سپریم کورٹ کا چیف آف اسٹاف کی مدت ملازمت پر تفصیلی فیصلہ بہت اہم اور تاریخ ساز ہے اور اس فیصلے سے ملکی کی سیاست پر آئندہ بہت دور رس اثرات پڑیں گے۔ اس فیصلہ سے کیا اثر ہوگا؟ اس اہم فیصلے سے ملکی سیاست پر کیا اثرات پڑیں گے؟ اس کا اندازہ چند دنوں میں ہوجائے گا۔ اس میں فیصلے میں سپریم کورٹ نے روایت کی قانونی اہمیت کو رد کر کے پالیمنٹ کو قانون بنانے کو کہا ہے۔ حالانکہ روایت بھی قانون کا اہم ماخذ ہے اور عدالتیں اس پر بھی فیصلے کرتیں ہیں۔ لہذا اس پر بحث کی ضرورت ہے۔
اس میں شک نہیں ہے سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اسٹیلبشمنٹ کو لگام دینے کی سپریم کورٹ کی اہم کوشش ہے۔ مگر اس اس فیصلے سے بہت سے نئے مسلے بھی سامنے آئیں گے۔ اہم بات یہ ہے اس فیصلے میں یہ وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ یہ قانون پالیمنٹ ایکٹ کے ذریعے لایا جائے گا یا آئین میں ترمیم ذریعے لایا جائے گی۔ مجھے لگتا ہے اس میں بھی جان بوجھ کر ابہام رکھا گیا ہے اور سادہ اکثریت سے کوئی قانون بنایا گیا تو اس پر بہت سے سوال کھڑے ہوں گے اور خاص کر آرمی ایکٹ میں ترمیم کے لیے کرنے لیے آئین کے آرٹیکل 243 میں بھی ترمیم کرنے پڑے گی۔ اس فیصلے پر اگر حکومت نظر ثانی کی درخواست نہیں کرتی ہے تو دو صورتیں پیدا ہوسکتی ہیں۔
(۱) پالیمنٹ اس پر قانون سازی کرتی ہے۔
(۲) پالیمنٹ اس پر کوئی قانون نہیں بناتی ہے۔
پہلی صورت یعنی اگر پالیمنٹ قانون بناتی ہے تو اس سے پالیمنٹ کی سپر میسی قائم ہوگی اور آرمی ایکٹ کو بھی پبلک کرنا پڑے گا اور ان کے رول جو اب تک پبلک سامنے نہیں آئے ہیں ان کو بھی سامنے لانا پڑے گا اور اس ترمیم کرنے لیے قانونی طور پر پالیمنٹ کے محتاج ہوجائیں گے۔ مگر ایسی صورت میں ان اداروں پر جن کے بارے میں پالیمنٹ نے کوئی قانون نہیں بنایا ہے اور ان پر بھی پالیمنٹ کو قانون سازی کرنی پڑے گی اور دوسری صورت میں ان اداروں قانونی حثیت کو کوئی بھی اعلیٰ عدالت جاکر چیلنج کرسکتا ہے۔ اس طرح وہ عدلیہ کے وہ تمام فیصلے بھی اس کی زرد میں آجائیں گے جو روایت کی بنیاد پر دیئے گئے ہیں۔ اس طرح نئے مسائل اور بحران کھڑے ہوجائیں گے۔ یعنی مسائل ایک ایسا انبار کھڑا ہوجائے گا جس سے نپٹنا آسان نہیں ہوگا۔
دوسری صورت اگر پالیمنٹ کوئی قانون نہیں بناتی ہے تو ایسی صورت میں چیف آف اسٹاف کو چھ ماہ کے بعد خوبخود مستفیٰ ہوجائیں گے اور صدر کو وزیر اعظم کے مشورے پر نئے چیف آف اسٹاف کی تقریری کرنی پڑے ہے۔ مگر نئے چیف آف اسٹاف کی تنخواہ، مدت اور اس کی قانونی حثیت پر بھی سوال کحڑے ہوجائیں گے کہ ان کی تقریری قانونی ہے کہ نہیں۔ سپر یم کورٹ نے پالیمنٹ کو باونڈ نہیں کیا ہے کہ پالیمنٹ لازمی قانون سازی کرے۔ لہذا اگر سیاست دان چاہتے ہیں کہ اسٹیلبشمنٹ کو لگام دینا چاہتے ہیں تو وہ جلد سے جلد بلکہ چند دنوں میں قانون سازی کرے اور آرمی ایکٹ کو بھی قانون کے دائرے میں لائے اور ایسی صورت میں آنے والے دنوں میں حکومت کے سامنے اور بھی مسائل آئیں گے اور حکومت کو بحران کا سامنا کرنے پڑے گا۔
میرا خیال ہے اس فیصلے پر نظر ثانی کے لیے حکومت سپریم کورٹ میں درخواست دے گی اور اس در خواست پر فیصلہ آئندہ نئے چیف جسٹس کی سربراہی میں نیا بیچ اور حکومت کی توقع کے مطابق کرے گا اور اس کا اشارہ فہد چودھری کرچکے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...