چیخ و پکار اور درد (2)
کرکیگارڈ
——————
کرکیگارڈ نے جس ریجنا سے دو دن پیلے محبت کا اظہار کیا تھا منگنی کے دوسرے دن پی اسے احساس پوا کی منگنی والا اقدام انتہائی غلط اقدام ہے " مجھے کبهی منگنی نہیں کرنی چاہیے تهی تاہم اس لمحے کے بعد ریجنا کے ساتھ میرا برتاو دیانتدرانہ تها- جمالیات اور شجاعت کے نقطہ نظر سے میں اس سے اعلی تر مفہوم میں محبت کرتا تھا جتنی کہ وہ مجھ سے کرتی تهی، کیونکہ اگر میں اپنی آئندہ شریک حیات کے طور پر اس کا اپنے سے زیادہ احترام نہ کرتا تو اس سے شادی رچا لیتا، بے شمار باتیں شادی میں چھپائی جاتی پیں مگر مجھے یہ منظور نہیں تها ایسا ہوتا تو وہ میری داشتہ بن کر رہ جاتی "
کرکیگارڈ کے نزدیک بیاہ کی خاطر ضروری تها کہ وہ ریجنا کے روبرو اپنے باپ کے گناہ ماں کی رسوائی اور خود اپنی گناہ آلودہ زندگی کا اقرار کرے ، جس کے لیے وہ خود کو تیارنہ پاتا تها' اسے یہ غم کهائے جا رہا تھا کہ وہ ریجنا کو اپنی غیر معمولی زندگی میں شریک نہیں کرسکتا، کرکیگارڈ کو محسوس ہوتا تھا کہ منشائے تقدیر اور ہی کچھ ہے
اس تصور نے ہمارے فلسفی کو شدید احساس جرم میں مبتلا کر دیا کہ وہ اپنی محبوبہ کو اپنی خامیوں سے اگاہ کئے بغیر اپنا لے – ضمیر کے حد سے بڑهے ہوئے احترام نے اسے تکمیل آرزو سے حاصل پونے والی مسرت سے دانستہ دست بردار پونے پر مجبور کر دیا – یہاں وہ اپنا موازنہ سقراط سے کرتا پے جس نے اپنے معاصرین کی مخالفت بلکہ زندگی پر بھی ضمیر کے تقاضوں کو ترجیح دی-
ریجنا کرکیگارڈ کی منگنی پانچ ادوار سے گزری– اولین چند مہینوں پہ مشتمل تھا جب کرکیگارڈ نے اپنی منگیتر دلآویز کو پر ممکن طریقے سے خوش رکھنے کی کو شش کی غالبا وی اپنے تئیں اس کے اہل ثابت کرنا چاہتا تها — دوسرا دور ریجنا کی لا پروائی سے عبارت ہے – ایک مرتبہ تو اس نے یہاں تک کہہ دیا " میں تم سے محض اس لیے محبت کرتی ہوں کہ مجھے تم پر رحم آتا ہے" اس ادائے بے نیازی سے کرکیگارڈ بہت دل برداشتہ پوا – تیسرا دور غفلت کیش ریجنا نے اپنے کیئے پر پچھتاتے ہوئے خود سپردگی کا رویہ اختیارکیا اور کامل محبوبہ بن گئی – ایک بار اس نے کرکیگارڈ کو کرسی پر بیٹھایا اور اظہار محبت کے لیے اس کے قدموں میں جھک گئی ' محبت اور خود سپردگی کا یہ انداز ہمارے ذہین فلسفی کو راس نہ آیا اود اس کی افسردگی از سر نو پلٹ آئی- چھوتے دور میں کرکیگارڈ نے فیصلہ کر لیا کہ اب یہ کھیل ختم ہونا چاہیے چنانچہ اس نے منگنی کی انگوٹهی لوٹاتے پوئے خط میں لکها" اس شخص کو معاف کر دو جو کچھ اور تو کر سکتا پو لیکنایک لڑکی کو خوش نہیں کر سکتا-
یہ خط 11 اگست1841 کو لکھا گیا – ریجنا کو خیال گزرا کہ اسے پھر افسردگی اور جنون کا دورہ پڑا ہے خط پڑھتے ہی وہ پارے فلسفی کے ہاں بهاگی بهاگی آئی لیکن وہ وہاں موجود نہین تھا اس نے ایک رقعہ لکھا جس میں منگنی نہ توڑنے کی التجائیں کیں ریجنا کے باپ نے بھی اپنے طور پر منت سماجت کی لیکن محبوبہ کی التجائیں آنسو اور باپ کی خوشامد اور خود کرکیگارڈ کی اپنی خواہش بھی اس کا ارادہ نہ بدل سکی
منگنی کا پانچواں اور آخری دور دو ماہ پر محیط پے
کرکیگارڈ نے اپنے مقالے" طنز کا قصور " کے دفاع تک منگنی کا رشتہ برقرار رکھنے پر رضامند یوگ اس دوران ریجنا نے گم گشتہ محبت کی بازیابی کی پر ممکن سعی کی – جب کبھی کرکیگارڈ اس خدشے کا اظہار کرتا کہ وہ دونوں خوشگوار ازدواجی زندگی بسر نہ کر سکیں گے تو وہ فورا جواب دیتی " میں تمہاری خاطر ہر دکھ اٹھانے کو تیار ہوں " دوسری طرف کرکیگارڈ کی کوشش یہ تھی کہ حالات کوئی ایسا رخ اختیار کر جائیں کی ریجنا اس سے دل برداشتہ ہو جائے – جب یہ نہ ہوسکا تو اس نے 11 اکتوبر 1841 کو یک طرفہ طور پر منگنی توڑ دی اس واقعے کا ذکر کرتے پوئے وہ لکھتا ہے " میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ اسے بر بھلا کہا لیکن اس کے بغیر چارہ نہ تھا "
ریجنا سے ملنے کے بعد وہ تھیڑ دیکھنے گیا کھیل جب ختم پوا تو کرکیگارڈ کی ملاقات ریجنا کے باپ سے ہوئی جس نے کرکیگارڈ کو کیا " ریجنا بہت زیادہ آرزدہ خاطر ہے یہ واقعہ اس کے لئیے موت کا بہانہ بن جائے گا " کرکیگارڈ نے جواب دیا میں اسے مطمئن کرنے کی کوشش کروں گا تاہم معاملہ ختم ہوچکا ہے"
دوسرے روز ریجنا کے باپ نےکرکیگارڈ کو کہلا بیججا " میں شب بھر جاگتا ریا ہوں خدا کے لیے ایک بار تو اس سے مل لو" پیغام ملنے پہ ہمارا فلسفی ملنے چلا گیا ریجنا نے اسے دیکھتے ہی کہا " میں نے تمہیں اگر کوئی دکھ دیا ہے تو مجھے معاف کر دو" کرکیگارڈ نے کیا معافی تو مجھے مانگنی چاہیے " اس پر ریجنا نے الوداعی پیار کرنے کی التجا کی اس بات نے کرکیگارڈ کو اور بھی رینجیدہ کر دیا – دن افسردگی و پراگندگی میں بسر ہوا اور رات سسکیاں بھرتے گزری تاہم صبح وہ ہشاش باش تھا اگر چہ محبوبہ کی یاد کبھی اس کے دل سے محو نہ پو سکی
اس,المیہ کے برسوں بعد کرکیگارڈ نے لکھا " آٹھ برس بیت گئے لیکن میں پنوز روزانہ اس کے لیے دعا کرتا ہو"" ، ریجنا نے کبھی کہا تھا تم نے اگر,مجھ سے بے وفائی کی تو میں خود کشی کر لوں گی محبت ذدہ کرکیگارڈ نے اسے سچ تصور کر لیا تھا قطع تعلق کے بعد ریجنا نہ صر ف زندہ رہی بلکہ تهوڑے ہی عرصے بعد اس نے ایک دوسرے شخص سے منگنی بھی کر لی تو کرکیگارڈ پکار اٹها
""اس نے صرف چیخ و پکار کا انتخاب کیا اور میں نے درد کا"""
پینتیس برس کی عمر می. کرکیگارڈ سال خوردہ نظر آتا پے اس کے بال سفید یو چکے تھے اور اعضا جواب دے چکے تهے- باایں پمہ یہ زمانہ اس کی تخلیقی قوتوں کے بھر پور اظہار کا عہد تھا ایک سال میں اس,نے تین ممتاز کتب Training ln Chris Tianiry the sickness unto death اور the point of view تصنیف کیں
2 اکتوبر 1855 کو وہ ایک گلی میں بے سدھ یو کر گرا پڑا تھا اسے شفا خانے لے جایا گیا لیکن صحت بحال نہ ہو سکی – غالبا اس کو اپنے روگ کا شعور تھا کینے لگا میرا دکھ روحانی پے علاج معالجے سے کچھ حاصل نہ ہو گا
اس واقعے کے چھوتے روز وہ جسمانی طور پہ زندہ نہ ریا
——
نوٹ —' اس مضمون کو لکھنے میں میں نے فہیم شناس کاظمی کی ترجمہ اور ترتیب دی گئی کتاب
"" سارتر کےمضامین"" سے مدد لی پے شکریہ فہیم شناس کاظمی جی
—————————–
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“