جرمن سائنسدان فریڈرک ووہلر نے 1828 میں ایک تجربہ کر کے میٹافزکس کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ امونیم سائینیٹ کو ابال کر انہوں نے یوریا بنا دی۔ امونیم سائینیٹ ایک سادہ غیرنامیاتی نمک ہے۔ جبکہ یوریا وہ چیز ہے جو گردے پیدا کرتے ہیں۔ اس سادہ سے تجربے کا بڑا گہرا مطلب تھا۔ یوریا ایک “قدرتی” کیمیکل تھا جس کو ایک غیرنامیاتی کیمیکل سے بنا دیا گیا تھا۔ صدیوں تک یہ سمجھا جاتا رہا تھا کہ زندہ چیزوں کی کیمسٹری بالکل مختلف ہے اور یہ کسی لیبارٹری کی فلاسک میں نہیں بن سکتی۔ ووہلر کے تجربے نے اس سوچ کو الٹا کر رکھ دیا تھا۔ نامیاتی اور غیرنامیاتی کیمیکل کی اساس ایک ہی ہے۔ بائیولوجی بالآخر کیمسٹری ہی ہے؟ انسان بھاگتے دوڑتے کیمیکلز کا مجموعہ ہے؟ جی۔ اور یہ اچھی خبر تھی۔
اب اس منطق کو آگے بڑھاتے ہوئے ۔۔۔ میڈیسن میں کیمسٹری کا داخلہ ناگزیر ہو گیا۔ لیکن اس میں کسی بھی بریک تھرو میں پچاس برس لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوبیس سالہ پال ارلک 1878 میں میڈیکل سٹوڈنٹ تھے جو اپنے تھیسز پر کام کر رہے تھے۔ جانوروں کے ٹشو کا مطالعہ کرنے کے لئے انہیں رنگسازی کے کیمیکل استعمال کرنے کا خیال آیا تا کہ رنگ لگا کر ان کو مائیکروسکوپ سے آسانی سے دیکھا جا سکے۔ لیکن جب انہوں نے کیمیکل ڈائی خلئے پر ڈالی تو حیران رہ گئے۔ خلیے کے کچھ حصے پر اس نے اثر کیا تھا۔ کچھ پر بالکل نہیں۔ ہر خلیے پر یہی پیٹرن تھا۔ یعنی یہ ڈائی خلیے کے اندر مختلف اجزاء میں تمیز کر لیتی تھی۔ کسی کے ساتھ مل گئی، کسی کو چھوڑ دیا۔
یہ تجربہ ارلک کے دماغ پر سوار ہو گیا۔ ایرلچ نے کچھ سال کے بعد گھوڑوں کے خون میں زہریلا مادہ انجیکٹ کر کے اینٹی باڈی بنا لئے تھے۔ جس طرح وہ بایئولوجیکل دنیا کی کھوج میں تھے، وہ واپس اپنے اوریجنل خیال پر واپس پہنچ جاتے تھے۔ بائیولوجی کی دنیا مالیکیولز سے بھری پڑی تھی جو اپنے پارٹنر کی تلاش میں ہوتے تھے۔ ان کے تالے کھولنے والی خاص کنجیاں۔ زہر جو اپنے اینٹی ٹوکسن سے ملتے تھے۔ ڈائی جو خلیے کے خاص حصے سے ہی چپکتی تھیں۔ کیمیکل داغ جو جراثیم میں تمیز کر سکتے تھے۔ ارلک کا اگلا آئیڈیا تھا کہ ایسے کیمیکل ڈھونڈے جائیں جو جراثیم سے ری ایکٹ کر جائیں لیکن جانوروں کے خلیے کو چھوڑ دیں۔ جراثیم مر جائیں، ان کے میزبان کو گزند نہ آئے۔
یہ آئیڈیا انہوں نے ایک کانفرنس سے واپس پر ٹرین کے سفر کے دوران اپنے ساتھیوں کے آگے بیان کیا۔ جب آدھی رات کو ٹرین اپنی منزل تک پہنچی، وہ اس بارے میں اپنے تصور میں واضح تھے۔ اور اس بارے میں بھی کہ انہوں نے آگے کیا کرنا ہے۔ یہ میڈیکل کی تاریخ میں ٹرین کا اہم ترین سفر ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارلک نے اپنی تلاش جرمنی کی پھلتی پھولتی کیمیائی رنگسازی کی دنیا سے شروع کی۔ ان کی لیبارٹری فرینکفرٹ میں رنگ بنانے والی کیمیکل کی فیکٹریوں کے قریب تھی۔ ہزاروں کیمیکل دستیاب تھے۔ چوہوں اور خرگوشوں کو مرض النوم کے جراثیم سے انفیکٹ کیا۔ ان پر تجربے کرنا شروع کئے، سینکڑوں تجربوں کے بعد ان کو ایک سرخ رنگ کی ڈائی جو ٹرائیپان ریڈ تھی، مل گئی جو اس بیماری پر اثر کرتی تھی۔
ارلک نے اس دریافت کے بعد حوصلہ پا کر تجربات کی تعداد بڑھا دی۔ ان مالیکیولز کی کائنات کے اپنے ہی اصول تھے۔ کچھ کمپاونڈ خون میں جا کر ایکٹو ہو جاتے تھے، کچھ ایکٹو کمپاونڈ خون میں جا کر اِن ایکٹو ہو جاتے تھے۔ کچھ پیشاب کے ذریعے نکل جاتے تھے، کچھ صفرے میں جمع ہو جاتے تھے۔ کچھ خون میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے تھے۔ ایک مالیکیول ایک جانور میں کئی دن رہتا تھا۔ اس سے بالکل قریب کا کزن جس میں صرف چند ایٹموں کا فرق ہوتا تھا، جسم سے منٹوں بعد ہی خارج ہو جاتا تھا۔
انٹرنل میڈیسن کی کانگریس کے آگے 19 اپریل 1910 کو ایرلچ نے ایک بڑی دریافت کا اعلان کیا۔ ایک نئی ڈرگ، کمپاونڈ 606 جو ایک بدنامِ زمانہ جراثیم ٹریپونیما پلاڈیم کے خلاف ایکٹو تھی۔ یہ آتشک کا جراثیم تھا۔ اُس دور کی ایک انتہائی اہم بیماری۔ ایرلچ کو اندازہ تھا کہ اس اعلان پر کتنا بڑا ری ایکشن آئے گا۔ وہ اس کے لئے تیار تھے۔ پہلے ہی خفیہ طور پر سینٹ پیٹرزبرگ کے ہسپتال میں اس کے تجربے کر چکے تھے۔ پھر یہ تجربے ماگڈیبرگ ہسپتال میں دہرائے تھے۔ ہر مرتبہ کامیابی ہوئی تھی۔
اس دوائی کو تیار کرنے کے لئے ہوئیکسٹ کیمیکل نے ایک بڑی فیکٹری لگانے کی حامی بھر لی تھی۔
ٹرائیپان ریڈ اور کمپاونڈ 606 (جس کا نام انہوں نے سالورسان رکھا) نے ثابت کر دیا تھا کہ بیماریاں پیتھولوجیکل تالے ہیں جو ٹھیک مالیکیول کی چاپی سے کھولے جا سکتے ہیں۔ قابلِ علاج بیماریوں کی تعداد اور تجربات کا ایک نیا باب کھل گیا تھا۔
اینٹی ٹوکسن اور اینٹی باڈی کی کیمیکل تھیوری بنانے پر ارلک نے اپنا نوبل انعام میڈیسن میں حاصل کیا۔
ساتھ لگی تصویر سلورسن کی، جو آتشک کی بیماری کے لئے چالیس سال تک استعمال ہوتی رہی۔