چین دنیا میں ایک استثنا ہے۔ اتنے بڑے علاقے اور اتنی بڑی آبادی میں لوگ عام طور پر بہت مختلف طرزِ زندگی رکھتے ہیں۔ انڈیا میں 850، انڈونیشیا میں 670 اور برازیل میں 210 زبانیں ہیں۔ چین کی سوا ارب کی آبادی میں اسی کروڑ سے زیادہ مینڈرن بولتے ہیں۔ تیس کروڑ سے زیادہ سات مختلف زبانیں بولتے ہیں جو مینڈرن سے ملتی جلتی ہیں۔ یہ حیران کن ہے۔ چین میں جینیاتی فرق اس سے زیادہ ہیں۔ شمالی اور جنوبی چینیوں میں بہت فرق ہے۔ ماحول کا فرق ہے۔ الگ رہنے کی وجہ سے جینیاتی علیحدگی ہے۔ شمالی چین میں رہنے والے زیادہ دراز قد، زیادہ زرد، نوکیلی اور زیادہ لمبی ناک رکھتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود اتنے بڑے ملک میں ایک ہی جیسی زبانیں اور کلچر کیسے؟
چین میں انسانی آبادی یورپ سے کہیں زیادہ پرانی ہے۔ یورپ میں انڈو یورپی زبانوں کی آمد کے بعد چھ سے آٹھ ہزار سال میں چالیس زبانیں بن چکی ہیں جن میں انگریزی، رشین، فنش جیسی بہت مختلف زبانیں بھی شامل ہیں۔ نیو گنی میں چالیس ہزار سالہ انسانی تاریخ میں ایک ہزار زبانیں بن چکی ہیں۔ تمام آثار اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ چین بھی ایک وقت میں متنوع آبادی جگہ ہو گی، ویسے ہی جیسے تمام گنجان آباد دنیا رہی ہے۔ چین میں یکجائی کا عمل باقی دنیا کے مقابلے میں بہت پہلے ہو گیا۔ اس نے مشرقی ایشیا کے تمام ممالک کی تاریخ پر بھی گہرا اثر ڈالا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چین میں 130 “چھوٹی” زبانیں ہیں، جن میں سے اکثر کے بولنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ تمام زبانوں کو ملائیں تو چار خاندان بنتے ہیں۔ مینڈرن اور اس کے بولنے والوں کا خاندان شمال سے جنوب تک پھیلا ہوا ہے۔ چین میں بولی جانے والی زبانوں کا نقشہ ساتھ لگا ہے۔ اس کو غور سے دیکھنے پر کئی دلچسپ چیزیں نظر آئیں گی۔ میاوٗ یاوٗ خاندان کی پانچ زبانیں بولنے والے الگ الگ ٹکڑوں میں بکھرے ہوئے ہیں، ایسا ہی آسٹروایشیائی فیملی کے ساتھ ہے، جس کو بولنے والے چین کے کچھ علاقے کے علاوہ شمالی انڈیا اور ویت نام میں بکھرے ہوئے ہیں۔ یہ ویسے ہے جیسے پاکستان میں کوئی زبان صرف گھوٹکی اور سیالکوٹ میں بولی جاتی ہو۔ ایسا کیوں؟
ظاہر ہے کہ ایسا تو نہیں تھا کہ میاوٗ یاوٗ بولنے والے کسی قدیم ہیلی کوپٹر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوئے۔ یہ بڑے علاقے پر بولی جاتی تھی۔ یہ ٹکڑے مینڈرن کے پھیلنے کی وجہ سے ہوئے۔ درمیان میں رہنے والوں کو اپنی زبان ترک کرنا پڑی اور یہ عمل ہمیں تاریخ میں نظر آتا ہے۔ تھائی، لاوٗ، برمی زبان بولنے والے جنوبی چین سے نکلے تھے۔ چینی زبانیں بولنے والے جارحانہ مزاج کے اور دوسروں پر اپنا کلچر مسلط کرنے والے تھے۔ چین میں ژو خاندان کی 1100 قبلِ مسیح سے 221 قبلِ مسیح کی ریکارڈڈ نتاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ غیرچینی آبادی اور زبان کو کس طرح چینی میں جذب کیا گیا۔
جب ہم لسانی گھڑی کو الٹا گھماتے ہیں تو نتیجہ نکلتا ہے کہ شمالی چین میں وہ لوگ تھے جو مینڈرن (چینی) اور اس سے ملتی جلتی زبانیں بولتے تھے۔ جنوبی چین میں میاوٗ یاوٗ، آسٹروایشیائی اور تائی کیدائی زبانیں بولی جاتی تھیں۔ شمالی چین سے آنے والوں نے جنوبی چین والوں کو اور انکا کلچر تبدیل کر دیا۔ اس سے زیادہ ڈرامائی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسی اثنا میں جنوبی چین سے نکلنے والوں نے تھائی لینڈ، میانمار، لاوٗس، کمبوڈیا، ویتنام اور ملیشیا تک پھیل کر یہاں کی زبانوں کو پچھاڑ دیا اور یہاں جو بھی بولا جاتا رہا تھا، اب باقی نہیں رہا۔ یہ تبدیلی ویسے ہی تھی جیسا کہ شمالی اور جنوبی امریکہ میں بولی جانے والی مقامی زبانیں معدوم ہو گئیں اور ان کی جگہ انگریزی اور ہسپانوی نے لے لی۔
ہمیں پتا ہے کہ ایسا نہیں تھا کہ امریکہ کی مقامی آبادی کو انگریزی بھلی لگتی تھی بلکہ اس کی وجہ مقامی آبادی کا نووارددں کی آمد کے بعد بیماریوں یا قتل کے ذریعے صفایا ہو جانا تھا۔ اور بہتر ٹیکنالوجی اور سیاسی تنظیم کی وجہ سے ایسا ممکن ہوا ہوا تھا اور اس کی وجہ اس خطے میں کوئی جغرافیائی ایڈوانٹیج تھا۔ جس طرح امریکہ یا آسٹریلیا میں انگریزی گئی۔ افریقہ میں خطِ استوا سے جنوب میں پگمی اور خوئسان کو بانتو نے ختم کر دیا، اسی طرح جنوبی چین سے آئی زبانوں نے مشرقی ایشیا کی زبانوں کو۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر چین میں ایسا کیا تھا کہ یہاں سے نکل کر زبان اور کلچر جنوب مشرقی ایشیا تک پھیلا؟ اس کے لئے ہمیں آرکیولوجی سے مدد لینا پڑے گی کہ کچھ ایشیائی دوسروں سے آگے کیسے نکل گئے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا میں باقی جگہوں کی طرح مشرقی ایشیا میں بھی زیادہ تر تاریخ میں ہمیں قدیم طرزِ معاشرت کے آثار نظر آتے ہیں، پتھروں کے اوزار اور بغیر کسی برتن کے۔ سب سے پرانے تہذیبی آثار چین میں ملتے ہیں جہاں فصلوں کی باقیات، پالتو جانوروں کی ہڈیاں، برتن، پالش کئے گئے پتھروں کے اوزار ہیں۔ یہ تقریباً اتنا ہی پرانا ہے جتنا مشرقِ وسطیٰ کی تہذیب یعنی دس ہزار سال پہلے۔ چین دنیا کے ابتدائی مرکزوں میں سے تھا جہاں جانور پالنا اور فصلیں اگانا شروع ہوا اور چین میں یہ دو الگ جگہوں پر ہوا۔
شمال میں سرد اور خشک جگہ ہے جنوب میں گرم مرطوب موسم ہے۔ دونوں مقامات پر الگ نباتات تھیں جن سے زرعی فصلیں بنیں۔ شمال میں ابتدائی فصل باجرے کی دو انواع جبکہ جنوب میں چاول ہیں۔ ان کے ساتھ ہی کتے، مرغی اور سور کی باقیات بھی نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ان کے بعد بھینس جس کو ہل چلانے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا، ریشم کا کیڑا، بطخ اور مرغابی کو سدھایا گیا۔ سویابین، حشیش، مالٹا، چائے، خوبانی، آڑو اور ناشپاتی کا اس میں اضافہ ہوا۔
مغربی ایشیا سے سدھائے گئے جانور اور پودے جلد ہی یہاں پر پہنچ گئے جس میں گائے اور گھوڑا جبکہ کسی حد تک بھیڑ اور بکری تھی۔ گندم اور جو کا اضافہ بھی مغربی ایشیا کے ذریعے یہاں پہنچا۔
اضافی خوراک نے کانسی کی دھات سازی شروع کی اور یہ علاقہ چھٹی صدی قبلِ مسیح میں ہونے والی کاسٹ آئرن کی پیداوار میں سب سے پہلے تھا۔ اگلے ڈیڑھ ہزار سال میں چینی ٹیکنالوجی کی جدتوں کا سیلاب رہا۔ کاغذ، قطب نما، ہاتھ ریڑھی، گن پاوؐڈر سب سے پہلے یہاں ایجاد ہوئے۔ قلعہ بند شہر پانچ ہزار سال قبل بسنا شروع ہو گئے۔ زیبائش والی قبریں اور پھر سیاستدان اور سوسائٹی جہاں پر حکمران عوام کو متحرک کر کے ان سے عظیم محل، بڑی دیواریں بنوا سکتے تھے اور ان سے دنیا کی سب سے لمبی نہر کھدوائی گئی جس کی لمبائی ایک ہزار میل تھی۔ کم ازکم چار ہزار سال پہلے لکھائی آ چکی تھی۔ زیا خاندان کے لکھے ہوئے ریکارڈ 2000 قبلِ مسیح کے محفوظ ہیں۔
خوراک کی پیداوار کا سائیڈ ایفیکٹ وبائی امراض ہیں۔ انفلوئنزا، طاعون اور شاید چیچک بھی یہاں سے شروع ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چین کا سائز اور ایکولوجی میں تنوع زیادہ تھا۔ مقامی کلچر کئی تھے اور ہم انہیں برتنوں اور دوسری چیزوں کے بنانے کے طریقے کے فرق سے پہچان لیتے ہیں۔ الگ مراکز والے کلچرز نے پھیلنا شروع کیا۔ مقابلہ شروع کیا۔ ایک دوسرے سے ٹیکنالوجی کا تبادلہ ہوتا رہا، تجارت چلتی رہی۔ جنگوں کی وجہ سے علاقائی چیف مضبوط ہوتے رہے۔ شمالی اور جنوبی چین کے درمیان کوئی صحرا یا پہاڑ نہیں۔ لمبے دریا اور آسان راستے ہیں۔ نہریں نکالی جا سکتی ہیں۔ شمال اور جنوب کے اس میل ملاپ سے کلچرل فرق بھی کم رہے۔ لوہا سازی اور چاول جنوب سے شمال کی طرف گئے لیکن زیادہ تر چیزیں شمال سے جنوب کی طرف آئیں۔ لکھائی کا رسم الخط صرف شمال میں بنا اور جلد ہی جنوب میں بھی پھیل گیا۔ قدیم محفوظ لکھائی یہ بتاتی ہے کہ آج سے تین ہزار سال پہلے چینی اپنے آپ کو کلچرلی باقی دنیا سے برتر سمجھتے تھے اور دوسروں کو اجڈ کہتے تھے۔ شمال والے جنوب والوں کو بھی ایسا ہی کہتے تھے۔ “کچا کھانا کھا لینے والے، غار میں رہنے والے، کھال سے پوشاک بنانے والے، جسم پر نقش کھدوانے والے جنگلی لوگ”، یہ الفاظ چین میں قبائل کے لئے لکھے گئے ہیں۔
چن خاندان میں لوگوں کو مہذب کرنے کے کام نے تیزی پکڑی۔ اس میں دوسروں کے لکھے گئے الفاظ اور کتابوں کو جلا دینے کا حکم بھی ہے۔ “جاہل اور اجڈ” لوگوں کو مہذب بنانے کے احکام بھی۔ شمالی چین سے آنے والا کلچر جبراً پھیلنے لگا۔ جب تک ژو خاندان کی حکومت 221 قبلِ مسیح میں ختم ہوئی، چین ایک سیاسی اکائی بن چکا تھا، جہاں پر سب چینی بولتے تھے اور ایک بڑا اور مشترک کلچر رکھتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشرقی ایشیا چین کے جلد آغاز کا مقابلہ نہیں کر سکا جہاں پر خوراک، ٹیکنالوجی، لکھائی، ریاست کی تشکیل جلد ہو چکی تھی۔ مشرقی ایشیا ابھی قدیم طرزِ زندگی والوں سے آباد تھا جو ابھی پتھر سے اوزار بناتے تھے۔ چینی کلچر، لوگ، زبان، فصلوں اور جانوروں نے برما، لاوٗس، تھائی لینڈ پر غلبہ کر لیا۔ چین کا سٹیم رولر اس قدر طاقتور تھا کہ قدیم آبادی سے صرف ملیشیا کے سیمانگ، انڈیمان کے لوگ اور سری لنکا کے ویڈوائڈ نیگریوٹو بچے جو یہ بتاتے ہیں کہ جنوب مشرقی ایشیا کے ابتدائی آبادکار سیاہ جلد اور گھنگریالے بالوں والے تھے۔ انڈیمان جزائر کے سوا باقی سب کی سینکڑوں زبانیں بھی چین سے آنے والوں نے معدوم کر دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوریا اور جاپان پر بھی چین کا گہرا اثر رہا۔ جغرافیائی رکاوٹ کی وجہ سے ان کی زبان اور جینیاتی علیحدگی تو محفوظ رہی لیکن کوریا اور جاپان نے چین سے چاول اپنائے، کانسی کی دھات سازی حاصل کی، لکھائی لی اور پھر گندم اور جو پہنچے۔
مشرقی ایشیا کی تہذیب میں چین کا اہم کردار ہے۔ اتنا زیادہ کہ اگرچہ جاپانی زبان کا رسم الخط چینی سے لیا گیا ہے اور جاپانی لکھنے کے لئے موزوں نہیں لیکن جاپان اس کو ترک کرنے یا بدلنے کا نہیں سوچ سکتا۔ کوریا نے پچھلی چند دہائیوں میں آ کر اس رسم الخط میں کچھ ترمیم کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج سے دس ہزار سال پرانے جانوروں اور پودوں کے جلد سدھائے جانے کے باعث، مشرقی ایشیا کے ابتدائی کاشتکاروں کی وجہ سے، اب اکیسویں صدی میں چین میں چینی بستے ہیں اور تھائی لینڈ سے لے کر ایشیا کے مشرق تک کے لوگ نسلی طور پر ان کے قریبی رشتہ دار ہیں۔