریب رواجوں کی کہانیاں سنائی تھیں ۔اسی نے سب سے پہلے سفید جلد والے مردوں جو اونیجا میں آ گئے تھے کے بارے میں بتایا تھا ۔جن کے پاس آئینے اور کپڑے تھے ۔اور اس خطے کے لوگوں کے حساب سے سب سے لمبی بندوقیں تھیں ۔اس جہاندیدگی کی وجہ سے اس کی عزت کی جاتی تھی ۔غلام نسل کی وہ واحد عورت تھی جو وویمن کونسل میں اونچی آواز میں بات کر سکتی تھی ۔اور وہ واحد شخص تھی جس کے پاس ہر بات کا جواب ہوتا تھا ۔
اس لئے اس نے فورا” وامزا کو اوکونکوا خاندان کی لڑکی کا مشورہ دیا ۔لڑکی خوبصورت چوڑے کولہوں والی تھی اور باعزت بھی ۔آج کل کی لڑکیوں سے جن کے دماغ بےوقوفانہ باتوں سے بھرے ہوتے ہیں مختلف تھی ۔ندی سے واپسی پر آیاجو نے وامزا کو مشورہ دیا کہ اسے وہی کرنا چاہیے جو اس صورتحال میں کوئی بھی دوسری عورت کرتی ۔کوئی عاشق پھنسآۓاور اوبیریکا کی نسل چلاۓ۔ وامزا کا جواب بہت سخت تھا کہ اسے اس کے بات کرنے کا لہجہ پسند نہیں آیا کہ بین السطور وہ یہ کہہ رہی تھی کہ اوبیریکا نا مرد تھا ۔اس کی باتوں سے اس نے اپنی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہوا محسوس کیا ۔اسے معلوم تھا کہ وہ پھر سے امید سے ہے لیکن خاموش رہی کہ وہ جانتی تھی کہ یہ حمل بھی ضائع ہو جاۓگا
کچھ ہفتوں بعد وہی ہوا ۔گلٹی دار خون اس کی ٹانگوں سے بہنا شروع ہو گیا ۔اوبیریکا نے اسے تسلی دیتے ہوے مشورہ دیا کہ جونہی وہ آدھے دن کا سفر کر سکے تو روحانی پیشوا کسا (Kisa) کے پاس جاۓ ۔ جب کسا نے پوری سالم گاۓ کی قربانی کا کہا تو وامزا پریشان ہو گئی ۔اوبیریکا کے اباؤ اجداد بھی لالچی تھے لیکن وہ مذہبی قربانیاں اور رسموں پر یقین رکھتے تھے ۔جب وامزا نے خاوند کو اوکونکوا خاندان کی لڑکی کو جا کر دیکھنے کا مشورہ دیا تو وہ اسے ٹالتا رہا ،یہاں تک کہ ایک اور شدید درد سے اس کی کمر ٹوٹنے لگی۔اور کچھ مہینوں بعد وہ اپنی جھونپڑی کے پچھواڑے تازہ دھلے کیلوں کے پتوں پر لیٹی تھی ۔پوری طاقت سے دباؤ ڈال کر بچے کو دھکیل رہی تھی یہاں تک کے بچہ باہر آ گیا ۔
انہوں نے بچے کا نام انیکوینو رکھا ۔ زمین دیوتا نے انہیں بیٹا عطا کر دیا تھا ۔جو سیاہ رنگ اور مضبوط جسم کا مالک تھا ۔اس میں اوبیریکا والا تجسس تھا ۔اوبیریکا اسے طبی فوائد کی حامل جڑی بوٹیاں اور وامزا کی برتن سازی کے لئے مٹی ڈھونے کے لئے اپنے ساتھ لے کر جاتا ۔شکر قندی کی بیلوں کو موڑنے کے لئے بھی اسے ساتھ لے کر جاتا ۔اوبیریکا کے دونوں کزنز آتے جاتے رہتے تھے ۔وہ حیران ہوتے کہ بچہ کتنی اچھی بانسری بجاتا تھا ۔کتنی تیزی سے وہ شاعری اور کشتی کی چالیں باپ سے سیکھ رہا تھا ۔ لیکن وامزا ان کے بڑھتے ہوے حسد کو انکی ظاہری ہنسی میں بھی دیکھ لیتی تھی ۔وہ ہر وقت خاوند اور بیٹے کی حفاظت کے لئے پریشان رہتی ۔اور جب اوبیریکا ،ایک صحت مند ہنستا ہوا اور کھجور کی شراب پیتے ہوے مر گیا تو وہ جانتی تھی کہ انہوں نے اسے کسی دوائی سے مارا تھا ۔وہ اس کی لاش کے ساتھ چمٹ گئی ۔ایک ہمساۓنے اسے طمانچہ مار کر اس کو لاش سے علیحدہ کیا تھا ۔وہ بہت دنوں تک بجھی ہوئی راکھ پر لیٹی رہی اپنے بالوں کو منڈوا کر بناۓگئے ڈیزائین ختم کر دئے ۔اوبیریکا کی موت نے اسے لامتناہی مایوسی میں گھیر لیا تھا ۔وہ ان عورتوں کے بارے میں سوچتی جو دس بار حاملہ ہونے کے باوجود زندہ بچہ حاصل نہ کر سکیں اور جنہوں نے اسے کے پچھواڑے کے کولہ درخت سے لٹک کر خود کشی کر لی تھی ۔لیکن وہ انیکوینو کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکتی تھی ۔
بعد میں وہ بہت پچھتائی کہ اس نے ان دونوں کزنز کو اس روحانی پیشوا کے سامنے مشروب پینے پر اصرار کیوں نہیں کیا تھا ۔ اس نے ایک دفعہ ایسا ہوتے دیکھا تھا ۔ جب ایک دولتمند شخص مرا تو اس کے خاندان نے اس کے مخالف کو مشروب پینے پر مجبور کیا تھا ۔وامزا نے دیکھا تھا کیسے کنواری عورت نے پیالہ نما شکل کے پتے میں پانی بھر کر مرے ہوے شخص کے جسم سے لگایا ساتھ ہی ساتھ روحانی وظیفہ پڑھتی رہی اور پھر وہی پانی پیالہ نما پتے سے ملزم کو پینے کا کہا گیا ۔اس نے پی لیا ہر کسی نے یہ یقینی بنایا کہ وہ پانی نگل لے ۔اس وقت ہوا دبیز خاموشی سے بھر گئی تھی ۔سب جانتے تھے کہ اگروہ مجرم ہوا تو مر جاۓگا ۔کچھ دنوں بعد وہ مر گیا ۔اس کے خاندان کے لوگوں کے سر شرمندگی سے جھک گئے تھے ۔ وامزا یہ سب دیکھ کر لرز گئی تھی ۔ اسے یہ سب اوبیریکا کے کزنز پر آزمانا چاہیے تھا ۔لیکن وہ اس وقت دکھ اور غم سے آندھی ہو گئی تھی اور اب تو اوبیریکا دفن ہو چکا تھا اور بہت دیر ہو گئی تھی ۔
اس کے کزنز نے جنازے کے دوران ہی اس کے ہاتھی دانت قبضے میں لے لیے تھے یہ کہتے ہوے کہ خطابات کی آرائش و سجاوٹ بیٹے کی بجاۓبھائیوں کی ملکیت ہوتی ہے ۔لیکن جب وہ شکر قندی کے گودام خالی کرنے لگے اور ان کے ریوڑ سے بالغ بکریاں لے جانے لگے تو اس نے ان کا دلیری سے سامنا کیا ۔ چینخی چلائی ۔لیکن جب انہوں نے اسے دھکے مارے تو اس نے رات ہونے کا انتظار کیا تھا ۔ رات کو پورے قبیلے میں ان کے ظلم کے بارے میں گاتی پھری کہ وہ ایک بیوہ کو لوٹ رہے تھے ۔یہاں تک کہ قبیلے کے بڑوں نے انہیں اس کے معاملات سے دور رہنے کا حکم دے دیا ۔ اس نے خواتین کونسل میں بھی ان کی شکایت کی ،جس پر بیس عورتیں ڈنڈے لہراتی آئیں ۔ انہیں متنبہ کیا کہ وہ وامزا کے نزدیک نہ آئیں ۔اوبیریکا کے ہم عمروں نے بھی انہیں اسے اکیلا چھوڑ دینے کا کہا ۔
وامزا جانتی تھی کہ وہ حاسد کزنز کبھی باز نہیں آئیں گے ۔وہ انہیں قتل کر دینے کے خواب دیکھنے لگی ۔وہ ایسا کر بھی سکتی تھی ،کہ ان کی ہڈ حرامی اور کاہلی کی وجہ سے ایسا کرنا اس کے لئے آسان تھا ۔لیکن پھر اسے بھی قبیلہ بدر کردیا جاتا ،پھر اس کے بیٹے کی دیکھ بھال اور پرورش کون کرتا ۔اب وہ اسے اپنے ساتھ لمبی لمبی سیر کے لئے لے جاتی اسے بتاتی کہ اس کھجور کے درخت سے لے کر اس درخت تک ساری زمین ان کی ملکیت ہے جو اس کے دادا سے اس کے باپ کو ملی تھی ۔ اس نے یہ باتیں اتنی بار دہرائیں کہ وہ بور اور پریشان ہونے لگا تھا ۔ وہ اس کے چاندنی میں باہر جا کر کھیلنے کے دوران بھی اس کی نگرانی کرتی تھی ۔
ایک نئے سفر سے واپسی پر آیاجو ایک نئی کہانی کے ساتھ آئی ۔کہ اونیجا کی عورتیں سفید فاموں کے بارے میں پروگرام بنا رہی تھیں ۔انہوں نے سفید لوگوں کی تجارت کو خوش آمدید کہا تھا ۔ اب سفید فام انہیں تجارت کے نئے طریقے سکھا رہے تھے اور جب اونیجا کے ایک اور قبیلے کے لوگوں نے ایک کاغذ پر انگوٹھے لگانے سے انکار کر دیا تو سفید لوگ رات کو اپنے مددگار وں کے ساتھ اگوک آئے ،اور پورا گاؤں تباہ کر دیا ۔کچھ بھی نہیں بچا ۔وامزا کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ ان کے پاس کس قسم کی بندوقیں ہیں ؟ ۔آیاجو ہنستے ہوے اسے بتانے لگی ۔ان کی بندوقیں اس کے خاوند کی زنگ آلود چیز سے بلکل مختلف ہیں ۔ کچھ سفید فام مختلف قبیلوں میں جا رہے تھے اور والدین کو اپنے بچے سکولوں میں بھیجنے کا کہہ رہے تھے ۔اس نے اپنے بیٹے ازوکا کو سکول داخل کروا دیا تھا ۔وہ کھیتی باڑی میں بہت سست تھا اور اسے غلام نسل سے ہونے کی وجہ سے خطابات لینے کا بھی حق نہیں تھا ۔وہ چاہتی تھی کہ اس کا بیٹا ان غیر ملکیوں کے طور طریقے سیکھ لے ۔کیوں کہ وہ دوسروں پر اس لئے حکمرانی نہیں کر رہے تھے کہ وہ بہتر لوگ تھے ،بلکہ اس لئے کہ ان کے پاس بہتر بندوقیں تھیں ۔اس کا اپنا باپ بھی غلام بنا کر نہ لایا جاتا اگر اس کے قبیلے کے پاس وامزا کے قبیلے سے بہتر اسلحہ ہوتا ۔ جب کہ وامزا اس کی باتیں سننے کے دوران اوبیریکا کے کزنز کو سفید لوگوں کی بندوق سے مارنے کا سوچ رہی تھی ۔
جس دن سفید فام ان کے گاؤں آۓتو وامزا نے جو تنور میں برتن رکھنے لگی تھی ،وہیں چھوڑ دے ۔بیٹے کو اور کام سیکھنے والی لڑکی کو ساتھ لیا اور فورا” میدان میں پہنچ گئی ۔پہلے تو وہ ان دو سفید مردوں کی ظاہری حالت سے مایوس ہوئی ۔وہ بے ضرر نظر آ رہے تھے ۔بھورے سے رنگ کے نازک اعضاء والے تھے ۔ لیکن ان میں کچھ غیرملکی پردیسی پن تھا ۔ ان کے ساتھ کچھ عام آدمی بھی تھے ۔ان میں سے صرف ایک عجیب سے لہجے میں ان کی مقامی زبان اگبو (Ibgo) میں بات کر رہا تھا ۔ اس نے بتایا کہ وہ الیل سے تھا ۔ دوسرا عام آدمی سیرالیئون سے تھا ۔اور سفید آدمی فرانس سے تھا ۔وہ سب روح القدس کی جماعت سےتھے ۔وہ 1885 میں اونیجا آۓ تھے ۔وہاں اپنے سکول اور چرچ بنا رہے ہیں ۔سب سے پہلا سوال وامزا نے پوچھا ،کیا وہ اپنی بندوقیں ساتھ لاۓ ہیں ؟ ۔جن سے انہوں نے اگویک کے گاؤں کو تباہ کیا تھا ۔ کیا وہ ان بندوقوں کو دیکھ سکتی ہے ؟ اس آدمی نے برا مناتے ہوے جواب دیا کہ وہ لوگ برطانوی حکومت اور رائل نیگر کمپنی کے تاجر ہیں ۔جو گاؤں تباہ کرتے ہیں ۔وہ تو اچھی خبریں لاۓہیں ۔انہوں نے اپنے خدا کی باتیں کیں ۔جو دنیا میں مرنے کے لئے آیا تھا ۔جس کا بیٹا تھا لیکن بیوی نہیں تھی ۔جو تین تھے لیکن ایک ہی تھے ۔وامزا کے ارد گرد کھڑے لوگ خوب ہنسے ۔کچھ وہاں سے چلے گئے اور کچھ رکے رہے ۔اورانہیں ٹھنڈا پانی پیش کیا ۔
کچھ ہفتوں بعد ایاجو ایک نئی کہانی سنا رہی تھی ۔سفید لوگوں نے اونیجا میں ایک عدالت قائم کی تھی ۔جہاں وہ جھگڑوں کے فیصلے کرتے تھے ۔وہ یہاں مستقل رہنے آ گئے تھے ۔ ۔پہلی دفعہ وامزا نے اپنی دوست پر شک کیا ،کیونکہ مقامی لوگوں کی اپنی عدالتیں تھیں ،جو شکر قندی کے میلے پر لگتی تھیں تاکہ انصاف کے انتظار کے دوران وہ اپنی کھیتی باڑے پر توجہ دے سکیں ۔ایاجو نے ہنستے ہوے اسے سمجھایا کہ وہی لوگ حکومت کرتے ہیں جن کے پاس اچھی بندوقیں ہوتی ہیں ۔اس کا بیٹا پہلے سے ہی یہ سب کچھ سیکھ رہا تھا ۔اور انیکوینو کو بھی سیکھنا چاہیے ۔وامزا نے انکار کر دیا ۔ایسا سوچنا بھی ناممکن تھا کہ وہ اپنا اکلوتا بیٹا ،اپنی اکلوتی آنکھ سفید لوگوں کے حوالے کر دے ۔چاہے ان کی بندوقیں کتنی ہی بہترین کیوں نہ ہوں ۔
اگلے سال کے تین واقعات نے وامزا کا ذہن بدل دیا ۔پہلا یہ کہ اوبیریکا کے کزنز نے زمین کے بہت بڑے ٹکڑے پر قبضہ کر لیا ۔اور بڑوں سے یہ کہا کہ وہ وامزا کے لئے اس پر کھیتی باڑی کرنے لگے ہیں ۔ایک ایسی عورت جس نے ان کے مردہ بھائی کو لاغرکر دیا تھا ۔اور دوسری شادی کرنے سی انکاری تھی جب کہ اس کے رشتے بھی آ رہے تھے ۔اس کی چھاتیاں ابھی تک گول تھیں ۔بڑوں نے ان کا ساتھ دیا ۔
دوسرا واقعہ دو لوگوں کی ایک کہانی تھی جو ایاجو نے اسے سنائی ۔وہ اپنا زمین کا مقدمہ سفید لوگوں کی عدالت میں لے گئے تھے۔ پہلا شخص اگرچہ جھوٹ بول رہا تھا ۔لیکن سفید لوگوں کی زبان بول رہا تھا ۔جب کہ دوسرا جو زمین کا حقیقی مالک تھا ان کی زبان نہیں بول سکتا تھا ۔وہ مقدمہ ہار گیا ۔اسے مارا گیا اور بند کر دیا گیا ۔اور زمین چھوڑنے کا حکم دیا گیا ۔
تیسرا وااقعہ ایک لڑکے ایروبازہم کی کہانی تھی ۔جو بہت عرصے پہلے گم ہو گیا تھا ۔اور پھر اچانک ہی دوبارہ سامنے آ گیا ۔اس کا باپ عموما” ہم عمروں کے اجلاس میں اپنے ہمساۓپر چینختا چلاتا تھا ۔اس ہمساۓنے اسے اغوا کر کے جب اس کی ماں بازار گئی ہوئی تھی اسے غلاموں کے تاجر کے پاس لے گیا ۔جنہوں نے اسے دیکھ کر بتایا کہ اس کی ٹانگ کا زخم اس کی قیمت کم کر دے گا ۔پھر اسے دوسروں کے ساتھ باندھ دیا گیا ۔ انسانوں کی لمبی قطار بن گئی تھی ۔انہیں ڈنڈوں کے ساتھ مارا جاتا اور تیز چلنے کا کہا جاتا ۔ان میں صرف ایک ہی عورت تھی ۔وہ بار بار چلاتی اور اغواکاروں کو بے رحم کہتی ۔یہ بھی کہتی کہ اس کی روح ان کو اور ان کے بچوں کو نقصان پہنچاۓگی ۔اسے معلوم ہے کہ اسے سفید لوگوں کو بیچ دیا جاۓگا ۔سفید فام ہم لوگوں کو گاۓبکری سمجھتے ہیں ۔بڑے سے جہاز پر دور کہیں بھیج دیتے ہیں ،وہاں آخر کار انہیں کھا لیا جاتا ہے ۔ ایروبازہم . سب کے ساتھ چلتا رہا ،چلتا رہا ،چلتا رہا ۔اس کے پاؤں سے خون رسنے لگا ،اس کا جسم بے حس ہو گیا ۔کبھی کبھار اس کے منہ میں تھوڑا سا پانی ڈالا جاتا ۔آخر کار وہ ایک ساحلی قبیلے میں رکے ،جہاں ایک آدمی ناقابل سمجھ اگبو بول رہا تھا ،وہ کچھ نہ کچھ اس کی زبان سمجھ گیا ،کہ وہ شخص جس نے اغوا شدگان کو سفید لوگوں کو بیچنا تھا وہ ان سے بھاؤ تاؤ کرنے گیا اور خود ہی اغواہ ہو گیا ۔ ۔خوب بحث و مباحثہ اور ہا تھا پائی شروع ہو گئی ۔کچھ اغوا شدگان نے رسی کو کھینچا ،جس پر لڑکا غش کھا کر گر پڑا ۔ جب اسے ہوش آیا تو ایک سفید شخص اس کے پاؤں پر تیل مل رہا تھا وہ ڈر گیا کہ شاید اسے سفید لوگوں کے کھانے کے لئے تیار کیا جا رہا تھا ۔لیکن وہ سفید آدمی تھوڑا مختلف تھا ۔وہ ایک مشنری / تبلیغی تھا جو غلام خرید کر آزاد کر دیتا تھا ۔اس نے لڑکے کو اپنے ساتھ رکھ لیا ۔ اسے عیسائی تبلیغی بنانے کے لئے تیار کرنے لگا ۔
اس لڑکے کی کہانی نے وامزا کو سخت پریشان کر دیا ۔اسے یقین تھا کہ اوبیریکا کے کزنز اسی طرح اس کے بیٹے سے جان چھڑائیں گے ۔اس کو قتل کرنا ان کے اپنے لئے خطرناک تھا ۔وامزا کو انگریزی زبان بلکل پسند نہیں تھی لیکن اب اس نے فیصلہ کر لیا کہ اس کا بیٹا یہ زبان سیکھے گا ۔سفید لوگوں کی عدالت میں جاۓگا اور اوبیریکا کے کزنز سے اپنی ملکیتی چیزیں واپس لے گا ،اس طرح اس نے جلد ہی ایاجو کو بتا دیا کہ وہ اپنے بیٹے کو سکول لے جانا چاہتی تھی ۔۔
پہلے وہ برطانوی کلیسا کے مبلغین کے پاس گئی ۔وہاں کلاس روم میں لڑکوں کی نسبت لڑکیاں زیادہ تھیں ,کچھ متجسس لڑکے گھومتے پھرتے اپنی گلیلوں کے ساتھ وہاں آۓ اور پھر اسی طرح گھومتے گھومتے باہر نکل گئے ۔طلباء کی گود میں سلیٹیں تھیں اور استاد ان کے سامنے کھڑا تھا ۔اس کے پاس ایک بڑی چھڑی تھی وہ انہیں کہانی سنا رہا تھا ،کہ ایک شخص تھا جس نے پیالے کے پانی کو شراب میں بدل دیا تھا ۔وامزا استاد کی عینکوں سے متاثر ہوئی ۔اس نے سوچا کہانی والے شخص کے پاس اتنی طاقتور دوائی ہو گی جس نے پانی کو شراب میں بدل دیا ۔جب لڑکیاں علیحدہ ہو گئیں اور انہیں خاتون استاد سلائی سیکھانے آئی تو اسے یہ بےوقوفی لگی ۔ان کے قبیلے میں عورتیں برتن بنانا سیکھتی تھیں اور کپڑوں کی سلائی مردوں کا کام تھا ۔جس چیز نے اسے سکول سے بد دل کر دیا وہ یہ تھا کہ ہدایات اگبو میں دی جا رہی تھیں ۔وامزا نے پہلے والے استاد سے اس کی وجہ پوچھی اس نے بتایا کہ بے شک طلباء کو انگریزی بھی پڑھائی جاتی ہے ،اس نے اسے انگلش کا قاعدہ دکھایا ۔ساتھ ہی اسے سمجھایا کہ بچے اپنی زبان میں بہتر سیکھتے ہیں اور سفید لوگوں کے ملک میں ان کے بچے اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔وامزا واپسی کے لئے مڑی تو استاد اس کے سامنے کھڑا ہو گیا ،اسے سمجھانے لگا کہ کیتھولک تبلیغی بہت سخت گیر ہیں / رومی عیسائی فرقہ ۔وہ دل سے مقامی لوگوں کے مفاد کا خیال نہیں رکھتے،
وامزا اس سے بہت محظوظ ہوئی کہ ان غیر ملکیوں کو اتنا پتہ نہیں کہ اجنبیوں کے سامنے آپس میں اتحاد ظاہر کرنا چاہیے ۔لیکن چونکہ وہ انگریزی کی تلاش میں آئی تھی اس لئے وہ انہیں چھوڑ کر کیتھولک کے پاس چلی گئی ۔
فادر شاناہان نے اسے بتایا کہ اس کے بیٹے کا انگریزی نام رکھنا پڑے گا ۔اس کافرانہ نام سے اسے بیپتسمہ نہیں دیا جا سکتا ۔وامزا کے لئے اس کا نام انیکوینو ہی رہنا تھا ۔اسے اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ وہ اسے کس نام سے بلائیں گے ۔اس کا مقصد صرف اتنا تھا کہ وہ انگریزی بول کر اپنے باپ کے کزنز سے جیت جاۓ ۔ فادر شاناہان نے بچے کو غور سے دیکھا ۔سیاہ رنگت کا مضبوط اعضا ء کا بچہ اور اندازہ لگایا کہ بارہ سال کا ہو گا ۔اگرچہ ان کے لئے مقامی لوگوں کی عمروں کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا تھا ۔بعض اوقات ایک بچہ پورا مرد لگتا ،کچھ بھی مشرقی افریقہ جیسا نہیں ،پ تھا ۔جہاں اس نے پہلے کام کیا تھا ۔وہاں کے مقامی لوگ دبلے پتلے تھے ۔
فادر نے لڑکے کے سر پر کچھ پانی انڈیلا اور کہا ،” مائیکل ،میں تمہیں باپ ،بیٹے اور روح القدس کے نام پر بپتسمہ دیتا ہوں ۔”
اس کے بعد لڑکے کو ایک مردانہ بنیان اور ایک نیکر پہننے کے لئے دی اور سمجھایا کہ زندہ خدا کے بندے ننگے نہیں پھرتے ۔اس نے وامزا کو بھی تبلیغ کرنے کی کوشش کی لیکن وامزا نے اسے ایسے دیکھا جیسے وہ کوئی بچہ ہو، جسے کچھ علم نہ ہو ۔ فادر کو وازا میں کچھ ایسا پریشان کن محسوس ہوا جو یہاں کی اکثر عورتوں میں تھا ۔اگر ان کے جنگلی پن پر قابو پایا جا سکے تو ان سے فائدہ اٹھانے کے بہت امکانات تھے ۔ اس کے خیال میں وامزا عورتوں کے لئے ایک حیرت انگیز تبلیغی بن سکتی تھی ۔وہ اسے جاتے ہوے دیکھتا رہا ۔اس کی سیدھی پشت بہت دلکش تھی ۔دوسری عورتوں سے مختلف وہ دو ٹوک بات کر رہی تھی ۔وہ مشتعل ہو گیا ۔ان کی طویل گفتگو اور سرسری محاورے ،وہ کبھی بھی اصل بات تک نہ پہنچ پاۓلیکن وہ یہاں سبقت لے جانے کے لئے پر عزم تھا ۔اسی وجہ سے اس نے روح القدس کی جماعت میں شمولیت اختیار کی تھی ۔جن کا خاص مقصد سیاہ فام لوگوں کو نجات دلانا تھا ۔
وامزا اس بات سے پریشان تھی کہ تبلیغی بلا تفریق طلباء کو پیٹتے تھے ،جیسے ،تاخیر کرنے پر ، سست روی کا مظاہرہ کرنے پر ،بیکار بیٹھنے پر ،اور ایک دفعہ اس کے بیٹے نے اسے بتایا کہ فادر لٹز نے ایک دفعہ ایک لڑکی کو جھوٹ بولنے پر ہتھ کڑی پہنا دی تھی ۔سارا دن اگبو میں کہتے رہے ،مقامی والدین اپنے بچوں کے بہت ناز نخرے اٹھاتے ہیں ۔۔وہ ٹوٹی پھوٹی مقامی زبان بول لیتے تھے ۔ یہ بھی بتایا کہ انجیل پڑھانے کا مقصد نظم و ضبط سکھانا بھی تھا ۔
پہلے ہفتے کے اختتام پر انیکوینو . گھر آیا تو وامزا نے اس کی پشت پر بہت سے گھومڑ دیکھے ۔اس نے اپنی چادر کمر کے گرد کس کر لپیٹی اور سکول پہنچ گئی ۔ٹیچر کو بتایا ،اگر آئندہ کسی نے اس کے بیٹے کے ساتھ ایسا کچھ کرنے کی جرات کی تو وہ اس کی آنکھیں نکال لے گی ۔وہ جانتی تھی کہ انیکوینو سکول جانا نہیں چاہتا ۔وہ اسے سمجھاتی کہ سال دو سال ہی کی تو بات ہے ۔بس وہ انگریزی سیکھ لے ۔تبلیغ کے لوگوں نے اسے سمجھایا کہ وہ بار بار سکول نہ آیا کرے لیکن وہ ہر ہفتے آ کر زبردستی بیٹے کو گھر لے جاتی ۔تبلیغی احاطے سے نکلتے ہی انیکوینو اپنے کپڑے اتار دیتا اسے بنیان اور نیکر پہننا بلکل پسند نہیں تھا ۔ان سے اسے پسینہ آتا تھا کپڑے سے اس کی بغلوں میں بہت خارش ہو تی تھی ۔اس کے علاوہ اسے کلاس میں بوڑھوں کی موجودگی بھی اچھی نہیں لگتی تھی ۔
وہ اپنے کپڑوں کے حوالے سے اپنے قبیلے والوں کی تعریفی نگاہوں سے آگاہ تھا ۔اسی وجہ سے آہستہ آہستہ اس کا رویہ سکول کے بارے میں تبدیل ہونے لگا ۔ اس تبدیلی سے وامزا اس وقت آگاہ ہوئی جب ان لڑکوں نے جن کے ساتھ وہ گاؤں کا میدان صاف کرتا تھا شکایت کی کہ وہ اپنے حصے کا کام نہیں کرتا ،کیوں کہ وہ سکول میں پڑھتا ہے ۔اور وہ ایسے سخت لہجے میں انگریزی بولتا ہے ۔کہ سب چپ ہو جاتے ہیں ۔اس پر وامزا نے فخر محسوس کیا ۔لیکن اس کا یہ فخر جلد ہی پریشانی میں بدل گیا جب اس نے دیکھا کہ انیکوینو کی آنکھوں کا تجسس ماند پڑ رہا ہے ۔اس کی جگہ بوجھل تفکر لے رہا ہے ۔جیسے کہ اچانک اس پر اپنا آپ کھل گیا ہو ۔اور وہ دنیا کے بوجھ کے نیچے آ گیا ہو ۔وہ دیر تک چیزوں کو گھورتا رہتا اس نے وامزا کا پکایا ہوا کھانا بھی کھانا چھوڑ دیا ،وہ اسے کہتا کہ یہ بتوں کی قربانی ہے ۔وہ وامزا کو چادر کمر کی بجاۓ سینے پر باندھنے کا کہنے لگا ۔اس کے نزدیک ننگا رہنا گناہ تھا ۔
وامزا اس کی سنجیدگی سے لطف اندوز ہوتی لیکن پریشان ہو کے پوچھتی کہ اسے اب اس کے ننگے پن کا احساس کیوں ہونے لگا ہے ؟
جب انیکوینو کی بلوغت میں داخل ہونے کی تقریب کا وقت آیا تو اس نے شامل ہونے سے انکار کر دیا ۔اس کے نزدیک لڑکوں کا روحوں کی دنیا کا رکن بننا بت پرستوں کا رواج تھا ،جس کے خاتمے کی فادر شاناہان کوشش کر رہا تھا ۔اس پر وامزا نے اس کے کان کھینچتے ہوے اسے سمجھایا کہ ایک غیر ملکی بھورا شخص یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ کب کس رواج نے ختم ہونا ہے ۔اس لئے جب تک قبیلہ خود اس رسم کا خاتمہ نہیں کرتا اسے اس میں شامل ہونا پڑے گا ۔وگرنہ وہ اسے بتاۓکہ وہ اس کا بیٹا ہے یا اس سفید غیرملکی کا ؟ ۔
انیکوینو بہت بددلی سے راضی ہو گیا ۔جب اسے لڑکوں میں لے جایا گیا تو اس نے دیکھا کہ اس کے بیٹے میں کوئی جوش و خروش نہیں ہے ۔اس کی اداسی وامزا کو اداس کر گئی ۔اسے احساس ہو گیا کہ اس کا بیٹا اس سے دور جا چکا ہے ۔اس کے باوجود اسے فخر تھا کہ وہ بہت کچھ سیکھ رہا ہے ۔وہ چاہتی تھی کہ وہ یا تو عدالتی ترجمان بن جاۓیا مکتوب نویس ۔ جب وہ فادر لٹز کی مدد سے اپنی ملکیتی زمین کے کاغذات گھر لے کر آیا تو وہ لمحہ اس کے لئے سب سے زیادہ قابل فخر تھا ، جب وہ اپنے باپ کے کزنز کے ہاس گیا اور ان سے اپنے باپ کےہا تھی دانت کی واپسی کا تقاضا کیا ،انہوں نے وہ واپس بھی کردیا ۔
وامزا کو معلوم ہو گیا تھا کہ اس کے بیٹے کی زہنی استطاعت اس کے لئے اجنبی ہے ۔اس نے ماں کو بتایا کہ وہ لاگوس استاد بننے کی تربیت حاصل کرنے کے لئے جا رہا تھا تب وہ چلائی کہ تم مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتے ۔جب میں مروں گی تو مجھے کون دفناۓگا ؟ ۔لیکن وہ جانتی تھی کہ وہ ضرور جاۓگا ۔کافی سال وہ اس سے نہ مل سکی ۔اس دوران اس کے باپ کا کزن اوکافو مر گیا ۔وہ اکثر روحانی بزرگ سے پوچھتی ،کیا اس کا بیٹا زندہ تھا تو وہ روحانی پیشوا اسے ڈانٹ کر بھیج دیتا ،کیونکہ وہ یقینا” زندہ تھا ۔ آخر کار آنیکوینو اس سال واپس آ گیا ،جس سال قبیلے نے کتوں پر پابندی لگائی تھی ۔جب ایک کتے نے انیکوینو کے ہم عمر گروپ کے ایک رکن کو مار دیا تھا ۔
جب اس نے آنے کے بعد اعلان کیا کہ وہ مکالماتی مدرس مقرر کر دیا گیا تھا تو وہ خاموش رہی ۔اس وقت وہ اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر استرا تیز کر رہی تھی ،چھوٹی بچی کے بآل مونڈھ کر نمونہ بنانے کے لیے ۔جب اس نے وامزا کو بتایا کہ وہ قبیلے کے لوگوں کو اپنا ہمنوا بناۓگا تو بھی وہ اپنا استرا چلاتی رہی ،فلک، فلک ،فلک ۔۔۔۔ اس دوران اس نے بیٹے کے آگے جو پھلوں کے بیجوں کی پلیٹ اس کے کھانے کے لئے رکھی تھی ،اس نےاسے چھوا بھی نہیں تھا ۔وہ اب اس کی کسی کھانے کی چیز کو ہاتھ نہیں لگاتا تھا . وہ اسے دیکھتی ،یہ مرد پاجامہ پہنے ہوے ،گردن میں تسبیح ڈالے ہوے ،وہ حیران ہوتی کیا اس نے اس کی قسمت میں دخل اندازی کی ؟ یا پھر یہی اس کا مقدر تھا ۔
جس دن انیکوینو نے وامزا کو اس لڑکی کے بارے میں بتایا تھا جس کے ساتھ وہ شادی کرنے لگا تھا تو بلکل حیران نہیں ہوئی تھی ۔ وہ یہ سب اس طرح نہیں کر رہا تھا جیسے کیا جاتا تھا ۔اس نے لوگوں سے دلہن کے خاندان کے بارے میں معلومات اکٹھی نہیں کیں تھیں ۔صرف اتنا بتایا کہ تبلیغی جماعت کے کسی شخص نے ایفٹ اوکپو کی ایک مناسب لڑکی کے بارے میں بتایا ہے اور اسے اونیجا میں سسٹر ز ہولی روزری میں بھیجا جاۓگا تاکہ وہاں اس کو اچھی عیسائی بیوی بننے کی تربیت دی جاۓگی ۔اس دن وامزا ملیریا میں مبتلا اپنے مٹی کے بستر پر لیٹی تھی ۔ اپنے درد کرتے جوڑوں کی مالش کر رہی تھی ۔اس نے بیٹے سے اس لڑکی کا نام پوچھا ۔اس نے اگنس نام بتایا ۔وامزا نے اس کا اصل نام پوچھا ۔تو انیکوینو نے گلا کھنکھار کر صاف کیا اور کہا عیسائی بننے سے قبل اسے مبازک کہتے تھے ۔
وامزا نے پوچھا ،کیا مبازک کم از کم”اعتراف” کی تقریب میں شرکت کرے گی اگرچہ انیکوینو شادی کی دوسری قبائلی رسومات میں تو شامل نہیں ہوگا ۔ جس پر انیکوینو نے غصے سے سر ہلاتے ہوۓاسے بتایا کہ اعتراف کی تقریب جس میں دلہن رشتہ دار عورتوں میں گھری قسم اٹھاتی ہے کہ جب سے اس کے خاوند نے اس رشتے کے لئے دلچسپی کا اظہار کیا ہے تب سے اسے کسی غیر مرد نے نہیں چھوا ،سراسر گناہ ہے ۔اس لئے کہ عیسائی بیویوں کو کبھی کسی نے نہیں چھوا ہوتا تھا ۔
چرچ میں شادی کی تقریب ہنسنے کی حد تک مضحکہ خیز تھی ۔لیکن وامزا سب کچھ برداشت کرتے ہوے اپنے آپ کو سمجھاتی رہی تھی کہ وہ بہت جلد مر کر اپنے اوبیریکا کے پاس چلی جاۓگی ۔ اس دنیا جس کی کوئی کل سیدھی نہیں اس سے آزاد ہو جاۓگی ۔اس نے بہو کو ناپسند کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا تھا لیکن مبازک سے کوئی مشکل سے ہی ناراض رہ سکتا تھا ۔وہ چھوٹی کمر والی شریف لڑکی تھی ۔جس سے بیاہ کر آئی تھی اسے خوش رکھنا چاہتی تھی ۔بلکہ ہر ایک کو خوش رکھنا چاہتی تھی ۔بہت جلد رونے لگتی ۔ان باتوں پر جن پر اس کا کوئی اختیار نہیں تھا معافی مانگتی رہتی ۔اس لئے وامزا کو اس پر ترس آتا تھا ۔وہ اکثر وامزا کے پاس روتی ہوئی آتی اور بتاتی کہ انیکوینو نے کھانا کھانے سے انکار کر دیا ہے ۔کیونکہ وہ اس سے ناراض تھا ۔اور کبھی اس بات پر کہ وہ اسے اس کی دوست کی برطانوی کلیسا کی شادی میں شرکت کی اجازت نہیں دے رہا تھا ۔اس لئے کہ اس کے نزدیک برطانوی کلیسا حق کی تبلیغ نہیں کرتا تھا۔ اس وقت وامزا خاموش بیٹھی اپنے برتنوں پر نقش و نگار بناتے ہوے سوچتی ،تھی وہ اسے کیسے ان باتوں پر رونے سے روکے جو آنسو بہانے کے قابل ہی نہیں تھیں ۔
مبازک کو مسز کہا جاتا تھا یہاں تک کہ وہ غیر عیسائی بھی جو باعزت مکالماتی مدرس کی بیوی کی عزت کرتے تھے ۔لیکن جس دن وہ اوئی ندی پر گئی اور کپڑے اتارنے سے انکار کر دیا ،اس لئے کہ وہ عیسائی تھی ،تو قبیلے کی عورتوں کو غصہ آ گیا کہ اس نے اوئی دیوی کی بے عزتی کی تھی ۔اسے مار پیٹ کر درختوں کے جھنڈ میں پھینک دیا گیا ۔ یہ خبر بہت جلد ہر طرف پھیل گئی کہ مسز کو ازیت دی گئی ۔انیکوینو نے تمام بڑوں کو دھمکی دی کہ اگر اس کی بیوی کے ساتھ دوبارہ کسی نے بھی ایسا کچھ بھی کیا تو وہ انہیں گرفتار کر لے گا ۔لیکن فادر او ڈونل اپنے اگلے او نیجا کے دورے پر بڑوں کے ہاس آیا مبازک کی طرف سے سب سے معافی مانگی اور پوچھا کیا عیسائی خواتین کو مکمل لباس میں اوئی ندی سے پانی لانے کی اجازت ہو گی ؟ ۔ بڑوں نے انکار کرتے ہوۓ جواب دیا ،اگر کسی کو اوئی کا پانی چاہیے تو اسے اوئی کے اصولوں پر عمل پیرا ہونا پڑے گا ۔تاہم انہوں نے فادر کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے ان کی بات سنی اور ان کے قبیلے کے بیٹے انیکوینو کی طرح کا رویہ نہیں اپنایا ۔
وامزا اپنے بیٹے کی حرکت پر شرمندہ تھی ۔اس کی بیوی سے بھی الجھن محسوس کر رہی تھی ۔ان کی زندگی سے بھی ناخوش تھی کہ وہ غیر عیسائیوں سے ایسے برتاؤ کرتے جیسے انہیں چیچک نکلی ہو ۔تاہم اس نے اپنی امیدیں پوتوں سے لگا لی تھیں ۔اس نے دعائیں مانگنی اور قربانی کرنی شروع کر دی تاکہ مبازک کا بیٹا ہو جاۓ۔اسے مبازک کے پہلے اور دوسرے حمل گرنے کا علم نہیں تھا لیکن جب تیسری بار اس نے وامزا کو بتایا تو اس نے اسے روحانی پیشوا کے پاس جانے کا مشورہ دیا ۔لیکن بہو کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں ،اس نے وامزا کو بتایا کہ مائیکل یہ بات سن کر بہت غصہ کرے گا ۔اس لئے وہ خود ہی اکیلی پیشوا کے پاس چلی گئی ۔اسے یہ بات بہت مضحکہ خیز لگی کہ دیوتا بھی اب بدل گئے تھے ۔ ،اب کھجور کی شراب کی جگہ “جن” کا مطالبہ کرنے لگے تھے ۔کیا انہوں نے بھی مذہب بدل لیا تھا ۔ ؟ ۔
کچھ مہینوں بعد مبازک ہنستی مسکراتی ملی جلی اشیاء کا پیالہ بھر کر اس کے لئے لائی جسے کھانا وامزا کے لئے ہمیشہ ہی ناممکن ہوتا تھا ۔وہ سمجھ گئی کی اس کی قسمت ابھی تک اس پر مہربان ہے اور بہو حمل سے تھی ۔ انیکوینو نے اعلان کر دیا تھا کہ اس کے بچے کی پیدائش مشن میں ہوگی ۔ لیکن دیوتاؤں کے اپنے منصوبے ہوتے ہیں ۔مبازک کو وقت سے قبل ہی درد شروع ہو گۓ۔بارش والا دن تھا ۔کوئی برستی بارش میں اسے بلانے آیا ۔ لڑکا پیدا ہوا ۔فادر نے اسے پیٹر نام دیتے ہوۓبپتسمہ دیا ۔لیکن وامزا نے اسے نامدے پکارا ۔اسے یقین تھا کہ اوبیریکا واپس آ گیا تھا وہ اسے لوریاں سناتی جب وہ روتا تو اپنے خشک نپل اس کے منہ میں ڈالتی ۔ لیکن کوششوں کے باوجود وہ اوبیریکا کی روح کو محسوس نہ کر پائی ۔ اس کے بعد مبازک کے تین مزید حمل ضائع ہوے۔ وامزا پھر پیشوا کے پاس گئی ۔ایک حمل ٹھہر گیا اور دوسرا بچہ پیدا ہوا ۔اس دفعہ بچہ مشن میں ہی پیدا ہوا ۔ایک لڑکی ۔۔۔۔ جس وقت وامزا نے اسے اٹھایا تو بچی کی چمکدار آنکھیں خوشی سے اس پر ٹھہر گئیں ۔تب وہ جان گئی کہ یہ اوبیریکا کی روح تھی ۔ ۔جو واپس آ گئی تھی ۔,کتنی انوکھی بات کہ لڑکی کے روپ میں۔لیکن اباؤ اجداد کے طور طریقوں پر کوئی کیسے راۓزنی کر سکتا تھا ۔۔
فادر اوڈینل نے اسے گریس کا نام دیتے ہوے بپتسمہ دیا ۔ لیکن وامزا نے اسے افامیفونا بمعنی “ میرا نام کبھی گم نہیں ہو گا “ ، سے پکارا ۔بچی کی دلچسپی اپنی کہانیوں اور شاعری میں محسوس کر کے اور نو عمری میں بچی کی دلچسپی اپنی برتن سازی میں جو اب وہ لرزتے ہاتھوں سے بناتی دیکھ کر اس کے اندر سنسنی دوڑ جاتی ۔لیکن وہ اس خیال سے خوش نہیں تھی کہ پیٹر کی طرح افامیفونا بھی سیکنڈری سکول کے لئے اس سے دور چلی جاۓگی ۔اسے ڈر تھا بچی کی یا تو دادی والی جدوجہد والی روح ختم ہو جاۓگی اور اس کی جگہ انیکوینو والی لاتعلق سختی پیدا ہو جاۓگی یا پھر مبازک والی محتاجی اور بے بسی پیدا ہو جاۓگی ۔
جس سا ل افامیفونا سیکنڈری ہائی سکول کے لئے اونیجا روانہ ہوئی وامزا کو ایسے لگا جیسے کسی نے انتہائی تاریک رات میں لیمپ بجھا دیا ہو ۔ وہ بہت عجیب سال تھا ۔اس میں عین دوپہر میں اچانک زمین کو تاریکی نے گھیر لیا تھا ۔اسی سال وامزا کو جوڑوں میں شدید درد اٹھا ،وہ سمجھ گئی ،اس کے جانے کا وقت آگیا تھا ۔وہ اپنے بستر پر لیٹی بمشکل سانس لے رہی تھی ،انیکوینو اسے قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ بپتسمہ کیے جانے کی اجازت دے دے تا کہ وہ اس کا عیسائی عقیدے کے مطابق جنازہ کر سکے ۔اس نے مشرکانہ ماتمی تقریب میں شریک نہیں ہونا تھا ۔وامزا نے اسے بتایا کہ اگر وہ کسی کو لے کر آیا اور اس نے اسے گندے تیل سے مالش کرنے کی جرات کی تو وہ اپنی بچی کھچی ہمت جمع کر کے اسے چانٹا رسید کردے گی ۔اس کی آخری خواہش آباؤ اجداد سے ملنے سے پہلے افامیفونا کو دیکھنا تھا ۔ ۔لیکن انیکوینو نے اسے بتایا کہ گریس اپنے سکول کے امتحانات کی وجہ سے نہیں آ سکتی ۔ لیکن وہ آ گئی ۔ وامزا نے اپنے دروازے کے کھلنے کی چرچراہٹ سن لی تھی ۔اس کی پوتی اپنے طور پر اونیجا سے آ گئی تھی ۔کیونکہ وہ کافی دنوں سے سو نہیں پا رہی تھی ۔اس کی بے چین روح اسے گھر جانے کا کہہ رہی تھی ۔گریس نے آپنا سکول بیگ نیچے رکھا جس میں ایک نصاب کی کتاب تھی ۔جس میں ایک باب تھا جس کا عنوان تھا ،” جنوبی نائیجیریہ کے قدیم قبائل کا سکون / امن ،وورسٹر شائر کے ایک منتظم( administrator ) کے زریعے جو ان کے درمیان سات سال رہا۔
گریس نے ان وحشی ،جنگلی انسانوں کے بارے میں پڑھنا شروع کر دیا ۔وہ ان کے عجیب و غریب اور بے معنی رسومات کے لئے کشش محسوس کرتی ۔لیکن ان کو اپنے ساتھ جوڑنے میں ناکام رہتی ۔ یہاں تک کہ اس کی ٹیچر سسٹر مورین نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ اپنی دادی کی سکھلائی گئی شاعری میں سوال و جواب (Call-and-Response) کا حوالہ نہیں دے سکتی، کیونکہ ان قدیم قبائل میں شاعری کا وجود ہی نہیں تھا ۔ اس پر گریس آتنے زور سے ہنسی کہ سسٹر مورین نے اسے نہ صرف خود سزا سنائی بلکہ اس کے باپ کو بھی بلا لیا ،جس نے سب کے سامنے گریس کو تھپڑ مارا ،ٹیچر کو یہ دکھانے کے لئے کہ وہ اپنی اولاد کو نظم و ضبط سکھانے میں کتنا سنجیدہ تھا ۔ اس تھپڑ کے گہرے گھاؤ کو گریس عرصہ دراز تک اپنے سینے میں پالتی رہی اور باپ سے بیزار رہی ۔ تعطیلات کے دوران وہ گھر واپس جا کر والدین اور بھائی کے منافقانہ ،تندخو عقائد کا سامنے کر نے سے بچنے کے لئے اونیجا میں ہی گھریلو ملازمہ کی نوکری ڈھونڈ لیتی تھی ۔
تعلیم ختم ہونے پر ایگویک کے ایلیمنٹری سکول میں پڑھانا شروع کر دیا ۔ جہاں کے لوگ سالوں پہلے اپنے گاؤں کے سفید لوگوں کی بندوقوں سے تباہی کی داستانیں سناتے ۔اسے سمجھ نہ آتی کہ وہ ان داستانوں پر یقین کیسے کرے کیوں کہ وہ ان کے ساتھ ہی دریاۓنائیجر سے جلپریوں کے نمودار ہونے ،جنہوں نے نقدی کی بنی چھڑیاں لی ہوتیں کے قصے بھی سناتے تھے
گریس ان چند لڑکیوں میں سے تھی جو 1950 میں آبادان کے یونیورسٹی کالج میں پڑھ رہی تھی ۔جب اس نے اپنی کسی دوست کے گھر چائے پیتے ہوۓجناب بازوئیگا کی کہانی سنی ،جو ایک چاکلیٹی رنگت کا نائیجیرین ،لندن سے تعلیم یافتہ ،برطانوی بادشاہت کی تاریخ کا ماہر نے اس وقت نہایت حقارت سےاستیعفی دے دیا ،جب مغربی افریقن امتحان کونسل نے افریقہ کی تاریخ نصاب میں شامل کرنے پر بات چیت شروع کی ۔اس شخص کو یہ خیال ہی رسوائی کا باعث لگا کہ افریقی تاریخ اس قابل ہے؟ کہ اس کو ایک مضمون سمجھا جاۓ۔یہ سب سننے کے بعد گریس نے اپنی پڑھائی کیمسٹری کی بجاۓتاریخ سے بدل لی ۔وہ بہت عرصہ اس شخص کی کہانی پر غور کرتی رہی اور اداس ہوتی رہی ۔ اس سے اسے تعلیم اور عزت وقار کے تعلق کو سمجھنے میں مدد ملی تھی
اس نے اپنی سکول کی تعلیم پر نئے سرے سے غور کیا ۔ کیسے وہ پوری قوت سے چلا کر گاتی تھی ،” خدا بادشاہ پر مہربان رہے ۔اسے فتح مند کرے اسے شان و شوکت بخشے ۔ہم پر سدا حاکم رہے ۔”
کیسے وہ اپنی نصابی کتابوں میں لکھے وال پیپر اور ڈینڈیلین / گل قاصدی جیسے الفاظ سے پریشان ہوتی کیونکہ وہ ان الفاظ کو مجسم تصور نہیں دے سکتی تھی ۔کیسے حساب کے مسائل پر مبنی سوالات حل کرنے میں دشواری محسوس کرتی ۔اسے سمجھ نہ آتی کہ کافی کیا ہے ? چکوری / سدا بہاربوٹی کیا ہے ؟ اور انہیں مکس/ ملانے کی ضرورت کیوں ہے
اب گریس نے اپنے باپ کی تعلیم کا بھی بھی از سرے نو جائزہ لینا شروع کر دیا ۔ تو فورا” گھر کے لئے بھاگی ۔عمر کے ساتھ اس کے باپ کی آنکھیں مستقل نم آ لود رہنے لگی تھیں ۔جب وہ دعا مانگ رہا تھا تو گریس نے آمین کہا ۔اس کی پیشانی پر بوسہ دیا ۔گریس کو واپسی کے سفر کے دوران ایگویک سے گزرتے ہوے آسیب زدہ ہونے کا احساس ہوا ۔وہ لندن گئی ،پیرس گئی ۔اونیجا گئی ۔محفوظ شدہ فائلوں کو کھنگالا ۔اپنی دادی کی زندگی اور اس کی خوشبو کا تصور کیا جس کے بارے میں کتاب لکھنے کا ارادہ باندھا ۔
جس کا عنوان : “ گولیوں کے ساتھ سکون ؛ جنوبی نائجیریا کی نئی دریافت شدہ تاریخ “ ۔ رکھے گی ۔
گریس اپنے منگیتر سے اس کتاب کے اولین نسخے پر گفتگو کے دوران ہی یہ جان گئی کہ یہ شادی قائم رہنے والی نہیں ۔جو کنگ کالج لاگوس کا واضح دار گریجوایٹ / فارغ التحصیل ،مستقبل کا انجینئر ،رقص گاہوں کے رقص کا ماہر ،تھری پیس سوٹ پہننے والا ، جو ہر وقت کہتا کہ گرائمر سکول لاطینی زبان کے بغیر ایسے ہی ہے جیسے شکر کے بغیر چاۓ۔ جب اس نے یہ کہا تھا ، کہ وہ “ امریکہ – روس تنازعے میں افریکی اتحادی ،” جیسے اہم موضوع کو چھوڑ کر قدیم قبائلی ثقافت پر لکھنے کا ارادہ کر کے گمراہ ہو رہی تھی 1972 میں ان کی طلاق ہو جاۓگی ۔اس لئے نہیں کہ اس کے چار حمل ضائع ہوے ۔بلکہ اس لئے کہ وہ ایک رات پسینے میں شرابور جاگی اور اسے احساس ہوا کہ وہ اس کا گلا گھونٹ کر اسے مار دے گی اگر اسے ایک دفعہ بھی اور اس کے کیمبرج کے دنوں کے بارے میں اس کی سر مست خود کلامی سننی پڑی ۔
حالاں کہ وہ تو گریس تھی جس نے شعبہ جاتی انعام حاصل کیا ۔وہ بھی گریس ہی تھی جس نے جنوبی افریقہ کے اجا (Ijaw),ایبیبیو (Ibibio) , اگبو (Igbo)اور ایفک(Efik) لوگوں کی کانفرنسوں میں سنجیدہ لوگوں کو خطاب کیا اسی نے عالمی تنظیموں کے لئے رپورٹیں مرتب کیں ، بے شک اس کے لئے اسے تنخواہ دی گئی تھی ۔وہ اپنی دادی کو ہنستے ہوے ،محظوظ ہوتے ہوے خوش تصور کرتی تھی ۔
یہ گریس ہی تھی جو اپنی زندگی کے بعد کے سالوں میں اپنے دوستوں ،انعامات ،بے مثل گلابوں کے باغات میں گھرے ہونے کے باوجود عجیب سی خانہ بدوشوں اور بغیر جڑوں والے پودے جیسی بے کلی محسوس کرتی تھی ۔ لاگوس سے وہ اونیجا پہنچ گئی اور سرکاری طور پر اپنا نام گریس سے بدل کر افامیفونا رکھ لیا ۔
لیکن جس دن وہ شام کی مدھم ہوتی روشنی میں اپنی دادی کے بستر پر بیٹھی تھی تو اپنے مستقبل کے بارے میں نہیں سوچ رہی تھی ۔اس نے بس اپنی دادی کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا ،جس کی ہتھیلیاں سالوں کی برتن سازی سے موٹی ہو گئی تھیں ۔
English title: The head strong historian
Written by:
Chimamanda Ngozi Adichie (born 15 September 1977)[3][4] is a Nigerian writer whose works include novels, short stories and nonfiction.
For English Text