خطۂ چناب کو اگر طالع آزما سیاست دانوں کا استحصالی اڈہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ خطۂ چناب ایک ایسا علاقہ ہے جو ہمیشہ سے جموی سیاست دانوںکی غلامی کا شکار رہا ہے ۔ سچ پوچھئے تو یہ خطہ تمام سیاسی جماعتوںکی موروثی سیاسی چراگاہ بنا چلا آرہا ہے۔ یہاں کے آبی وسائل سے بجلی کی پیداور ہوتی ہے جس کے فیضان سے پورا ملک روشن ہوتا ہے لیکن خود اہالیانِ چناب کو ریاست کی نام نہاد سیاسی جماعتوںنے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ’’اندھیراقائم ر ہے ‘‘ میں لپیٹے رکھا ہوا ہے۔ یہ اب ہمارے لئے ناقابل ِ برداشت چیز ہے۔سیاسی جماعتوںکا خطے کے تئیںجو مفاد پرستانہ استحصالی رویہ رہا ہے، اُس پر ذاتی مفاد کے غلام مقامی سیاست دانوں کی خاموشی مجرمانہ ا وربے رحمانہ ہے ۔ یہ چالو قسم کے سیاست دان اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اپنے سیاسی آقاؤںکی ہاں میں ہاں ملاکر بار بار خطے کے عوام کے ساتھ دھوکے کئے جا رہے ہیں۔جہاںتک انڈین نیشنل کانگریس کا تعلق ہے تو یہ ایک کھلا راز ہے کہ اس جماعت کا چناب کے تئیں ہمیشہ سے مفاد پرستانہ رویہ رہا ہے ۔اس کی جیتی جاگتی مثال چوہدری لال سنگھ ہے جو دو مرتبہ ڈوڈہ ادھم پور پارلیمانی نشست سے کامیاب ہوا ،اور اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ اس کامیابی کا سہرا خطہ چناب کے سر جاتا ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ کانگریس کے قومی لیڈر غلام نبی آزاد کا لال سنگھ کے تئیں ہمیشہ نرم گوشہ رہا ہے ۔یہ سچ کہنے میںکوئی ہچکچاہٹ ہونی چاہیے کہ گانگریس نے خطہ چناب کو کئی برسوںتک چوہدری لال سنگھ کی شکل میںجموں کے سیاسی ٹھیکیداروں کے حوالے کر دیا۔ مفت میں ملے اقتدار کے بل پرلال سنگھ نے خطے کے سادہ لوح عوام کے حقوق پر بلا خوف وخطر ڈاکے ڈالے، کیوں کہ اس سے کوئی پوچھنے والا نہیںتھا۔ پوچھتا بھی کون ؟سرکار اپنی اور لیڈر مٹھی میں ۔ خطے کے عوام نے جنہیںاپنا نمائندہ چنا تھا، وہ بھی لال سنگھ کے اسیر تھے ۔محسوس یہ ہو تا تھاکہ چوہدری لال سنگھ کانگریس کا واحد ’’لعل ‘‘ہے جو کانگریس بھگت اور پارٹی کا وفادار اور فرمان بردارہے، لیکن جب لال سنگھ کی فرمان برداری کی آزمائش کا وقت آیا تو اس نے بھاجپا میں شرن لی ۔ یوںکانگریس کو اپنے اس چہیتے کی للکار سے زِچ ہونا پڑا اور وہی ہوا جو ہونا طے تھا کہ غلام نبی آزاد کو شکست کا سامنا کرنا پڑ ا۔ ڈوڈہ ادھم پور کی پارلیمانی نشست پر چونکہ کانگریس کی طرف سے غلام نبی آزاد کی شکل میںایک بہترین اُمیدوار ملا تھا ، بالخصوص خطہ چناب کے عوام کو اُن کی پسند اورمرضی کا نمائندہ نصیب ہوا تھا لیکن غلام نبی آزاد کی امیدواری کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی ۔ 2014ء کے انتخابات میںڈوڈہ ادھم پور نشست پر آزاد کو جہاں عوامی غم و غصہ کا سامنا رہا، وہیں آستین کے سانپ کے مدمقابل اُن کا حال یہ تھا ؎
جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں
جب بولنے لگے تو ہم ہی پر برس پڑے
افسوس کہ آج کانگریس نے ایک بار پھر سے ماضی کی غلطی کو دہرایا، ا س نے ڈوڈہ ،ادھم پور پارلیمانی نشست کو جس طرح جموں کے سیاسی ٹھیکیداروں کے ہاں فروخت کیا،وہ پارٹی کی طرف سے آستین کے سانپوں کو دودھ پلانے کے مترادف ہے ۔ عوامی حلقوںکے مطابق یہ ایک غلط فیصلہ ہے۔ کانگریس کا یہ فیصلہ اپنی پارٹی کے مفاد میں بہتر ہو سکتا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی سیاسی جماعت نے محض اقتدار میںآنے کے لئے عوامی خواہشات کو نظر انداز کیا تو لازماً اُسے عوام نے دُھتکارا۔ ڈوڈہ ادھم پور نشست پر ا س بار مہاراجہ ہر سنگھ کے پوتے اور ڈاکٹر کرن سنگھ کے شہزادے وکرم آدتیہ کانگریس کا ایک نیا سیاسی تحفہ/تجربہ ہیں ۔ممکن ہے کہ کانگریس کا عطا کر دہ تحفہ کامیاب تجربہ ثابت ہو لیکن لوگوںمیں یہ سوال گشت کر رہا ہے کہ کیا کانگریس کی لیڈر شپ نے ایک ایسے شخص کو عوام پر کیوں ٹھونس دیا جس کا اپنا کوئی سیاسی کیرئر ہے ہی نہیں؟ کیا جموی سیاست دان کے بجائے خطہ ٔچناب سے کسی لیڈر کو سامنے لا کر کانگریس عوامی خواہشات کا احترام ٹھیک نہ تھا؟ یا پھر خطہ چناب کی لیڈر شپ ہی اپنا علاقائی قبضہ نہیں چھوڑنا چاہتی ہے؟ عوامی حلقے کانگریس کی اعلیٰ قیادت سے یہ سوال کر نے میں حق بجانب ہیں کہ جب خطہ چناب سے غلام محمد سروڑی ، عبدالمجید وانی ، چوہدری اعجاز احمد خان اور وقار رسول وانی جیسے نامور سیاست دان متبادل موجود تھے تو پھر وکرم آدتیہ ہی پارٹی کی توجہ کا مرکز کیوںبنا؟کیااس میںجماعت کا فائدہ ہے یا پھر خطہ چناب کی لیڈر شپ کو پارٹی ہائی کمان کے یہاں وہ مقام ہی حاصل نہیںکہ پارلیمانی الیکشن میں حصہ لینے کے اہل قرار پائیں ؟ کہیںایسا تو نہیںکہ خطہ چناب کی لیڈر شپ ایم ایل اے نشست کے ساتھ چمٹے رہنے کیلئے جموںوالوںکی جی حضوری ا ور غلامی کو ترجیح دینے کے روادار ہیں ؟ ماضی میں بھی چناب خطے کے لیڈر تعمیرو ترقی کے شعبے میں علاقے کے استحصال پر خاموشی اختیار کرتے رہے ، نتیجہ یہ نکلا کہ ہر ایر غیرا نتھو خیرا چناب پر اپنی بادشاہت چمکانے میںکامیاب ہوا ۔
نیشنل کانفرنس کی خطے کے تعلق سے سیاسی روش کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ا س جماعت کا رویہ خطۂ چناب کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے صوبہ جموںکے تئیں ہمیشہ مفاد پرستانہ رہا ہے۔ صوبہ جموںکے عوام کو نیشنل کانفرنس کی طرف سے نظر اندازکئے جانے کا ایک تلخ ثبوت یہ ہے کہ یہ جماعت جو ریاست میںفتح کے جھنڈے گاڑ کر تن تنہا سرکار بنانے کے خواب دیکھتی ہے، اس نے پورے صوبہ کو کانگریس کے دربار میں ہاتھ کھڑے کر دئے ہیں ۔ کشمیر میںنیشنل کانفرنس کو 2014ء میںعوامی غیظ وغضب نے دھول چٹائی، اُس صورت حال سے بچنے کیلئے ایک پورے صوبے کاکسی دوسری جماعت کے ساتھ سودا بازی کرنا آنے والے دنوں میںنیشنل کانفرنس کیلئے ناکامی کاباعث ثابت ہوگا۔ نیشنل کانفرنس ہمیشہ سے ہی صوبہ جموں کو نظر انداز کرتی چلی آئی ہے لیکن اس بار لوگوں میں اُمید جگی تھی کہ این سی صوبہ جموںمیںپارلیمانی نشستوںپر عوامی مرضی سے ہم آہنگ فیصلہ لے گی لیکن ’’وہی رفتار بے ڈھنگی ،جو پہلے تھی سو اب بھی ہے ‘‘ کے مصداق پارٹی نے بنا سوچے سمجھے صوبہ جموںکے عوام کا بھیڑ بکریوںکی طرح سودا کیا محض اس لئے کہ نیشنل کشمیر میںاپنی کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ بحال کرنا چاہتی ہے، بھلے ہی اس کے لئے پارٹی کو صوبہ جموںکے عوام کو بلی ہی کیوںنہ چڑھانا پڑے۔ یوں بھی نیشنل کانفرنس کا سیاسی کردار اور مزاج ہی ایسا ہے کہ اقتدار کی خاطر اس نے ریاست کے مستقبل کو ڑیوںکے دام بیج ڈالنے میں کوئی پس و پیش نہ کیا ،اور پھر کانگریس کے ساتھ شیخ خاندان کا سیاسی لین دین کوئی نئی بات نہیں ۔ یہ سلسلہ شیخ عبداللہ اور نہرو کے زمانے سے آج تک برا برچلا آ رہا ہے۔تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھئے تو ورق ورق پر شیخ خاندان کے یہ قصے پڑھنے کو ملیںگے۔
پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کا تو سیاسی باوا آدم ہی نرالا ہے۔ پی ڈی پی اعلیٰ قیادت کے مطابق پارٹی نے جموں صوبہ کی پارلیمانی نشستوںسے اس لئے اپنے اُمیدوار میدان میں نہیںاُتارے کہ ریاست میں سیکولر طاقتوںکو مضبوط کیا جائے۔ پی ڈی پی کی یہ کج ادا ئی اس کی نظر میں پارٹی کی’’ اعلیٰ ظرفی‘‘ کا ثبوت ہے ۔ واہ رے واہ! سیاست، تیری کون سے کل سیدھی؟ صاف لفظوںمیں کہا جائے تو یہ پی ڈی پی کی اعلیٰ ظرفی نہیںبلکہ عوامی جذبات کو سمجھنے میں سیاسی کم مائیگی ہے ۔یہ ڈرامہ بازی نہیںتو اور کیا ہے کہ جس وقت آپ کی’’ اعلیٰ ظرفی‘‘ آپ کی ناکامی سمجھی جائے، اُس وقت آپ اپنی خانہ ساز اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کر یں اور جب آپ سے لوگ اعلیٰ ظرفی اور سیاسی دوراندیشی کی اُمیدلگائے بیٹھے تھے تب آپ نے سیاسی دور اندیشی کا رتی بھر ثبوت نہ دیا۔یہاں محترمہ محبوبہ مفتی صاحبہ کو یہ یاد دلانا چاہوں گا کہ کیا اُس وقت یہ طاقتیں سیکولر نہیں تھیں جب انہوںنے پی ڈی پی کو’’ اعلیٰ ظرفی‘‘ کی فہمائش کی کہ آپ بھاجپا کے مایا جال میں پھنس نہ جائیں بلکہ ریاست کو تنزل سے بچانے کے لئے پی ڈی پی کو مفت میں حمایت دینے کی منت سماجت کی تھی اور اعلاناً کہاتھا کہ آپ بھاجپا سے کسی حال میں ہاتھ نہ ملائو، چاہو تو ہماری حمایت لے کر اقتدار کی چٹنی مفت میںکھائو، ہمیں وزارتیں نہیں چاہیے ،بس آپ اس دلدل میںجانے سے باز رہو۔ کیا محبوبہ جی بتاسکتی ہیں تب آپ کی ’’اعلیٰ ظرفی‘‘ کہاں سوئی ہوئی تھی ؟ ان کے سیکولرازم پر ا س وقت کیوں بیر ظاہر کیا تھا؟ اب محض پانچ برس میںان جماعتوں کا سیکو لر سر ٹیفکیٹ آپ نے کیسے تسلیم کیا؟آپ یہ بھی تو بتا ئیں کہ کیا خطہ چناب کے بے یارو مددگار عوام آپ کی نظر میںسوائے ووٹ بنک کے کچھ بھی نہیں؟
خطہ چناب کے تئیں مستندسیاسی جماعتوں کی بے رُخی اور غیر سنجیدگی تو پہلے دن سے مایوس کن ہے ہی لیکن ایسے میںجہاںتمام سیاسی جماعتوںکے لیڈران نے اعلیٰ قیادت کے سُر میں سُر ملاتے ہوئے اپنی نااہلی ، ناعاقبت اندیشی اور مفاد پرستی کا ثبوت دیا ،وہیں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے سینئر لیڈر اور سابق ایم ایل سی فردوس احمد ٹاک نے پارٹی صدر محبوبہ مفتی کے جموں خطہ کی دو پارلیمانی نشستوں پر اُمیدوار کھڑا نہ کرنے کے فیصلے سے اتفاق نہ کرتے ہوئے اس فیصلے پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔ٹاک کا یہ کہنا تھا کہ بی جے پی اور کانگریس کی طرف سے جو اُمیدوار میدان میں اُتارے گئے ہیں ،اُن میں سے کوئی سیکولر ہے نہ اُن میں سے کسی کا تعلق خطہ چناب سے ہے۔ ہم پارٹی کے سپاہی ہیں،پارٹی کے احکامات کا احترام کرتے ہیںاور عام لوگوں اور پارٹی ورکروں کی باتیں پارٹی قیادت تک پہنچانے کا جمہوری حق رکھتے ہیں۔ ہم نے پارٹی کو نظرثانی کی عرضی بھیجی ہے۔ اُمید کرتے ہیں کہ اس پر بحث ومباحثہ کے بعد فیصلے پر نظرثانی ہوگی۔ان کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ ہم ریاست میں سیکولر طاقتوں کو مضبوط کریں گے لیکن پارٹی نے یہ نہیں بتایا کہ یہ سیکولر طاقتیں کون سی ہیں؟ بہر کیف بھارتیہ جنتا پارٹی تو کمیونل ہے ہی لیکن کانگریس بھی تو جموں و کشمیر کے بارے میں کوئی حق بات زبان پر نہیں لارہی ہے۔ یہاں کے مصیبت زدہ عوام کے بارے میں یہ پارٹی بھولے سے بھی کوئی بات نہیں کررہی ہے، توکیا خطہ ٔ چناب صرف ووٹ ڈالنے کے لئے ہے۔ خیال رہے کہ خطہ چناب میں رائے دہندگان کی تعداد بارہ لاکھ ہے۔ خطہ چناب میں کانگریس پارٹی کے قدآور رہنما ہیں۔ کسی کو منڈیٹ دے دیتے، ہم ان کو سپورٹ کرتے لیکن آپ جموں کے ایک سابق مہاراجہ کو منڈیٹ دے رہے ہیں۔ میں اس مہاراجہ کی تاریخ سے بخوبی واقف ہوں۔ انہیں آج سیکولر مان کر کیسے ووٹ دوں؟ہو نہ ہو فردوس ٹاک کے اس حق گوئی میںاُن کا کوئی سیاسی فائدہ بھی پوشیدہ ہو لیکن ان کا بروقت خطہ ٔ چناب کے جذبات کی ترجمانی کر ناقابل ِ ستائش ہے۔ بہر صورت کیا واقعی خطہ چناب کے عوام صرف ووٹ ڈالنے کی مشین ہیں جس کا ریموٹ سیاست دانوں کے پاس ہے اور وہ جب چاہیں ریموٹ کی مددسے خطے کے لوگوں کو جہاں گھمائیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ویسے کوئی ہے بھی نہیںان سیاسی جگادھریوں سے پوچھنے والا،لیکن عوام کو اپنا ضمیر بھی جگانا ہوگا اور آنکھیں بھی کھلی رکھنا ہوں گی۔ وقت آ گیا ہے کہ زندہ ضمیری کا ثبوت دے کر چنانب ویلی والے اپنے ساتھ ہورہے استحصال و ظلم کے خلاف آواز بلند کر یں تاکہ ہر قبیل وقماش کے مفاد پرست سیاست دانوںکو یہ پیغام مل جائے ؎
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں
تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا