ساتھ لگی تصویر دنیا میں کسی بھی جگہ کی ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ عام نظر آنے والے منظر کی تاریخ خاص ہے۔ دھات، پلاسٹک، گتے، مٹی، سٹون وئیر وغیرہ کے برتن بھی چائے پینے کے لئے استعمال ہو سکتے ہیں لیکن جو بات چینی کے برتنوں کی ہے، وہ جگہ کوئی نہیں لے سکا۔ چینی کے برتن الٹراوائلٹ شعاعوں سے یا کیمیکلز سے متاثر نہیں ہوتے، لمبا عرصہ چلتے ہیں، اندر کی گرم چائے کی حرارت باہر نہیں آتی لیکن ان عملی مسائل کے علاوہ ایک اور چیز بھی ہے۔ چائے پینے کی رسم محض ایک مشروب پینا نہیں، ہماری سماجی روایت اور مل بیٹھ کر باتیں کرنے کی رسم رہی ہے۔ آہستہ آسہتہ چسکیاں لیتے ہوئے ساتھ ساتھ کی جانے والی خوش گپیاں ہماری خاندانی اور ثقافتی اقدار کا حصہ ہیں۔
جب کاغذ نہیں تھا، پلاسٹک نہیں تھا، شیشہ نہیں تھا، دھات نہیں تھی، ان کی کہانی اس دور سے شروع ہوتی ہے۔ جب انسانوں نے دریاوٗں کے راستوں سے لی گئی مٹی کو آگ میں پکایا اور ان کو پتا لگا کہ وہ اس کو کس قدر بدل سکتے ہیں۔ یہ نرم سے مٹی سخت پتھر میں بدل جاتی تھی۔ سخت، مضبوط اور اس میں کئی چیزیں رکھی جا سکتی تھیں۔ غلہ اور پانی بھی۔ اس کے بغیر زراعت اور آبادیاں نہ ہوتیں۔ دس ہزار سال سے ہمارے برتن ہماری زندگی کا لازمی حصہ بن گئے ہیں۔
لیکن یہ قدیم سرامکس، پتھر جیسی نہیں تھیں۔ ٹوٹ جاتی تھیں، مسام والی تھیں اور پانی لیک کرتا تھا۔ آج کے مٹی کے برتن اور ٹیرا کوٹا کے برتن ان کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ شیشے، دھات یا پلاسٹک کے برعکس ان کو پگھلایا نہیں جاتا اور ان کی مائع سے شکل نہیں بنائی جاتی۔ سرامک کی مائع لاوا ہے۔ کئی ملین سال زمین کی حرارت اور پریشر میں پکی ہیں۔ پھر چٹانوں میں ہوا اور پانی کے تھپیڑوں نے ان کو پیسا ہے۔ دریا میں بہنے سے اور اس کی تہہ میں بیٹھ جانے سے یہ اس شکل میں آئی ہے کہ ان کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جب اس کا درجہ حرارت زیادہ کیا جاتا ہے تو اس کے ایٹم توانائی حاصل کر کے حرکت کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے آپ کو آرگنائز کر لیتے ہیں اور سوراخ بھر لیتے ہیں۔ یہ جادوئی تو ہے، مگر جادو نہیں۔
کچھ قسم کی مٹی یہ کام دوسروں سے بہتر کر لیتی ہے۔ سستی اور عام ملنے والی مٹی یہ کام کم درجہ حرارت پر کر لیتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ کہ گھر اور شہر اس سے بنے ہیں۔ اس کی یہ شکل اینٹ کی صورت میں ہے۔ گھر کے لئے ٹھیک لیکن برتن بنانے کے لئے ناکافی۔ برتن میں ذرا سی بھی دراڑ جلد پھیلنا شروع کر دیتی ہے۔
اس مسئلہ کو مشرق کے کمہاروں نے حل کیا۔ اس کا حل یہ تھا کہ اگر ایک خاص قسم کی راکھ اس کی باہری سطح پر لیپ دی جائے تو آگے میں پک کر یہ تہہ بن جائے گی جو برتن کے باہر چپک جائے گی۔ یہ گلیز کہلاتی ہے۔ اس سطح کو رنگا جا سکتا ہے اور اس پر نت نئے ڈیزائن بنائے جا سکتے ہیں۔ اس دریافت نے سرامکس کے لئے نیا دور شروع کر دیا۔ آج کے کچن اور فرشوں کی ٹائل میں بھی یہی طریقہ استعمال ہوتا ہے۔ مڈل ایسٹ اور عرب کے آرکیٹیکچر میں فرشوں اور پوری عمارات پر یہی میٹیریل نظر آتا ہے۔
گلیز کرنے سے باہری سطح کے سوراخ تو ڈھکے گئے لیکن اندر کی سطح ویسی ہی تھی، اس وجہ سے یہ اتنا مضبوط نہیں اور آسانی سے چٹخ جاتا ہے۔ اس مسئلہ کو چین میں حل کیا گیا، ایک بالکل ہی نیا میٹیریل بنا کر۔
دو ہزار سال پہلے چین میں ہان خاندان کے دور میں اس میں ایسے میٹیریل ملائے گئے، جو کبھی دریا میں گئے ہی نہیں۔ ان میں سے ایک کیولین تھا، جو ایک سفید منرل ہے۔ اس کا اضافہ کیوں کسی نے کیا؟ معلوم نہیں۔ بس شاید تجربے کے لئے یا پھر رنگ کے لئے۔ اس کے کئی مکسچر بنائے گئے۔ مختلف تناسب کے ساتھ اور پھر کچھ اور اجزاء کا اضافہ کر کے، جس میں کوارٹز اور فلڈسپر شامل تھے۔ اس سے بننے والی سفید مٹی کو جب 1300 ڈگری پر گرم کیا گیا تو ایک عجیب چیز ہوئی۔ یہ ایک پرفیکٹ اور سموتھ سطح کی صورت میں آ گئی۔ کسی بھی اور سرامک سے زیادہ مضبوط، پائیدار اور خوب صورت۔ پتلی اور ہلکی۔ یہ نفیس میٹیریل پورسلین تھا۔
اس کی ان خاصیتوں کی وجہ سے یہ بادشاہوں اور امراء میں مقبول ہوا۔ ذوق رکھنے والوں میں سراہا گیا۔ اس کو بنانے کے لئے ٹیکنالوجی کی گہری سمجھ چاہیے تھی۔ اس کو ٹیکنیکل اور آرٹسٹک مہارت کا ملاپ اور نشان سمجھا گیا۔ ہان خاندان کے لئے فخر کی یہ علامت ان کی تہذیبی شناخت بن گئی۔ اس کے بعد سے چینی تاریخ میں مختلف اقسام کی شاہی پورسلین مختلف شاہی خاندانوں سے وابستہ رہی۔ اس کے لئے چینی ظروف بنائے جاتے تھے۔ پھولدان اور پیالے جو محلوں کی سجاوٹ میں کام آتے۔ ساتھ ساتھ اس کا ایک نیا استعمال شروع ہوا۔
مہمان نوازی اور وضع داری کی مشرقی روایات اور پورسلین کا ملاپ ایک مشروب کی صورت میں ہوا جو چین کا مقامی مشروب تھا۔ یہ مشروب چائے تھا۔ اپنے مہمانوں کو چینی کے برتنوں میں چائے پیش کرنا مہمان نوازی کی اعلیٰ روایت سمجھی جانے لگی۔ گرما گرم مشروب جو بغیر برتن کے اضافی ذائقے کے اور بغیر ہاتھ تک حرارت پہنچائے خوبصورت اور نفیس میٹیریل میں مہمان کے ساتھ مل کر یا خاص مواقع پر پینے کی رسم چین سے شروع ہو گئی۔
چینی پورسلین کسی بھی اور سرامک سے اس قدر بہتر تھی کہ جب مشرقِ وسطیٰ اور مغرب سے تاجر یہاں پہنچے تو نہ صرف اس پورسلین کو یہاں سے لے گئے بلکہ ان برتنوں میں چائے پینے کی رسم کو بھی۔ جینی برتن میں چائے چین کے کلچر کا سفیر بن گئی۔ یہ چین کی باقی دنیا سے تہذیبی برتری کی علامت تھی۔ چینیوں کی نقالی کرنا آپ کو ممتاز کرتا تھا۔ ان کا نام ہی چینی کی مٹی اور چینی کے برتن کے طور پر مشہور ہوا۔
یہ اس قدر مقبول ہوئے اور تجارت اس قدر بڑھی کہ ان کو بنانے کی کوششیں شروع ہو گئیں۔ جو ان کو بنانے کا راز جان لیتا، وہ امیر ہو جاتا۔ لیکن کوئی اس کے قریب نہیں پہنچ سکا۔ چینی کمہار یہ راز کسی کو نہیں بتاتے تھے۔ اس کو بنانے کے راز کو جاننے کے لئے یورپ سےجاسوس بھیجے گئے، جو ناکام رہے۔ پانچ سو سال تک تجارت ہوتی رہی راز راز ہی رہا۔ پھر سیکسونی کے بادشاہ کی قید میں کیمیاگر جوہان بوٹگر نے 1704 میں اس راز کو کھول دیا، جب ان کو کیولین نے مقامی ذخائر مل گئے۔ شاہی قیدی کو شاہی انعام و اکرام سے نوازا گیا۔
اس کے بعد یورپ بھر میں اس کی تیاری کی کوششیں تیز ہو گئیں۔ اور یہ مقابلہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے والا اور ایک دوسرے کی جاسوسی کرنے والا تھا۔ بوٹگر کی دریافت کے پچاس برس بعد برطانیہ میں مقامی طور پر اس کو بنا لیا گیا۔ یہ میٹیریل “بون چائنہ پورسلین” کہلایا۔
برطانیہ نے اپنی سلطنت وسیع کرنا شروع کی۔ دنیا پر قبضے کی دوڑ میں ان کا سب سے بڑا انعام برِصغیر تھا۔ اس میں ہونے والے کلچرل اثرات کی متنقلی میں چینی کی پیالی میں چائے پیتے ہوئے خوش گپیوں کی رسم کا برِصغیر تک پہنچنا بھی تھا۔ چین سے شروع ہونے والی چینی کے برتنوں اور چائے کی روایت کو برِصغیر میں اپنا لیا گیا۔ چینی کے برتنوں اور چائے کا چین اور ہندستان کے درمیان ہمالیہ کی پہاڑیاں پار کرنے کا راستہ برطانیہ کے ذریعے بنا۔
ایک وقت میں ان پر بنے نقش و نگار ان کی پہچان ہوا کرتی تھیں لیکن پھر نئے برتن سفید رنگ کے ہوتے گئے اور نقش و نگار کم ہوتے گئے۔ اس بدلتی روایت کی ایک بڑی وجہ ڈش واشر تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے سامنے اس وقت چینی کے کپ میں چائے پڑی ہے۔ اس میں پی جانے والی چائے کا ہر کپ بالآخر اس پیالی کی جان لے لے گا۔ ہر بار اس میں انڈیلی جانے والی حرارت اس کے فریم پر کچھ سٹریس ڈالتی ہے جس سے کچھ ایٹم اپنے بانڈ توڑ دیتے ہیں۔ دھیرے دھیرے کسی جگہ پر یہ بڑھنا شروع ہو گا۔ کہیں پر ایک باریک سی دراڑ کی صورت میں نظر آنا شروع ہو گا۔ جیسے کوئی کیچوا ہو۔ اور پھر کسی روز، یہ ٹوٹ جائے گا۔ اس سے پہلے ہر انڈیلے کپ کے ساتھ کی گئی باتیں، پڑھی گئی کتابیں، گزارے گئے لمحے مجھ پر، خاندانی اور معاشرتی تعلقات پر اپنا اثر ڈال چکے ہوں گے۔ اور یہی اس کے ہونے کا مقصد تھا۔
چائے کا یہ کپ دیکھنے میں عام لگتا ہے۔ لیکن اس کی یہاں تک پہنچنے کی تاریخ اور اس کا ہونے والا اثر، چین کے بادشاہ کے محل سے میری میز تک کا سفر ۔۔۔۔۔۔ سائنس، تاریخ، روایت اور معاشرت کی کہانی ہے۔