چین کے بادشاہ نے دلی کی ملکہ کو ایک آئینہ تحفہ میں دیا ۔ اتفاق کہ ملکہ کے ہاتھ سے آئینہ زمین پر گرا اور ٹوٹ گیا ۔
ملکہ کے منہ سے اچانک نکلا ۔۔از قضاء آئینہء چینی شکست
کنیز نے سنا تو اس نے جواب میں کہا ، خوب شد کہ اسبابِ خود بینی شکست
ایک دنیا خود نمایی کی ہے اور میں بھی اس جنگل میں قید تھا ۔
١٥ جنوری ٢٠٢١ ، ملک کی تاریخ میں ایک اورسیاہ دن ۔ ارنب کے ہاتھوں سے آئینہ گرا اور پانچ سو ٹکرے وہاٹس اپ پر بکھر گئے ۔ ان میں ملک کی نیلامی کی ہر وہ داستان قید ہے ، جس پر ارنب کو پھانسی کی سزا بھی ہو سکتی تھی ۔مگر نہیں ہوگی ۔ پرائم منسٹر آفس ، عدلیہ ، دیگر محکمے ۔۔سب بے نقاب ہو گئے ۔ مودی اور شاہ کی حقیقت بھی اس آئینہ میں قید ہے ۔۔مگر میں جانتا ہوں ، کچھ نہیں ہوگا ۔
اچانک مجھ پر انکشاف ہوتا ہے کہ میں ایک مسخرے میں تبدیل ہوچکا ہوں۔ میں ایک بھکاری بھی ہوں۔۔۔۔ اور وائرس زدہ موسم میں سگریٹ کی طلب بجھانے کے لیے میں چاروں طرف بھاگ رہا ہوں۔ میری زبان سوکھ رہی ہے۔ اور میں اذیت کے بادلوں کے درمیان ہوں۔۔۔۔ جناب ایک پیکٹ سگریٹ۔۔۔۔ مجھے سگریٹ چاہیے۔۔۔۔ آپ لوگ سگریٹ کیوں نہیں رکھتے۔۔۔۔ میں ڈرائیو کررہا ہوں اور میری آنکھیں چاروں طرف دیکھ رہی ہیں۔آسمان کا رنگ زرد ہے۔بھورے بادل چھا گئے ہیں۔سڑک سناٹی ہے۔کہیں کہیں پولیس والے کھڑے ہیں۔ٹھہر ٹھہر کر سڑک سے پولیس وین گزر رہی ہے۔مکانات قرنطینہ کا شکار ہیں۔ میں قید سے باہر ہوں مگر قید میں ہوں۔ یہ سگریٹ کی طلب۔ اس وقت اس طلب سے زیادہ مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ہونٹوں پر خشکی ہے اور آنکھوں میں خوف کہ اگر سگریٹ نہیں ملی تو میرا کیا ہوگا۔ اس وقت میں عالمی سیاست سے کنارے ہوں اور وائرس کے حملوں بھی بھول چکا ہوں۔۔۔ جناب ایک سگریٹ۔۔۔ ولس نیوی کٹ۔۔۔ نہیں ہے۔۔۔ کہاں ملے گی۔۔۔ کمپنی بند ہے۔۔۔ میں سوچتا ہوں، کیا میں نے خود کو اس حد تک نشہ کا عادی بنا لیا ہے۔سگریٹ نہیں ملی تومیرا کیا ہوگا۔ سگریٹ نہ ملنے سے دنیا کی رفتار میں کوئی کمی نہیں آئے گی، مگر جب تک سگریٹ نہیں ملتی، مجھ پر دھویں کی اذیت کا حملہ ہوتا رہے گا۔دماغ مفلوج ہے۔۔میں دھند میں ہوں ۔۔ ماضی مجھے آواز دے رہا ہے ۔۔یہ وہ زمانہ تھا جب میں خود کو اسلم شیرازی کے نام سے یاد کیا کرتا تھا ۔۔ اسلم شیرازی ، اب اس نام پر مجھے ہنسی آتی ہے ۔
رقص میں لیلیٰ رہی— لیلیٰ کے دیوانے رہے— ماضی میں لوٹتا ہوں تو وحشت سوار ہو جاتی ہے— تب ترانہ نہیں تھی۔ تبسم نہیں تھی۔ زندگی کی ایک اور بھی حقیقت تھی— معصوم سی عمر…… گھر آنگن میں کھیلنے کو ایک کھلونا مل گیا تھا۔ مگر عمر کے پر پھیلاتے ہی یہ کھلونا مجھے ڈسنے لگا تھا۔ عمر کی ان منزلوں پر میں خواب کی وادیوں میں تھا۔ جیسے میں دیکھتا تھا کہ میری شادی ہو چکی ہے…… جیسے مجھے احساس ہوتا تھا کہ میں ایک ایسے بندھن کو نبھانے کی کوشش کرر ہا ہوں، جو مجھے دل سے منظور ہی نہیں ہے— رات اپنا سایہ پھیلاتی تو ڈراونے خواب میرا جینا دوبھر کر دیتے—
میں خوف کی وادیوں میں ہوں ……
اور کوئی ہے، جو میرے جینے کی آزادی پر پہرہ بیٹھا نے کی کوشش کررہی ہے—
ایک ڈراونا خواب
رات اُتر رہی ہے……
آنکھوں میں __ یا مجھ میں …… مگر رات اُتر رہی ہے __ دھیرے دھیرے __ خود غرض آدمی! تم یہ نے یہ کیوں کہا کہ دن کچھ بھی نہیں ہوتا اور رات جیسی کوئی شئے نہیں ہے __ اور وقت کچھ بھی نہیں ہے …… عمر کے پاؤں پاؤں پھیلتے ہی،گردشِ لیل و نہار کا رقص کچھ یوں تھمتا ہے کہ کچھ بھی ہوش نہیں رہتا__
رات۔ دن __ فریبِ زندگی کے سوا کچھ بھی نہیں __
تو یہ جو ہم ہیں اور تم ہو ……
اور چھوڑو ……یہ جو ہمارے تمہارے ملنے ملانے سے کہانیاں جنم لیتی ہیں۔۔ وہ ……
میں نے آنکھیں کھولیں یہ پہلی حقیقت تھی__ آنکھیں بند ہوجائیں گی۔ یہ دوسری حقیقت ہوگی __ اور اس کے بیچ سب طلسم …… جادو…… فریب۔ عمر کے پاؤں پاؤں پھیلتے ہی،بدن سے اچانک اتنی بدبو کیوں پھوٹ پڑتی ہے ……؟
نہیں __ کوئی شیکسپئر نہیں تھا۔ گوئٹے نہیں تھا۔ جوائس نہیں تھا۔ ائن اسٹائن یا نیوٹن نہیں تھا ……
چھوٹی سی دیوار طے کرنے والے یہ مغرور کیڑے __ سب اندھیرے میں چھپ جاتے ہیں۔ بالآخر __ سب کو ایک انت اُچک لیتی ہے۔ ایک رات __
سب مرجاتے ہیں اور پتہ نہیں کیا کیا باسی، تباسی، اُباسی چھوڑجاتے ہیں۔ سردُھننے کے لئے۔ دماغ خراب کرنے کے لئے __ کچھ لوگ اسے غورو فکر کا عمل بھی قرار دیتے ہیں۔ بکواس__ سب کو عمر کے اجگر کھا گئے__
مرنے جینے کے بعد کیا ہوگا…… یہ آسمان میں رہنے والے جانیں __
کتنا بڑا گھر ہوگا؟ پتہ نہیں۔ اتنی صدیوں سے لوگ مر رہے ہیں …… مرتے جارہے ہیں۔ روزانہ __ ہر روز۔ ہر پل…… ہر لمحہ …… پتہ نہیں __ یہاں تو آبادیاں بسانے کو جنگل کٹ رہے ہیں اور قبرستان میں نئی بنیادیں پڑرہی ہیں۔ وہاں __
رات اُتر رہی ہے ……
کیوں؟
ذرا پیچھے دیکھو……؟
کتنا پیچھے __
بہت حد تک۔ پیچھے …… بہت پیچھے__
نہیں۔ اس وقت صرف سگریٹ کی طلب ہے …… ولس نیوی کٹ ۔۔__
نہیں۔ طلب کچھ اور بھی ہے _
قصے کہانیوں میں الجھ کر تھوڑے سے جذباتی ہوگئے __ کیا ملا؟
گوشت کے لوتھڑے میں ،کوئی روح اپنے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کرنے کے لئے ایک نا آباد جزیرے سے ایک انسانی جزیرے میں پہلا قدم رکھتے ہوئے خوف و تجسس سے چیختی ہے …
اور اس کے ساتھ ساتھ نکلتا ہے ایک ننھا منا سا سر__
خود غرض انسان، یہ تم تھے__ مگر، اتنا پیچھے تو مت جاؤ__
کئی کئی راتیں گزرنے تک__
اور کئی کئی دنوں کے گم ہونے تک__
لفظوں کی حقیقت بھی یہی ہے۔ سارے کے سارے لفظ اُن دنوں خرچ ہوگئے۔ توتلے لفظوں میں تو تلی باتیں …… بے معنی باتوں کے توتلے سلسلے…
یہی باتیں اچانک، بالکل اچانک اجنبی بن جاتی ہیں ……
تھوڑا آگے دیکھو……
نہیں، بس ذرا سا آگے۔ وہاں کوئلری تک
یہ وہ ’کوئلری‘نہیں ہے جو کوئلہ کی کھان کہلاتی ہے۔ یہ پنجرہ نما، یہ دربہ…… کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ … یا ایک بند بند سی چہار دیواری…… جس کے اندر بھی موت ہے اور باہر بھی__
اوپر، نیچے …… درمیان …… بہت سے خانے …… خانے در خانے …… اِن میں بہت سی مرغیاں کڑکڑا رہی ہیں ……
نہیں، کڑکڑا نہیں رہی ہیں …… اپنے اپنے وقت کی منتظر ہیں …… کب گاہک آتا ہے اور کس کی معیاد پوری ہوتی ہے ……
’کیا چاہئے صاحب …… چکن…… کتنا کیلو چاہئے ……‘
کوئلری کی خاموش کوٹھری میں ایک ہاتھ جاتا ہے …… بے رحم __ نہیں …… بس پیشہ ور ہاتھ…… وہاں جہاں بہت ساری مرغیاں …… کوئی پھڑپھڑاہٹ نہیں، حرکت نہیں …… زندگی نہیں …… اور کہیں کوئی راہِ فرار نہیں ……
اب کوئلری نہیں ہے ……
مرغیاں نہیں ہیں ……
احساس کی پھڑپھڑاہٹ نہیں ہے …… جذبات کی تپش نہیں ہے ……
میز پر ابلے ہوئے انڈے ہیں …… سلادہے…… نمکین ہے …… بون لیس چکن کی پلیٹ ہے ……
اور__
کمرے میں اتنا اندھیرا ٹھیک نہیں۔ ذرا اٹھ کر بتّی جلا لیتے ہیں …… کتنی بار سوچا کہ اس کمرے میں ایک نیلابلب ہی آجاتا…… کبھی کبھی…… یعنی اب اکیلے میں، اندھیرے میں خود سے باتیں کرنے کی خواہش ہو تو ڈیرایک ذرا زور دار ماحول بنایا جائے __ یعنی چیئرس کے ساتھ نیلا اندھیرا …… نیلے اندھیرے میں بجھی بجھی چیزوں کے روشن عکس…… دیوار پر آویزاں پینٹنگس کا ’غنودگی بھرا چہرہ‘…… ایک خوبصورت سے پینٹگس …
چیرس ایک بیحد حسین رات کے لیے…… مائی ڈیر اسلم شیرازی…… اس بات پر پیو کہ تم کچھ بھول ہی نہیں سکتے……
آگے اور پیچھے کا ہر قصہ ہر لمحہ تمہاری زبان پر ہے……
چیرس، ذرا آنکھیں مل کر، چشمہ اُتار کر آئینہ میں اپنی شکل دیکھو…… یہ تم ہو……
تم__ اسلم شیرازی……
رات اُتر رہی ہے…… کون سا مہینہ ہے ……؟ دسمبر کا ……دسمبر کی بھی کتنی تاریخ ہوگئی …
یعنی یہ سال بھی گیا……ڈھل گیا__
اور نیا سال__
دھت، اب میرے لئے کیا نیا سال، کیا پرانا سال…… سنو، کلینڈر پرانا ہوگیا ہے …… پینٹنگس پر گرد پڑگئی ہے …… کمرے میں گرد و غبار جمع ہوگئے ہیں …… لیکن اسلم شیرازی، اس سے بھی بھیانک ایک سچ ہے کہ اندر بہت سے ویرانے اکٹھے ہوگئے ہیں ……
ایک نہیں۔ دو نہیں …… بہت سے ویرانے ……
بہت سے کھنڈرات ……
جنون کی، پاگل پن کی ملٹی اسٹور یز بلڈنگس……
اور اسلم شیرازی……
اس کمرے میں نیلے بلب کی ہمیشہ کمی رہے گی۔ اس لئے کہ تم بس اس نیلے بلب کے تصور میں ہی رہ گئے۔ نیلا بلب کبھی آیا نہیں۔ تم اپنی فطرت کے مطابق اس کمرے میں ایک بلب کا اضافہ نہیں کرسکے……
دھند مجھ پر حاوی ہے ۔۔