ہَوا تیز چل رہی ہے۔ میلبورن شدید سردی کی آہنی گرفت میں ہے۔ 176 سال پہلے جب اس شہر کی بنیاد پڑی تو یہ ایک گائوں تھا۔ دور افتادہ گائوں، چند جھونپڑیوں کا مجموعہ۔ ایک سو چھہتّر سال کے عرصہ میں گروہِ کفار نے اس گائوں کو دنیا کے تین بہترین شہروں میں شامل کرا لیا۔ بہترین یونیورسٹیوں کے لحاظ سے یہ دنیا کے دس اولین شہروں میں ہے۔
ہَوا تیز چل رہی ہے۔ میرے گھر والے ”داستان“ ڈراما دیکھ رہے ہیں جو حال ہی میں کسی پاکستانی چینل پر چلا ہے۔ تقسیم کے وقت سکھوں نے مسلمانوں پر جو ظلم کئے، وہ اس میں دکھائے گئے ہیں۔ میلبورن کی اس چار دیواری میں سوگ برپا ہے۔ مسلمان لڑکی کو سکھوں نے پکڑ لیا ہے اور وہ ایک بچے کی ماں بن گئی ہے۔ ایسی ہزاروں مسلمان عورتیں مشرقی پنجاب میں رکھ لی گئیں۔ ہزاروں نے کنووں میں چھلانگیں لگا کر موت کو گلے سے لگا لیا۔
پاکستان کےلئے کتنی قربانیاں دی گئیں۔ لاکھوں لاشیں، ہزاروں عورتوں کا اغوا، کس لئے؟ تاکہ مسلمان ،ہندوئوں اور سکھوں کے ظلم سے بچ کر الگ رہ سکیں ۔ تاکہ انصاف مل سکے۔ تاکہ میرٹ کا بول بالا ہو۔ تاکہ مسلمانوں کے غریب بچوں کا ہندوئوں کے ہاتھوں استحصال نہ ہو۔ میرے گھر والے سکھوں کے مظالم پر افسردہ ہیں۔ میں پاکستانی اخبارات پڑھتا ہوں۔ لاکھوں مسلمانوں کی قربانیاں، شہیدوں کا لہو، مسلمان بیٹیوں اور بہنوں سے اٹے ہوئے اندھے کنوئیں، سکھوں کے گھروں میں سسک سسک کر جبراً رہنے والی مسلمان عورتیں، کیا اس لئے کہ آج ہم پر یوسف رضا گیلانی جیسے قانون پسند اور دیانت دار گدی نشین حکمرانی کریں؟ میرٹ! کون سا میرٹ؟ انصاف، کون سا انصاف؟ غریب بچوں کےلئے یکساں مواقع۔ کون سے مواقع؟
میں انٹرنیٹ پر اخبارات دیکھتا ہوں۔ میرے کانوں میں مسلمان عورتوں کی چیخیں گونج رہی ہیں۔ میری آنکھیں آج کا پاکستان دیکھ رہی ہیں۔ وزیراعظم کے دفتر کو سرکاری خزانے سے ایک رقم مہیا کی گئی تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ غیر ملکی مہمانوں کو مناسب تحفے دئیے جائیں اور مستحق غربا کو امداد دی جائے۔ خزانے کی اس مد کا نام
ID-2008
تھا۔ اسے ہیڈ آف اکائونٹ کہتے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم نے اس میں سے ایک کروڑ پانچ لاکھ روپے اپنے دفتر میں کام کرنے والے تنخواہ دار افسروں اور سٹاف کے کھانوں پر خرچ کر دیے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ ان ملازمین کو مفت ناشتہ، مفت دوپہر کا کھانا اور مفت عشائیہ مہیا کیا جائے گا۔ اس کےلئے انہوں نے اپنی جیب سے نہیں، عوام کے ٹیکس سے رقم نکالی۔ اوسطاً روزانہ تیس ہزار روپے اس عیاشی پر لگے۔ یاد رہے کہ ان کے دفتر میں کام کرنے والے ملازمین کو تنخواہ کے علاوہ خصوصی الائونس، اور ان کے گھروں میں خرچ ہونے والی بجلی اور گیس کےلئے الگ رقم دی جاتی ہے۔ گویا اگر باقی ملازم چوبیس گھنٹے کام کرتے ہیں تو وزیراعظم کے دفتر میں کام کرنے والوں کے دن اور راتیں زیادہ لمبی ہیں! جب پبلک اکائونٹس کمیٹی نے اعتراض کیا تو خزانے کے صالح افسروں نے اس مقصد کےلئے نئی مد یعنی حسابات میں نئی گنجائش رکھ دی! سوال یہ ہے کہ وہ سارے سرکاری ملازم جو وزیراعظم کے سیکرٹریٹ میں کام نہیں کر رہے کیا بھارت کے ملازم ہیں؟ کس انصاف اور کس میرٹ کے تحت وزیراعظم کے دفتر میں تیس ہزار روزانہ کھانے پر خرچ ہو رہا ہے؟صوبوں اور نیم خود مختار اداروں میں لاکھوں دیانت دار ملازمین مغرب کے بعد تک کام کرتے ہیں!
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کے چیئرمین ایاز صادق نے کہا ہے کہ انہوں نے ریلوے کو موت سے بچانے کے لئے مفصل تجاویز پیش کی تھیں لیکن ”نااہل وزیراعظم اور ان کی کابینہ نے اس میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔“ ایاز صادق نے الزام لگایا ہے کہ کمیٹی نے بھیانک صورت حال سے ریلوے کو نکالنے کےلئے ایک قابل عمل منصوبہ دیا لیکن وزیراعظم نے کمیٹی کو کوئی اہمیت نہ دی حالانکہ کمیٹی پارلیمنٹ کی نمائندگی کر رہی تھی اور اس میں پیپلز پارٹی سمیت ساری سیاسی جماعتیں شامل تھیں! حکومت کی ”اہلیت“ کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ کابینہ کا منظور شدہ گیارہ ارب روپے، وزارت خزانہ سے نکلوایا ہی نہ جا سکا! ایاز صادق نے ریلوے کی موت کی تین وجوہات بتائیں، اول : حکومت کا سوتیلا سلوک، دوم : بے پناہ کرپشن اور سوم : بدعنوان افسروں اور بدعنوان عملے کا مکمل عدم احتساب! حرام کھانے کی سطح اتنی پست ہو چکی ہے کہ ملاوٹ والے تیل کی وجہ سے ایک سو اٹھانوے انجن بیکار ہو چکے ہیں، ملاوٹ کرنے والے کھلے عام دندنا رہے ہیں!
سرکاری ہسپتالوں کے سربراہوں کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے سیکرٹریٹ میں طلب کیا گیا ہے اور انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ بھرتی اُس فہرست کے مطابق ہونی چاہئے جو فہرست وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ سے ”مہیا“ کی گئی ہے۔ یہ خبر اخبارات میں کھلے عام شائع ہوئی ہے کہ بچوں کے ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر احسن وحید راٹھور کو بتا دیا گیا ہے کہ اگر انہوں نے پارٹی کے پسندیدہ امیدواروں کو ملازمت نہ دی تو انہیں او ایس ڈی بنا دیا جائے گا۔ ڈاکٹر راٹھور نے یہ گستاخی کی تھی کہ نااہل امیدواروں کو مستقل اسامیوں پر بھرتی کرنے سے معذرت کی تھی۔ لیڈی ولنگڈن ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر افضل اور جناح ہسپتال کے ڈاکٹر افضل شاہین نے بھی وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ میں یہی کہا کہ جن امیدواروں کےلئے دبائو ڈالا جا رہا ہے وہ نااہل ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے پاس جب فریادی گئے کہ بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر ہو رہی ہیں تو ہائی کورٹ نے فیصلہ آنے تک بھرتیوں سے منع کر دیا لیکن اس کا حل قانون کے صوبائی حکیموں نے یہ نکالا ہے کہ وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ کے احکام کے مطابق بھرتی کے خطوط جاری کر دئیے جائیں اور ہائی کورٹ کو آنکھ مارنے کے لئے اُن پر لکھ دیا جائے کہ
These orders are issued subject to the final decision of the writ petition No 15815/2011
گویا عدالتی احکام سے بچنے کےلئے دائرے کے اندر گھومنے کی مضحکہ خیز حرکت صرف وفاقی حکومت نہیں کر رہی۔ حسبِ توفیق سب لگے ہوئے ہیں۔
آپ نے سُنا ہو گا کہ مرکز کی وزارتوں کے کام صوبوں کو سونپ دیے گئے ہیں۔ لیکن اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ مرکز کے وزیروں کی تعداد کم ہو جائے گی اور اخراجات گھٹ جائیں گے تو آپ غلط فہمی میں ہیں۔ پہلے ڈاکخانے کے محکمے کےلئے الگ سیکرٹری اور وزیر رکھے گئے تھے۔ اب تین مزید وزارتیں ”پیدا“ کی گئی ہیں۔ یہ فیصلہ دو دن پہلے ہُوا ہے۔ ایک وزارت افرادی قوت کی، ایک قومی یکجہتی کی اور ایک پیشہ ورانہ تربیت کی۔ شنید یہ ہے کہ ان اہم نئی وزارتوں پر قاف لیگ کے جمہوری مجاہدوں کو فائز کیا جائے گا۔ مزید ”بچت“ کرنے کےلئے اور بھی بہت کچھ کیا جا رہا ہے۔ ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ کو کھپانے کےلئے ایک اور نئی اسامی نکالی گئی ہے۔ اس پوسٹ کا نام ”کوآرڈی نیٹر“ رکھا گیا ہے۔ تنخواہ لاکھوں میں ہو گی جسے ایم پی ون سکیل کہتے ہیں۔ کیا عجب کل اس قسم کی ”ضروری“ اسامیاں باقی وزارتوں میں بھی پیدا کر لی جائیں۔ ایک اور ریٹائرڈ ملازم کو وزیراعظم کا پریس سیکرٹری مقرر کیا گیا ہے۔ یہ اور بات کہ سپریم کورٹ نے ریٹائرڈ ملازمین کو دوبارہ رکھنے سے منع کیا ہوا ہے۔
باہر ہَوا زور سے چل رہی ہے۔ میلبورن شدید سردی کی لپیٹ میں ہے اندر ڈرامہ ”داستان“ چل رہا ہے۔ سکھوں کے نرغے میں آئی ہوئی مسلمان عورتوں کی چیخیں سنائی دے رہی ہیں۔ ڈرامہ دیکھنے والا ایک بچہ غصے سے مُٹھیاں بھینچ کر چیختا ہے ”میں سکھوں کو قتل کر دوں گا“ ہزاروں لاکھوں مسلمان عورتوں نے …. فرشتے جن کی عصمت پر گواہی دیتے تھے …. پاکستان کےلئے قربانیاں دیں۔ انصاف کےلئے، میرٹ کےلئے!
انصاف؟ ہاں انصاف! سہیل احمد کو او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے کیوں کہ اُس نے عدالتِ عظمیٰ کا حکم مانا تھا۔ حسین اصغر کو گلگت بھیج دیا گیا ہے کیوں کہ اس نے حج کرپشن کیس میں وزیراعظم کے فرزند ارجمند سے پوچھ گچھ کرنے کی گستاخی کی تھی۔ ایک سینئر وزیر کے اکائونٹ میں چار کروڑ روپے آئے جو واپس کر دیے گئے، کیوں آئے تھے؟ یہ معلوم کرنے کےلئے کسی سہیل احمد کسی حسین اصغر کو اجازت نہیں دی جائے گی۔
انصاف، میرٹ……..
مسلمان عورتوں کی چیخیں….
لاکھوں لاشیں، لہو ، قربانیاں….
وہ دیکھو …. باہر تیز ہوا چل رہی ہے!