کیپٹن کُک کی مہم نے آسٹریلیا کی سرزمین پر 19 اپریل 1770 میں قدم رکھا۔ تاریخ کے اس اہم دن میں برطانیہ کی طرف سے ریکارڈ سائنسی رپورٹس اور کپتان کے لاگس میں محفوظ ہے۔ اس دن کو اگر آسٹریلیا میں رہنے والوں کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو اس روز کے بارے میں کچھ بھی لکھا ہوا نہیں ملتا۔ آسٹریلیا کے ایب اوریجنل لکھائی کی ٹیکنالوجی سے واقف نہ تھے۔ ان کے تحریری ریکارڈ ہمارے پاس نہیں۔ لیکن اس روز کیپٹن جیمز کُک کے جہاز کی طرف سے چلائی جانے والی گولی سے خوفزدہ ہو کر بھاگنے والی کی لکڑی سے بنی ڈھال گری ہوئی ہمیں ملتی ہے۔ اس روز کیا ہوا؟ اس کہانی کو پڑھنے کے لئے برطانوی رپورٹس کافی نہیں۔ اس ڈھال کا تفصیلی معائنہ اور تجزیہ کرنا بھی ضروری ہے تا کہ تاریخ کا ہمیں دونوں اطراف سے پتہ لگ سکے۔
لکھے ہوئے ریکارڈ کے ساتھ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ لکھنے والے ہمیشہ درست نہیں لکھتے۔ کہا جاتا ہے کہ تاریخ فاتح لکھتے ہیں اور اگر لکھنا صرف ان کو آتا ہو جو فاتح ہوں تو پھر تاریخ صرف وہی لکھتے ہیں۔ ہارنے والی سائیڈ اگر لکھ نہ سکتی ہو تو اس کی تاریخ کیا بالکل مٹ جاتی ہے؟ نہیں، کیونکہ چیزیں بولتی ہیں،۔ ایزٹک سلطنت نے ہواسٹک قبائل کا نام و نشان مٹا دیا۔ ایزٹک کا ہسپانویوں نے صفایا کر دیا۔ ہواسٹک قبائل کو ہم پھر بھی جانتے ہیں۔ کیونکہ تاریخ میں ہم صرف لکھے حروف پر بھروسہ نہیں کرتے۔ چیزیں غلط بیانی یا مبالغہ آرائی نہیں کر سکتیں۔ اگر ہم مہارت رکھتے ہوں تو ہر ملنے والی چیز اس تہذیب کی گہری سمجھ دیتی ہے۔ بہت سے پرانی تہذیبوں نے اپنی کہانیاں صرف اسی طرح سنائی ہیں۔
جہاں پر آج پاکستان ہے، وہ ایک شاندار تہذیب کا ماضی تھا جس کو ساڑھے تین ہزار سال پہلے بدلتے موسم نے ختم کر دیا۔ آثارِ قدیمہ کے میدان میں بیسویں صدی کی سب سے اہم دریافت وادی سندھ کی یہ تہذیب تھی جس کو اکیسویں صدی میں بھی ڈھونڈا اور سمجھا جا رہا ہے۔
پانچ ہزار سال پہلے سندھ کے کنارے بسنے والی اس تہذیب کے پاس دو لاکھ مربع میل کا رقبہ تھا۔ پورے شہر جو وسیع تجارتی رابطے رکھتے تھے۔ یہاں پر بنائی ہوئی مہریں ہمیں مشرقِ وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے علاقوں میں بھی ملتی ہیں۔ مستطیل مہر جو ڈاک کے ٹکٹ کے سائز کی۔ کسی پیکج کو بند کر کے اس پر اس مہر سے موم یا چکنی مٹی پر نشان لگایا جاتا تھا۔ اوپر ایک جانور کی بہت خوبصورت نقش و نگاری۔
ساہیوال کے قریب ہڑپہ سے ملنے والی یہ مہر انیسویں صدی میں ملی جب برطانیہ کا برِصغیر پر راج تھا۔ جب یہ 1906 میں آرکیولوجیکل سروے آٖف انڈیا کے ڈائریکٹر جنرل کی نظر میں آئی تو انہوں نے اس مہر کو ملنے والی جگہ پر کھدائی کا آرڈر کیا۔ اس کھدائی سے جو ملا، اس نے دنیا کی تاریخ کو ایک نئی نظر سے دیکھنے پر مجبور کر دیا۔
یہ بہت بڑا شہر تھا جو اتنا پرانا تھا جتنا اس وقت کسی کے علم میں نہ تھا۔ اس کے بعد قریب دوسری آبادیاں ملیں۔ یہ واضح ہو گیا کہ یہ جگہ شہری مراکز، تجارت اور صنعت کا گڑھ تھی۔ یہاں تک کہ لکھائی بھی موجود تھی۔ یہ مصر اور میسوپوٹیمینا کی طرح کا شاندار ماضی تھا جو بھلا دیا گیا تھا۔
ہڑپہ اور موہنجوداڑو کی آبادی تیس سے چالیس ہزار کے درمیان تھی۔ یہ ایک گرڈ کی صورت میں بسائے گئے تھے جس میں ٹاوٗن پلاننگ کے اصول مدِ نظر رکھے گئے تھے۔ نکاسئ آب اور پلمبنگ تک موجود تھی۔ ایک آرکیٹکٹ کے مطابق “نظم و ترتیب یہ بتاتی ہے کہ آپ کسی جگہ سے واقعی محبت کرتے ہیں اور اس کو اپنا بنانا چاہتے ہیں۔ ہڑپہ کے آرکیٹکچر میں ترتیب، ہم آہنگی، خوبصورتی اور ردھم کے اصول ہیں۔ جمالیاتی شعور اور تیظیم کے شعور اور سادگی کے شعور کا ملاپ ہے۔”
ایک بڑی چیز جو اس تہذیب کو ممتاز کرتی ہے، وہ یہ کہ ہم ان کے حکمرانوں کے بارے میں نہیں جانتے۔ نہ بادشاہ، نہ فرعون، نہ کوئی لیڈر جس نے اپنی یادگاریں اہرامِ مصر کی طرز پر بنائی ہوں یا بڑے محل اور باغات بنائے ہوں۔ یہاں پر بچے آثار کسی جنگ و جدل کا بھی پتہ نہیں دیتے۔ نہ زیادہ ہتھیار ملتے ہیں اور نہ ہی قلعے۔ امیروں اور غریبوں کے گھروں میں بھی زیادہ فرق نہیں۔ تہذیب بنانے کا یہ ماڈل باقی قدیم تہذیبوں سے فرق رہا۔ اس میں ظلم یا تشدد کے ذریعے مضبوط مرکزی حکومت نہیں بنائی گئی۔ مصر یا میسوپوٹیمیا کے قدیم تہذیبی آثار جن کی وجہ سے ہم انہیں زیادہ بہتر طریقے سے جانتے تھے، مضبوط مرکزی کنٹرول کے نشان ہیں۔
ساتھ تصویر میں لگی مہر جیسے مہریں ہمیں بتاتی ہیں کہ ان کو تجارتی مال پر اپنا نشان لگانے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ ان میں موجود سوراخ سے پتہ لگتا ہے کہ ان کا مالک ان کو اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ عراق، ایران، افغانستان اور سنٹرل ایشیا سے تجارت کی جاتی تھی۔ ایک ہزار سال سے زیادہ تک یہ تہذیب پنپتی رہی، بڑھتی رہی۔ یہ سب کچھ 1900 قبلِ مسیح ختم ہو گیا۔ شہر مٹی کے ڈھیروں میں بدل گئے۔ ان کی یاد بھی مٹ گئی۔ دنیا کی قدیم ترین شہری تہذیب دنیا سے ختم ہو گئی۔ ان آثار کو دیکھ کر ہمارا خیال ہے کہ اس کے ختم ہونے کی وجہ ماحولیاتی تباہی تھی۔ اینٹوں کی بھٹیوں کو جلانے کے لئے ان کو لکڑی کی ضرورت تھی۔ لکڑی کے لئے درختوں کو بڑے پیمانے پر کاٹنے سے جنگل غائب ہوئے۔ غائب ہوتے جنگلوں سے دریائے سندھ کی شاخوں نے اپنا راستہ بدل لیا۔ کچھ خشک ہو گئیں۔ دریا کے قریب بسے شہروں تک پانی کا نہ پہنچ سکنا ان کی آبادیوں کو ویران کر گیا۔
جب پاکستان سے یہ تہذیبی آثار ملے، اس وقت برٹش راج تھا۔ ان کا ملنا اس وقت کے محکوموں کے لئے ایک نفسیاتی حوصلہ افزائی تھی۔ یہ ایک قومی فخر کا نشان تھا کہ ہم ماضی میں اپنے حاکموں سے کمتر نہ تھے۔ لاڑکانہ گزٹ میں ہمیں اس بارے میں مضامین ملتے ہیں۔ یہ سینکڑوں آثار اب ہمیں گجرات، ہریانہ، راجستھان اور یہاں تک کہ اتر پردیش سے بھی مل چکے ہیں۔
رفیق مغل (جو اب بوسٹن یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں) پاکستان اور چولستان میں دو سو سائٹس دریافت کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا کہ “پاکستان میں اپنے اس شاندار ماضی کو جاننے میں بہت کم دلچسپی پائی جاتی ہے۔ نہ صرف عوام میں بلکہ حکومت میں بھی۔ یہ سائٹس قدیم دنیا کی اہم ترین یادگاروں میں سے ہیں۔ اگر ان کی طرف توجہ دی جائے تو ہمارے پاس ابھی بہت کچھ جاننے کو ہے۔”
یہاں سے نکلنے والی اشیاء کو دنیا بھر میں ڈسپلے کیا جاتا ہے۔ ان کے بارے میں ہمارا علم آسہتہ آہستہ بڑھ رہا ہے۔ اگر ہم ان مہروں پر پڑھی عبارتیں پڑھ سکیں تو یہ ایک بڑا بریک تھرو ہو گا۔ لیکن ابھی انتظار کرنا پڑے گا۔ ان عظیم شہروں کا مکمل طور پر مٹ جانا ہمارے لئے ایک پریشان کن پہلو یہ بھی رکھتی ہے کہ ہمارے شہر اور تہذیبیں کس قدر نازک ہیں۔
اس مہر کے بارے میں
https://www.harappa.com/…/organization-indus-unicorn-seal-p…