کوئی ابھی ادبی فن پارہ حتی الوسع طور پر متنوع تعبیرات و رجحانات کو نہ صرف دعوت دے گا بلکہ یہ تنوع پذیرائی کے ایک پیمانے کے طور پر تسلیم کیا جائے گا۔ اس کے باوجود کئی وجوہات کے باعث ’’ کیسے پڑھیں؟‘‘ کا سوال چیخوف کی کہانیوں کے مخصوص تناظر میں بار بار اٹھتا ہے، جن میں سے کم از کم ایک اہم وجہ تو ان کہانیوں کاانوکھا پن ہے۔
اول واقعہ تو یہ ہے کہ یہ کہانیاں ایک بے ترتیب حد تک مختصر ہیں، خاص طور پر ظریفانہ ادبی رسالوں میں شامل ہونے والے اولین دور کے افسانچے جو فوری لطف اور معاوضے کی جلد ادائیگی کی خاطر رسالے کی محدود جگہ میں سمانے کے لئے تخلیق کئے گئے ہیں۔ کیا انہیں سنجیدہ ادبی کاوشیں کہنا ممکن ہے؟ طوالت کے پیمانے اپنی جگہ لیکن ان میں سے کچھ کہانیاں تو اپنے معمولی درجے کے موضوعات کے باعث قارئین کو چونکا دیتی ہیں۔ ایک کلرک کو چھینک آ گئی ہے، کسی نے کاکروچ کو پیروں تلے مسل دیا ہے، ان موضوعات میں آخر ایسا کیا دلچسپ ہے؟
دوسری بات چیخوف کے مخصوص اختراعات کی ہے۔ اگر ہم ان افسانوں کے عادی ہیں جن کا ابتدائیہ ذرا منظر نگاری پر مشتمل ہوتا ہے، پھر کہانی پلاٹ کے مطابق کچھ اونچائی کی جانب بڑھتی ہے ، ایک واقعہ رونما ہوتا ہے اور آخرکار انجام کو پہنچتی ہے، تو چیخوف ہمیں جزوقتی طور پرجھنجھوڑ کے رکھ دے گا۔ یہ وہی چیخوف ہے جس نے ابھرتے ہوئے کہانی کاروں کو اپنے شروع کے صفحات ردی کی ٹوکری کی نذر کر دینے کی نصیحت کی، جس کا پلاٹ اپنے اندر ایک سرعت کی سی کیفیت رکھتا ہے، جس کے واقعات زیادہ تر قضئیے ہیں اور جس کے انجام کو اکثر مبہم گردانا گیا ہے۔ یہ کہانیاں ہم سے کیا چاہتی ہیں اور منزل کس جانب ہے؟
یہ کہانیاں ایک اور طرح بھی بے انجام ہیں: جوابوں کی بجائے مقصد سوال اٹھانا ہے، تبلیغ یا تجاویز سے دور رہا جاتا ہے، چیخوف نے کبھی اپنی تخلیقی کائنات میں موجود ابہام کو خفیہ نہیں رکھا۔یہاں تک کہ ان کہانیوں میں بھی عام طور پر معانی مبہم رہتے ہیں جہاں واقعات ڈرامائی اور نتیجہ فیصلہ کن ہے: فیصلے سے پرہیز کیا جاتا ہے، اخلاقی نتیجے کی جانب اشارہ نہیں کیا جاتا۔ چیخوف کا یہی دعوی تھا کہ یہ کہانی کار کا منصب نہیں۔ فیصلہ قارئین پر چھوڑنا ہی مناسب ہے کہ وہ کہانی کو کیا معنی پہناتے ہیں۔
اگر چیخوف بغیر کوئی واضح الزام پیش کئے اپنی تخلیقات کو قارئین کی عدالت کو غور و فکر کے لئے چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو یہ ایک جزوی فرار ہے کیوں کہ اس قسم کے تعینات نہ تو اس کی ذمہ داری ہیں اور نہ ہی اس کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔
انسانی علم کی ماہیت کے بارے میں چیخوف کے خیالات مشہور و معروف ہیں، اس سے ایک سے زیادہ بار منقول ہے کہ ہم یقین اور (بالخصوص اخلاقی) وضوح کی جس حد تک کوشش کرتے ہیں زندگی ہمیں مزید مبہم اور ناپائیدار حالت میں کانپتی ہوئی زمینوں میں لا پھینکتی ہے ۔ مثال کے طور پر خدا کے ہونے اور نہ ہونے کے یقین کی دو متضاد اور باہم متقابل انتہاؤں کے درمیان چیخوف ایک وسیع و عریض میدان کا تصور کرتا ہے۔ اس تیرہ و تاریک وسطی علاقے کی لامحدود پیچیدگی میں سے اپنا راستہ تلاش کرنے اور ندامت و معصومیت، مرض و تندرستی ، الحاد وایمان کے بیچ موجود کچے راستوں میں پیر جماتے ہوئے گزرنے کے لئے فہم و دانش اور ہمت و جرأت کی ضرورت ہے۔ اس ابہام کو جھیل جانے والے قارئین کے لئے یہ مسئلہ مزید اہم ہو جاتا ہے کہ چیخوف کی کہانیوں کو کیسے پڑھا جائے۔
لیکن یہ ایک دلچسپ تضاد ہے کہ ان تمام ممکنہ رکاوٹوں کے باوجود چیخوف کی کہانیوں کو پڑھنا ذرا مشکل نہیں، بلکہ یہ حیرت ناک حد تک ایک پرلطف اور سہل تجربہ ہے۔ پہلی نظر میں یہ کہانیاں بالکل غیرپیچیدہ اور واضح محسوس ہوتی ہیں۔ اور اگر یہ صفحات میں کم ہیں یا وسعت، تفصیلات اور انجام کے پیمانوں پر پورا نہیں بھی اترتیں تو بھی قاری کی راستے میں اعتقادی یا میلانی رجحانات اور غیرضروری لفاظی کی دیواریں کھڑی نہیں کرتیں، بس بالکل سیدھی سادھی ( چاہے بے نتیجہ) کہانیاں محسوس ہوتی ہیں۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ سارے فساد کی جڑ تفصیلات میں ہے، خاص طور پر وہ عجیب و غریب اشارے جو کہانی سے بظاہر کوئی تعلق نہیں رکھتے اور چیخوف کی عام فہم نثر کے ساتھ بالکل بے ربط محسوس ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر چیخوف کو یہ بتانے کی کیا ضرور ت ہے کہ کسی بالاخانے میں فلاں کرسی کی ایک ٹانگ کم ہے (’’جان من‘‘)؟ یا ایک لڑکی اس وقت گہرے نیلے رنگ کا کپڑا تھامے تھی جب کوئی اس کا ہاتھ مانگنے آیا (’’ادب کا استاد‘‘)؟ چیخوف کے اولین نقاد ان فالتو تفصیلات کو مصنف کی کم فہمی گردانتے ہیں۔ لیکن اب آہستہ آہستہ زیادہ تر نقاد ان الجھاؤ والے اجزاء کو ایک کنجی کے طور پر دیکھنے لگے ہیں، لیکن کاہے کی کنجی؟
کچھ نقادوں کا استدلال ہے کہ چیخوف کی مخصوص محتاط طبعی کے پیشِ نظر یہ گمان معقول ہے کہ متن میں آنے والی ہر تفصیل کسی وجہ سے وہاں رکھی گئی ہے، باالفاظِ دیگر ہم یہ مفروضہ قائم کرنے میں حق بجانب ہیں چیخوف کی نرم رو کہانیوں میں موجود تمام اجزاء ارادتاً وہاں شامل کئے گئے ہیں لہٰذا بامقصد ہیں۔ آخر کار (چاہے ڈرامے کے تناظر میں ہی سہی) چیخوف سے یہ بھی تو منقول ہے کہ اگر ایکٹ اول میں دیوار پر ایک بندوق لٹکی ہوئی ہے تو اسے پردہ گرنے تک چل جانا چاہئے یا پھر اسے سرے سے وہاں ہونا ہی نہیں چاہئے تھا۔ اور اگر ہر بندوق کا ادھر موجود ہونا ضروری ہے تو پھر ہر ایک کا بامعنی ہونا بھی لازم ہے، حادثاتی طور پر کچھ شامل نہیں ہوتا اور فالتو اجزاء جمع کرنے کی ضرورت نہیں۔ رابرٹ ایل جیکسن کا کہنا ہے کہ ’’چیخوف کے عظیم ترین شاہکار فن پاروں میں کوئی تفصیل بے معنی نہیں۔‘‘ لہٰذا چیخوف کو اچھی طرح پڑھنے کا مطلب ہے ہر لفظ یہاں تک کہ بظاہر اتفاقی الفاظ کو بھی دھیان میں رکھنا، کہانی میں موجود علامتوں اور سراغوں پر غور و فکر ، لطیف اشاروں کی کھوج اور فریبی سادگی کی سطح سے نیچے غواصی کرتے ہوئے گہرائیوں میں پیچیدہ فن کاریوں تک رسائی، بلکہ لسانی اثرات تک پر توجہ، صوتی اتار چڑھاؤ، لحن و آہنگ اور انشقاقی سروں پر توجہ، یعنی نثر کو یوں پڑھنا جیسے نظم پڑھی جاتی ہے کہ اس کے اثرات اور اجزاء کو مکمل نظر میں رکھا جاتا ہے۔ قصہ مختصر، گہرے نیلے کپڑے کا ہر ٹکڑا کُل تخلیق کو بامعنی بنانے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
دوسرے ان بنیادوں پر اس ’’مجموعی‘‘ طریقۂ کار پر اعتراض کرتے ہیں کہ چیخوف کی نثر کا عملی اصول اس کے بالکل الٹ ہے، یعنی ایک اتفاقی کیفیت، اور اگر اس کی کہانیوں میں کوئی تفصیل بے ربط اور دوسری چیزوں سے لاتعلق محسوس ہوتی ہے تو یہ محض اس اتفاقی اصو ل کے تحت ہے۔ کئی دفعہ ایک بندوق بس ایک بندوق ہوتی ہے، مادی دنیا کا ایک اتفاقی جزو جو اپنی ہستی سے زیادہ کسی جانب اشارہ نہیں کرتا، وہ وہاں لٹکی ہے کیوں کہ وہاں موجود ہے اور اس کے اوپر معانی ٹا نگنا کج روی کی علامت ہے۔ دوسرے لفظوں میں چیخوف کی ان انوکھی تفصیلات کا مقصد ’معنی‘ نہیں بلکہ بس ’ہونا‘ ہےاور وہ اس ’معنی سے آزاد‘ ہونے کی کیفیت کے ذریعے ہستی کی نوعیت کا ایک نمونہ پیش کرنا چاہتا ہے۔ چیخوف کی نثر اس کے انقلابی مشاہدۂ کائنات کی تجسیم ہے، دنیاوی زندگی کے منتشر اور اتفاقی ہونے کا فہم جو حادثے اور ناکارگی کی لپیٹ میں ہے۔ الیگزنڈر چوڈاکوف کا کہنا ہے کہ ربط اور مقصدیت کے گھسے پٹے مفروضوں سے چیخوف کی آزادی ہی وہ خاصیت ہے جو اس کے فن کو جدید اور غیراعتقادی بناتی ہے، ہر شے کو علامت یا کسی اور چیز کے جانب اشارے کے طور پر دیکھنا غلط فہمی ہے۔
دونوں تنقیدی آراء میں سے خواہ کوئی بھی درست ہو، بہرحال دونوں کسی نہ کسی جانب راہنمائی کرتی ہیں، اور اپنے متضاد مفروضوں کے باوجود اس سوال پر غورو فکر کے لئے مشترکہ طور پر مشغول ہیں کہ کہانیاں کیسے کام کرتی ہیں۔ واقعہ یہ ہے دونوں قسم کے استدلال کی مشترکہ بنیاد تو یہی سوال ہے جس نے مباحثے کو قوت اور مواد فراہم کیا ہے۔ اس جلد میں موجود مضامین کے اقتباسات تنقیدی سرحدوں کے دونوں جانب بلکہ وسط سے بھی شامل کئے گئے ہیں، اور خاص طور پر اسی جاری قضیے سے تعلق رکھتے ہیں کہ چیخوف کو کیسے پڑھا جائے۔ پہلے حصے ’رجحانات‘ میں وہ مضامین شامل ہیں جو اس سوال سے مفصل بحث کرتے ہیں۔ لیکن چیخوف کی نثر پر مجرد بحث بس کچھ ہی آگے لے جا سکتی ہے، چیخوف خود بھی عمومیت پسندی سے خائف تھا اور اس کا کام بھی اس سے گریز کرتا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ چیخوف پر ہوا تمام زندہ تنقیدی کام اس کی چنیدہ کہانیوں کے بغور مطالعے پر مشتمل ہے۔ لہٰذا مضامین کے دوسرے حصے ’تعبیرات‘ کو یہ واضح کرنے کے لئے جمع کیا گیا ہے کہ بغور مطالعہ کیا ہوتا ہے اور کچھ صورتوں میں ایک ہی کہانی مختلف زاویوں سے کتنی مختلف نظر آتی ہے۔ زاویہ ہائے نظر خواہ کچھ بھی ہوں، یہ تمام مطالعے یہی ثابت کرتے ہیں کہ دلچسپ چیزیں تبھی نمودار ہوتی ہیں جب یکسوئی سے توجہ دی جائے۔دلچسپ ترین تعبیرات دوبارہ پڑھنے پر سامنے آتی ہیں، یعنی متن پر معمول سے ہٹ کر نظر ڈالے جانے پر نہ صرف یہ راز افشا ہوتا ہے کہ چیزیں اتنی سادہ نہیں ہوتیں جتنی نظر آتی ہیں بلکہ یہ بھی کہ چیخوف کی کہانیاں پراسرار کیفیات لئے ہیں۔
اگر کسی انفرادی کام کی صرف ایک جہت کے سیاق و سباق میں اتنا مفید اختلاف سامنے آ سکتا ہے تو جزو کے کُل سے باہمی تعلق کے سوال پر اتنے ہی دلچسپ نتائج سامنے آتے ہیں، یعنی یہ غور و فکر کہ چیخوف کی ایک کہانی کس طرح دوسری کہانیوں سے جڑی ہوئی ہے۔ یقیناً زیادہ سے زیادہ لطف اور قدردانی کے لئے قارئین کو انفرادی اور مجموعی طور پر دونوں طریقوں سے کہانیوں کا مطالعہ کرنا چاہئے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ یہ رنگ برنگی کہانیاں اپنی تنہائی میں کیا ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کیا بن جاتی ہیں۔ یہ ہمارے اندر دہرائی جانے والی دھنوں، آہنگ، ساخت اور اشاروں کنایوں کی آگہی کو جلا بخشتی ہیں، ساتھ ہی ہمیں یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ ہم مستقل اخلاقی سوالات سے نبرد آزما ہیں۔ ہر کہانی اشاراتی طریقوں سے دوسری کہانیوں سے منسلک ہوتی ہے اور ہر دوسری ہر چیز کے ساتھ مل کر اپنے آہنگ میں مزید تیزی لے آتی ہے۔
لطف کی بات بھی اہم ہے اور چیخوف کو کیسے پڑھنے کا سوال ان ادیبوں اور نقادوں کی پیچیدہ ترجیحات تک تو محدود نہیں جو مجموعے وضع کرتے ہیں اور علمی تعبیرات پیش کرتے ہیں۔ کھری جستجو، راستوں کی تلاش، غیر سے ایک مثبت جذباتی مناسبت، کسی دوسرے کے درد تک رسائی، یہ یاد دہانی کے ہم سب ایک کل کا جزو ہیں اور علیحدہ نہیں: یہ سب کچھ بھی چیخوف کی کہانیوں کا ایک مقصد ہے۔ وہ جو چیخوف کو اس لئے پڑھتے ہیں کہ وہ خود مصنفین ہیں، مناسبت اور تعلق کا یہ احساس اس کی فن کاری ظاہر کرتا ہے۔ جو چیخوف کو لطف کی خاطر پڑھتے ہیں، یہ مناسبت یقیناً اس کے فن کا منبع ہے۔
چیخوف کی کہانیاں کیوں پڑھی جائیں؟ کیوں کہ یہ ہمارے فہم کا دائرہ وسیع کرتی ہیں اور لطف و بیدار ی کا باعث ہیں۔ کیوں کہ یہ ہمیں ہر قسم کے رشتے جوڑنے پر ابھارتی ہیں۔ کیوں کہ فہم کی مسلسل کوشش کے ذریعے نقاط ملاتے ہوئے ہم معانی اور حُسن کے قریب ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ یہ کوشش ہی کہانی کو اس کی شکل دیتی ہے اور اس کے مواد کو ایک سلسلے میں پروتی ہے، تشکیل اور معنی کی تشکیل کا کام ہمیں اندر سے مالا مال کر دیتا ہے۔ کیوں کہ کہانیاں ہمیں زندگی کی ان جہتوں پر غور وفکر کی جانب واپس لے جاتی ہیں جو پہلی نظر میں ہماری توجہ حاصل کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔ کیوں کہ سوال سے نبرد آزما ہونے میں ہی ہم ایک بھرپور اور اچھی زندگی گزارنے لگتے ہیں کہ چیخوف سے کیسے زیادہ سے زیادہ حاصل کیا جائے ۔
http://www.adbiduniya.com/2016/06/how-to-read-chekhov-by-cathy-popkin.html