آج کل سوشل میڈیا پر سیشن کورٹ لاہور کی ایک پرتشدد ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں چند وکلاء پہلے عدالت اور پھر اُس کے باہر پنجاب پولیس کے ایک سب انسپکٹر کی پٹائی کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔ میں نے آج اِس موضوع کا انتخاب اِس لئے کیا ہے کہ تصویر کے دونوں رُخوں کا جائزہ لیے بغیر ہر کوئی اِس وقت’’ وکلاء برداری‘‘ کو برا بلاکہنے میں مصروف ہے ۔میں ذاتی طور پر اِس علاقہ سے واقف ہوں جہاںیہ ــ’’وقوعہ‘‘ رونما ہواہے کیونکہ میرے بچپن کا ایک طویل دور اِسی علاقہ میں گزرا ہے ۔یہاں کے زمینی حقائق کچھ یوں ہیں کہ اِس علاقہ میں ’’وقف ‘‘ کی زمینیں کا فی زیادہ ہیں جہاں عموماًطاقتور مافیاکا قبضہ ہے اور مشکل سے اب شاید ہی کوئی زمین تعمیرات کیلئے حصول ہولیکن متنازعہ زمین ملکیتی اراضی ہے۔
میں خود ہر قسم کی پر تشدد کاروائیوںکے خلاف ہوں چاہے وہ کسی کے بھی خلاف ہو مگر اِس سارے معاملے میں ــکچھ’’ مشکوک ‘‘کردار موجود ہیں۔پرتشدد ویڈیو وائرل ہونے کے علاوہ اِس معاملے کے’’ انکوئری افسر‘‘ جن کو وکلاء کے ہاتھوں مارپڑی ہے کے پیغامات بھی سوشل میڈیا پر چلائے جارہے ہیں جس میںصرف اور صرف پوری’’ وکلاء برداری ‘‘کی کردار کُشی کی جارہی ہے جبکہ تصویر کے دوسرے رُخ کا جائزہ لینے کیلئے کوئی تیار نہیں ۔ دراصل درخواست گزار کی درخواست پر مقرر’’گولڈ میڈلسٹ انکوئری افسر‘‘کے والد بھی ایک سینئروکیل ہیں جن کو موصوف نے اِ س درخواست پر کاروائی کیلئے درخواست گزار کا وکیل بنوایا ہواہے جس کی وجہ سے اِس معاملے میں شامل وکلاء کو اِس ’’انکوئری افسر ‘‘پر عدم اعتماد ہے اور یہی وجہ عناد ہے ۔
بے شک اِس معاملے میں شامل وکلاء’’ قبضہ مافیا ‘‘ہونگے! مگر درخواست گزار کی درخواست پر مقرر ’’انکوئری افسر ‘‘اور اِن کے والد یعنی درخواست گزار کے وکیل دونوں کا ہی کردار مشکوک ہے جیسے کوئی میچ’’ فکسڈ‘‘ ہو۔میں وکلاء برداری میں ایسے کئی دوستوں کو جانتا ہوں جن کے خاندان میں پولیس افسران موجود ہیں یاپھر دوستی کا معیار کچھ ایسا ہے کہ آپس میں بہترین گھریلو مراسم ہیں لیکن پہلے ایسی کوئی مثال نہیںدیکھی جس میں کسی معاملے کو طے کرنے والے دونوں اہم افراد کا تعلق ایک ہی گھرانہ سے ہو۔اِس بات سے اِس معاملے میں شامل ’’انکوئری افسر‘‘ کی دلچسپی عیاں ہوچکی ہوجاتی ہے ۔موصوف دلچسپی کے باوجود اِس معاملے کو کسی اور وکیل صاحب کے سپرد بھی کرواسکتے تھے مگر انہوں نے یہ معاملہ اپنے والد کو دیکر خود اپنے آپ کو ’’مشکوک‘‘ بنایا ہے۔
سوشل میڈ یا پر چلنے والے ’’انکوئری افسر ‘‘کے پیغامات میں’’ چیف جسٹس آف پاکستان ‘‘سے اِس معاملے کا ’’ازخود نوٹس ‘‘لینے کا مطالبہ کیا گیا تھا جس پر معززچیف صاحب نے 7اکتوبر کو اِس معاملے پر ’’ازخود نوٹس ‘‘ لیکر سیکرٹری لاہور بار ایسوسی ایشن کو 13اکتوبر کوطلب کرلیا ہے ۔اِس کے بعد اگلے ہی روز لاہور بار ایسوسی ایشن نے اپنا ہنگامی اجلاس طلب کیا جس میں آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دیا گیا ہے صرف یہ طے کیا گیا ہے کہ 13اکتوبرکوبھی لاہور بار ایسوسی ایشن کااجلاس ہوگا مگر یہ اجلاس کہا ںہوگا اِس حوالے سے تمام تر الیکٹرانک میڈیا کی رپورٹس اور اخبارات میں شائع ہونے والی خبریں جھوٹی ہیں ۔13اکتوبر کے اجلاس میں ہی فیصلہ ہوگا کہ ’’ازخود نوٹس ‘‘ کی کاروائی میں پیش ہواجائے یا نہیں!
ویسے میری رائے میں فریقین کیلئے بہتر ہوگا کہ معاملے کو افہام وتفہیم سے طے کیا جائے جبکہ اِس ’’ازخود نوٹس ‘‘ کی کاروائی میں اِس بات کی وضاحت کیے جانا بہت ضروری ہوگیا ہے کہ آیا ــــ’’انسدادِ دہشتگردی ایکٹ ‘‘ کی دفعات کا اطلاق دہشتگردوں کیلئے ہے یا پھر وکلاء کیلئے؟آئے روز کچھ ایسے معاملات بھی ہماری نظر سے گزر تے ہیں جن میں پولیس کی طرف سے وکلاء پر بھی تشدد کیا جاتا ہے مگر تب ’’انسدادِ دہشتگردی ایکٹ ‘‘ کی دفعات کیوں نہیں لگائی جاتیں؟موجودہ حالات میں ضرورت صرف اِس بات کی ہے کہ تمام تر اداروں اور محکموں سے ’’کالی بھیڑوں‘‘ کا صفایا کیا جاناناگزیر ہوچکا ہے کیونکہ قانون سے کوئی بالاتر نہیں ہے۔
گذشتہ چند سال قبل لاہور ہائیکورٹ نے ماتحت عدالتوں میںکیمرے نصب کروائے تھے جس کے بعد ماضی میں اِسی طرح کی کئی ویڈیوزمعزز سیشن جج صاحب کی رضا مندی سے وائرل ہوئیںمگر اب یہ بہت ضروری ہوگیا ہے کہ جج صاحبان کے چیمبر زمیں اور پولیس اسٹیشنوں میں بھی کیمرے لگوائے جائیں تاکہ ملک سے مکمل طور پر کرپشن کا خاتمہ ہوسکے۔ویسے بھی موجودہ وزیراعظم پاکستان نے ملک کو ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کی طرز پر اسلامی و فلاحی ریاست بنانے کا اعلان اپنے پہلے ’’قوم سے خطاب‘‘ میں کیا ہواہے۔