لاہور کی ٹریفک کا نظام درحقیقت نظام نہیں، بے نظامی ہے۔ گاڑیاں، موٹرسائیکل، رکشہ، ہرکوئی سڑکوں پر نظام کو توڑتے ہوئے رواں دواں ہے۔ جو لوگ اس نظام کے تحت اس ٹریفک میں گاڑی چلاتے ہیں، وہ اس ’’بے نظامی‘‘ کی نفرت، حقارت اور غصے کا نشانہ بن رہے ہوتے ہیں جو اس نظام کو توڑنے کے لیے ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتے۔ جلدی تیزرفتاری میں وہ واقعی ایک لمحہ بھی صبر کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ لاہور کی ٹریفک میں بے نظامی کے ذمہ دار عوام اور حکومت دونوں ہیں۔ دونوں برابر اس ناکامی کو ہر روز وسعت دے رہے ہوتے ہیں۔ لاہور کی ٹریفک کا یہ نظام درحقیقت پاکستان کے ہرشہر اور قصبے میں برپا ٹریفک کی بے نظامی کی نمائندگی کرتا ہے، یعنی پاکستان کا ہر شہر اور قصبہ اسی بے انتظامی کا شکار ہے۔ یہ سمجھ لینا کہ یہ مسئلہ صرف لاہور ہی کا ہے، بالکل غلط ہے۔ جیسے میں اُن لوگوں کی عقل پر حیران ہوتا ہوں جو یہ سمجھے اور یقین کیے بیٹھے ہیں کہ صرف لاہور کے قصاب ہی لوگوں کو گدھے کھلاتے ہیں۔ یہ تو ایک جرأت مند سرکاری افسر عائشہ ممتاز تھیں جنہوں نے لاہور کے قصابوں کو بے نقاب کیا، وگرنہ دوسرے شہروں میں گدھا کشی لاہور سے کہیں زیادہ ہو رہی ہے۔ لاہور کو نام نہاد جدت دینے کے لیے سابق وزیراعلیٰ شہبازشریف نے متعدد اقدامات بھی کیے جس میں مختلف سڑکوں اور فلائی اوورز کی تعمیرات بھی شامل ہیں کیوںکہ انہوں نے اپنے وژن کے مطابق یہ سمجھ رکھا تھا کہ انسانی ترقی یعنی Human Development کے بغیر ہی وہ لاہور کو جدید کرسکتے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے وہ اقدامات کیے جو یہاں پر بسنے والے انسانوں کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے تھے۔انسانی پسماندگی اور معمولی جدیدیت کا تصادم تھا۔ انہوں نے استنبول کو اپنا ماڈل بنایا، اگر وہ راقم سے پوچھتے تو میں اُن کو مصری قوم اور پاکستانی قوم کی لاتعداد مماثلتوں اور قاہرہ کی ٹریفک کے مسائل کے حوالے سے، قاہرہ کو ماڈل بنانے کا کہتا۔ استنبول ایک ایسی قوم کا عظیم شہر ہے جس نے تقریباً نوّے سال قبل جہالت کا لبادہ اتار پھینکا اور جدیدیت اور انسانی ترقی کو راستے کے طور پر اپنایا۔
لاہور کی ٹریفک کسی بڑی شاہراہ سے لے کر عام گلی تک اس قوم اور ریاست کی ناکامی کے ثبوت کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہاں میں آغاز سابق وزیراعلیٰ کی جانب سے بنائی گئی لاہور کی دیگر سڑکوں کی بجائے جیل روڈ جیسی کشادہ سڑک کو مزید جدید بنانے کے حوالے سے کروں گا جو سارے شہر کی سب سے کشادہ سڑک ہے جہاں ملک کے سب سے معروف کالج کنیئرڈ کالج سے لے کر دیگر کالجز اور ہسپتال موجود ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اسے سگنل فری کردیا۔ چوںکہ قوم موجودہ نظام کو قبول کرنے کے لیے راضی نہیں، اس لیے وہ اس جدیدیت کو کیسے قبول کرے۔ سگنل فری جیل روڈ اب لاہور کی سب سے بڑی قانون شکن شاہراہ ہے جہاں میں ہرروز عوام کو انتظامیہ کو برابر قانون کی دھجیاں اڑاتے دیکھتا ہوں۔ ہر Exitاور Entry آنے اور جانے کے علاوہ بھی استعمال ہوتی ہے۔ ذرا غور کریں اس قوم کا حال کہ اس شاہراہ پر جہاں لاہور کا سب سے معروف امراضِ دل کا ہسپتال ، سروسز ہسپتال اور دیگر ہسپتال ہیں، وہاں ایک اینٹری صرف دل کی حملوں کے شکار مریضوں کی ایمبولینس گزرنے کے لیے ہے، ایسے مریض زندگی سے موت کی دنیا میں داخل ہوتے ہیں۔ اس Exit کو موٹرسائیکل سوار، گاڑیوں والے، پولیس والے (موٹرسائیکل پر) یوں استعمال کرتے ہیں جیسے کسی گائوں کی پگڈنڈی کو۔ یہ قانون شکنی اور قومی پستی کا سب سے بڑا نظارہ ہے۔یہ موڑ (Exit) جہاں سے موت وحیات کی کشمکش کے شکار مریضوں کے لیے ایمبولینس نے گزرنا ہے، وہاں پر ٹریفک کے سڑکوں پر گشت کرنے والے سکواڈ بھی موجود ہوتے ہیں۔ مگر میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ ان قانون شکنوں کو کسی نے روکا ہو۔ گزشتہ روز جب وہاں سے گزرا تو اب وہاں مالٹے کا جوس بیچنے والے سے ریڑھی بھی لگالی ہے۔ اس سے بدبخت قومی منظر شاید ہی دنیا کے کسی موڑ پر میں نے دیکھا ہو۔ مجھے یقین ہے کہ دل سمیت دیگر موت وحیات کی کشمکش کا شکار شہری، اس قانون شکن موڑ پر ’’قومی کردار‘‘ کے سبب جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہوں گے۔ جب قانون کی بالادستی قائم کرنی ہوتو ریاست، حکومت اور انتظامیہ کو کچھ مقامات کو ٹارگٹ کرکے اپنی حکمرانی یا ریاست کی رِٹ دکھلانی پڑتی ہے۔ لاہور کے سٹی ٹریفک پولیس آفیسر ایس ایس پی جناب رائے اعجاز احمد کی ذمہ داری ہے کہ وہ موت وحیات کی اس انٹری پر اپنے قانون کا عمل درآمد کرکے دکھلائیںکہ قانون شکنوں کو سارے نظر آجائیں۔ پھر آپ دیکھیں کہ لوگ کیسے سڑکوں پر قانون کا احترام کرتے ہیں۔ ایک مقام کو نقطہ آغاز بنائیں اور پھر پھیلاتے جائیں۔
لاہور میں زخمی ہونے والے زیادہ تر وہ پیدل لوگ ہیں جو موٹرسائیکل سواروں کی بربریت کا شکار ہوتے ہیں۔ میں یقین سے کہہ رہا ہوں، لاہور کے موٹرسائیکل سواروں میں چند فیصد ہی لوگ ہوں گے ، شاید پانچ یا دس فیصد جن کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہوگا اور کچھ اسی طرح رکشہ، چنگ چی اور گاڑیوں والے بھی۔ کافروں کو گالیاں نکالنے والی اس قوم کو معلوم ہونا چاہیے کہ کافر دنیا (مغرب) میں وہ آپ کو غیرقانونی داخلے کے بعد مہاجر حقوق، شہری حقوق یعنی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بھی دے دیتے ہیں، روزگار بھی ، مگر سڑک پر کسی قسم کی وہیکل چلانے کے لیے جس امتحان سے گزرنا پڑتا ہے، اس سے ان کافر قوموں کے قومی کردار کے اعلیٰ معیار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ نئی حکومت نے آنے کے بعد سڑکوں پر ٹریفک قانون پر عمل درآمد کے لیے جو سختی کی ہے، راقم اس کا سخت حامی ہے اور جو لوگ اسے غریب پر ظلم اور کالے قانون قرار دے رہے ہیں، وہ نہ تو انقلابی ہیں اور نہ ہی کسی طبقاتی جدوجہد اور غریب پروری کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ جو شخص موٹرسائیکل پر سوار ہو، اس کے پاس ڈرائیونگ کالج سے ٹریننگ کے بعد لائسنس حاصل کرنا، موٹرسائیکل خریدنے سے زیادہ اہم ہے۔ قانون شکنی کو غریب وامیر کی جنگ بنانے والے، انسانوں کو جانوروں سے بھی بدتر رکھنا چاہتے ہیں۔ جہاں یہ ذمہ داری ریاست اور حکومت کی ہے کہ وہ ٹریفک کے نظام کو جابرانہ انداز میں عمل درآمد کرے، وہاں 100سے 240کلومیٹر فی گھنٹہ اپنی وہیکل کو چلانے والوں پر بھی قانون کی پابندی لازم ہے۔ مگر اس وقت ہم جہاں پہنچ چکے ہیں، اب یہ ذمہ داری ریاست وحکومت کی ہے کہ وہ سڑکوں پر سخت گیری سے قانون کی حکمرانی قائم کرے۔ ٹریفک پولیس کی نفری بڑھانے سے لے کر ان کی سہولیات تک جو بھی ممکن ہو، کیا جائے۔ اگر اعداد وشمار اکٹھے کیے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں سڑکوں پر ہلاک ہونے اور زخمی ہونے والے ہزاروں انسانوں کی تعداد دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔ بغیر لائسنس موٹرسائیکل اور گاڑیاں چلانے والے قانون شکن عملاً کسی بھی طرح ان دہشت گردوں سے کم نہیں۔ ان قانون شکنوں کا غصہ دیکھنے والا ہوتا ہے، جب وہ قانون شکنی کرکے قانون کی پاسداری کرنے والوں کو گھور کر دیکھتے ہیں، ان سے لڑنے پر اتر آتے ہیں جو قانون وضوابط کے مطابق گاڑی چلا رہا ہوتا ہے۔ سٹی ٹریفک آفیسر لاہور جناب رائے اعجاز احمد کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ لاہور میں کتنے موٹرسائیکل سواروں کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہیں۔ اور وہ باپ جو اپنی بیوی اور چار پانچ بچوں کو بٹھا کر سڑک پر نکل آتے ہیں، اس کے پاس غریب ہونے کا کوئی جواز نہیں۔ اس سے سختی سے قانون کے مطابق نمٹیں۔ سی ٹی او لاہور آپ جیل روڈ اور مال روڈ کو Ruthlessطریقے سے قانون کی پاسدار شاہراہیں بنائیں۔ پھر آپ دیکھیں کہ یہ قاتل اور قانون شکن جو ہزاروں لوگوں کو ہلاک اور زخمی کونے کا سبب بن رہے ہیں، کیسے ٹھیک ہوتے ہیں۔ پنجاب کارڈیالوجی کے سامنے Exit کو اپنی انتظامی طاقت کا نقطۂ آغاز بنائیں۔ جیل روڈ اور مال روڈ کو اسی کے ساتھ شامل کریں۔ اس آپریشن کے لیے نوجوانوں کو رضاکار بھرتی کریں، پھر دیکھیں کہ کیسے قانون قائم ہوتا ہے۔ اگر آپ اس کا آغاز کریں گے، سب سے پہلا رضاکار میں ہوں گا اور میں اپنے ساتھ سینکڑوں والنٹیرلائوں گا۔ ریاست کی رِٹ قائم کرنے کے جو دعوے جی ایچ کیو میں کیے گئے ہیں، کاش ان کا آغاز سی ٹی او لاہور سڑکوں کے نظام سے کریں۔اگرا س کالم پر عمل ہوا تو مجھ سے رابطہ کریں، میں آپ کا رضاکار بنوں گا، قانون کی بالادستی اور عوام کی زندگیاں محفوظ کرنے کے لیے۔ اگر آپ نہیں کریں گے تو میں وزیراعظم عمران خان صاحب سے براہِ راست رابطہ کرنے پر مجبور ہوں گا۔