چیف نے قدم رنجہ تو فرمایا
ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا کہ پاکستان کی فوج کا سربراہ، عوامی نمائندوں کے ایوان میں ان سے ہم کلام ہوا ہو۔ مگر اس بار ایسا ہوا ہے۔ یہ اور بات کہ انہوں نے عوام کی رائے دہی سے منتخب نمائندوں کے ایوان، قومی اسمبلی کی بجائے سینیٹ کے نمائندوں کو بریفنگ دیا جانا مقدم جانا۔ سینیٹ میں موجود نمائندے ہی کسی اور کو سینیٹ کا نمائندہ منتخب کرتے ہیں ۔ خیر یہ کوئی قابل اعتراض نقطہ نہیں ہے کیونکہ نمائندے پارٹیاں ہی نامزد کرتی ہیں اور ان سیاسی پارٹیوں کا تکیہ عوام پر ہی ہوتا ہے۔ البتہ یہ بات قابل غور ہے کہ فوج کے سربراہ نے اپنے خطاب کے لیے سینیٹ کو ہی کیوں چنا؟
بتایا یہی گیا ہے کہ سینیٹ نے فوج کے سربراہ کو مدعو کیا تھا۔ یاد رہے اس سے پہلے سینیٹ کے چیئر میں جناب رضا ربانی، فوج اور سیاست دانوں کے درمیان مکالمہ کیے جانے کی تجویز دے چکے تھے۔ چلیے اس بات کو مان لیتے ہیں کہ وہ دعوت ملنے پر ہی رضامند ہوئے ہونگے۔ اگر آرمی چیف، سینیٹ کے چیئرمین یا کمیٹی برائے دفاع کی طلبی پر سینٹ میں تقریر کرنے پہنچ گئے تو قومی اسمبلی کے قائد ایوان، قائد حزب اختلاف اور اسپیکر کے لیے کیا امر مانع تھا یا ہے کہ انہوں نے کبھی یہ اقدام نہیں لیا۔ چلیے اس سوال کو بھی چھوڑتے ہیں۔ اب نظیر قائم ہو چکی ہے تو انہیں طلب کر لیا جائے تاکہ سیاستدانوں اور فوج کے درمیان مخاصمہ آرائی کی افواہیں جتنی باقی بچ رہی ہیں ان کا قلع قمع ہو سکے۔
مجھ سمیت بہت سے ایسے لوگ ہیں جنہیں فوج کی اشرافیہ سے تاحال خیر کی امید نہیں بندھ سکی ہے تبھی تو جناب رضا ربانی نے جنرل قمر باجوہ کو "دستور گلی" دکھائی جہاں واضح کیا گیا کہ کب کب کس نے دستور کو کیسے پامال کیا۔ فوج کی اشرافیہ کے اعمال پر تنقید کو کچھ لوگ فوری طور پر فوج پر تنقید خیال کرنے لگ جاتے ہیں۔ فوج پر تنقید کا مطلب تو یہ ہو کہ فوج نہیں ہونی چاہیے، فوج میں تخفیف کی جانی چاہیے، فوج کا بجٹ کم کیا جانا چاہیے، فوج کے اصول بدلے جانے چاہییں مگر یہ طے کرنا کہ کیا ہونا چاہیے عوامی نمائندوں کا کام ہونا چاہیے۔ میں اور مجھ جیسے اسی بات پر اعتراض کرتے ہیں کہ فوج سے متعلق معاملات طے کیے جانے میں عوام کے منتخب کردہ نمائندوں یا دوسرے لفظوں میں عوام کا ہاتھ کیوں نہیں ہے۔ فوج کی اشرافیہ ہی کیوں سب کچھ طے کرتی ہے۔
ہم بہت سادہ لوگ ہیں فوج کی ہئیت مقتدرہ میں شامل افراد کے ذاتی رویوں سے ان کے ادارہ جاتی تشخص سے متعلق اندازے لگانے شروع کر دیتے ہیں۔ برسبیل تذکرہ آج تلک ایسا کوئی فوجی سربراہ نہیں تھا جس کی تقرری کے بعد سے لے کر اس کے جانے تک اس کے بارے میں تعریفی کلمات نہ کہے جاتے رہے ہوں۔ البتہ بعد میں مٹی پلید کیا جانا بھی ہمارا ہی شیوہ ہے۔ ہم یہ جانتے ہوئے بھی بھول جاتے ہیں کہ فوج بہت منظم ادارہ ہے اور اس کی ہئیت مقتدرہ میں شامل کسی بھی شخص کا کوئی ادارہ جاتی عمل انفرادی نہیں ہو سکتا۔ وہ اپنے طور پر جتنا ہی نرم خو، کتاب دوست، مدبر، مخلص وغیرہ وغیرہ کیوں نہ ہو یا کم از کم دکھائی کیوں نہ دے، وہ وہی فیصلہ کرے گا جہاں اسے اپنے کورکمانڈرز اور مختلف شعبوں کے سربراہوں کی زیادہ سے زیادہ تائید حاصل ہوگی۔
جناب رضا ربانی لاکھ تجویز دیتے رہتے، سینیٹ انہیں بار بار مدعو کرتی رہتی لیکن آرمی چیف مشترکہ مشاورت کے اس ضمن میں مثبت ہوئے بغیر کبھی سینیٹ میں خطاب کرنے کی خاطر قدم رنجہ نہ فرماتے۔ اب انہوں نے قدم رنجہ تو فرمایا ہے جسے فوج کی اشرافیہ کے رویوں میں اسی تبدیلی کا تسلسل سمجھا جانا چاہیے جو گذشتہ آرمی چیف جنرل کیانی کے دور میں شروع کی گئی تھی۔ فوج کی اشرافیہ کے رویوں میں تبدیلی یقین جانیے سیاستدانوں سے الفت یا عوام سے انسیت کی آئینہ دار نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی حالات کے ساتھ ہے۔ سی پیک معاہدہ کیے جانے، جس میں چینیوں اور چین کے مفادات کی نگہبانی کی ضمانت پاکستان کی فوج نے دی ہے اور اس کے بعد امریکہ کے سخت رویے بلکہ دو روز پہلے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے امریکہ کی قومی سلامتی سے متعلق تبدیل شدہ حکمت عملی کے افشاء ہونے کے بعد فوج کی پشت پر بوجھ بڑھ چکا ہے۔ فوج کسی بھی ممکنہ ناکامی یا کجی کی کوئی ذمہ داری اپنے کندھوں پر نہیں ڈالنا چاہتی۔ فوج کی تعظیم کی بقا اسی میں ہے کہ یہ ذمہ داری سیاستدان لیں۔ شایدیہی وجہ رہی ہو کہ جنرل قمر باجوہ نے اپنے خطاب میں یہاں تک کہا کہ خارجہ اور دفاعی پالیسیاں سیاسی ادارے وضع کریں، فوج ان کے مطابق عمل کرے گی۔ یہ بات کہنا ایک طرح سے اعتراف ہے کہ اب تک یہ دونوں اہم پالیسیاں حکومتیں یعنی سیاستدان وضع نہیں کرتے رہے۔
فوج کی اشرافیہ کا سیاست دانوں کی جانب رجوع اس حقیقت کا بھی عکاس ہے کہ پاکستان ان دنوں محض نعروں کی حد تک نہیں بلکہ فی الواقعی نازک دور سے گذر رہا ہے۔ امریکہ کی نئی قومی دفاعی حکمت عملی میں نہ صرف ضرورت پڑنے پر پاکستان میں براہ راست کارروائیاں کرنے کی دھمکی دی گئی ہے بلکہ انتباہ بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان میں خلفشار بپا ہو سکتا ہے اور اس کے جوہری اثاثے دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی پاکستان کے دوست ملک چین کو بھی ہدف تنقید بنایا گیا اور جس ملک کے ساتھ پاکستان تعلقات بہتر بنائے جانے کی بات کرنے لگا ہے یعنی روس، اس کو بھی رگیدا گیا ہے۔ یہ ملک امریکہ کے ساتھ اپنے معاملات خود نمٹیں گے تاہم اس سے پاکستان پر بھی دباؤ پڑتا ہے۔
سب جانتے ہیں کہ نہ تو معاملات دنوں میں بگڑا کرتے ہیں اور نہ ہی حالات میں بہتری یکدم آیا کرتی ہے۔ یہاں تو معاملہ ہی دو آتشہ ہو چکا ہے کہ گذشتہ دو اڑھائی برسوں میں جہاں امریکہ کے ساتھ تعلقات بگڑ چکے ہیں وہاں ملک کے اندرونی خلفشار میں کوئی کمی نہیں آ رہی۔ عدلیہ کی فعالیت بڑھتی جا رہی ہے۔ سیاسی پارٹیوں میں مناقشہ آرائی زوروں پر ہے۔ مذہبی سیاسی دھڑے اپنی قوت کا مسلسل اظہار کر رہے ہیں۔ ایسے میں فوج کی اشرافیہ کے لیے مناسب ترین یہی ہے کہ وہ سیاست دانوں کے ساتھ نہ صرف ہمدستی کرے بلکہ ان کے ہاتھ مضبوط کرے تاکہ مجھ ایسے بہت سوں کا بھی ان پر اعتماد بحال ہو۔ جہاں فوج ملک کی محافظ ہوتی ہے وہاں سیاستدان، حکومت اور عوام فوج کے بلکہ فوجی اشرافیہ کے تعظیم و رتبے کے بھی نگہبان ہوا کرتے ہیں چنانچہ جن حالات میں سہی ، جس بنا پر سہی، آرمی چیف نے قدم رنجہ تو فرمایا ہے۔ ہم عوام سیاستدانوں کے ساتھ مل کر اس کا خیر مقدم کرتے ہیں اور فوج کی اشرافیہ کے اس قدم کو سراہتے ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔