چیخ و پکار اور درد
———————————————–
ڈنمارک کے فلسفی سورین کرکیگارڈ کو عام طور پہ جدید وجودیت کا باوا آدم قرار دیا جاتا ہے —اس کو اور اس کے فلسفے کو پڑھنے سے پیلے ضروری ہے کہ ہم کر کیگارڈ کی سر گزشت حیات کو بھی پیش نظر رکهیں
کرکیگارڈ کی مخصوص شخصیت کی تشکیل میں اس کے باپ مائیکل کرکیگارڈ نے نمایاں کردار ادا کیا — وہ ایک ذی ثروت شخص تھا جس کا بچپن انتہائی مفلسی کے عالم میں گزرا — بعد ازاں جب کسی عزیز کی عنات سے اس کے دن بدلے تو وہ کوپن پین میں وسیع کاروبار کا مالک بن گیا
ا—
مائیکل کرکیگارڈ کی زندگی کے دو واقعات نے اسے شدید
احساس گنا اور اس سے پیدا شدہ ذہنی کشمکش ، انتشار ،مایوسی ، افسردگی اور پچھتاوے کا شکار بنا دیا– پہلے واقعہ کاتعلق اس کے بچپن سے تھا کی اس نے مفلوک الحال سے افسردہ خاطر ہو کر خداوند مقدس کو برا بھلا کہا تھا – دوسرا گناہ عالم شباب میں سرزد خرد ہوا – جب اس نے اپنی محبوبہ رفیقہ حیات کی رحلت کے بعد اس کی کنیز سے زنابالجبر کا ارتکاب کیا اور جونہی وہ حاملہ پوئی اس سے شادی رچا لی- اس تر دامنی کے احساس,نے مائیکل کرکیگارڈ کی زندگی کو اجیران بنا دیا – رفتہ رفتہ وہ اس وہم میں مبتلا پو گیا کہ آسمانی قوتیں اس سے بدلی لینے پہ تلی ہوئی ہیں — باپ نے یہی خوف و دہشت اور یہی افسردگی و مایوسی بیٹے کو منتقل کر دی- چنانچہ چند ہی سال کے دوران کرکیگارڈ کے والدین اور پانچ بہن بهائی کی یکے بعد دیگرے انتقال کر گے–
بہت عرصے بعد کر کیگارڈ کی ریجنااولسن نامی ایک دوشیزہ سے اس کی آشنائی پوئی اور وہ لکھنے پڑھنے میں اس کی مدد کرنے لگا– اور اس کے دل میں اس کے لیے محبت کی چنگاری بھڑک اٹهی لیکن وہ جرات اظہار نہ پاسکا اور چپکے چپکے اس آگ میں سلگتا رہا — یہاں تک کی 8 ستمبر 1840 کو وہ اس عزم کے ساتھ گھر سے نکلا کہ آج بہر صورت محبوبہ سے حال دل کہے گا –
" ریجنااولسن کے گھر کے سامنے گلی میں ہماری مڈ بھیڑ پوئی – اس نے بتایا کہ گھر میں کوئی فرد موجود نہیں – مجھے بھی ایسے ہی موقعے کی تلاش تهی –
نشست گاہ میں پم دونوں بیٹھے تھے کہ میں نے اس سے پیانو چھیڑنے کی فرمائش کی لیکن دل نہ بہل سکا – تب میں نے اچانک موسیقی کی کتاب اٹھائی اور اسے پیانو پر پھینکتے پوئے کیا – مجھے موسیقی سے کیا لینا دینا
، میں تو دو برس سے تمہاری آرزو کرتا چلا آیا ہوں""
سترہ سال ریجنااولسن اس بے باکانہ اظہار محبت پہ میر بلب رپی لیکن دوسرے ہی روز اس نے بھی اقرار محبت کر لیا چند روز بعد دونوں کی منگنی یو گی
یہیں سے ایک درد ناک المیہ کی ابتدا ہوتی پے
(جاری)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“