چائے کی ٹھنڈی پیالی۔۔۔
میرے سامنے رکھی چائے کی پیالی گرم بھاپ اڑا اڑا کر ٹھنڈی ہوچکی تھی۔ آج موسم سرد تھا اور کہر نے فضاء کو لپیٹ میں رکھا تھا۔ معاً خیالات کے بھنور سے میں چونک نکلا۔ پشت پر قریب آتی آہٹ کی طرف گردن موڑی۔ وہ گیلے بال کھولے میری طرف بڑھ رہی تھی۔ شائد بارش شروع ہوچکی تھی، اور وہ اس میں بھیگ کر آئی تھی.
آہستگی سے قریب آکر اس نے دونوں ہاتھ پشت سے میرے کندھوں پر رکھے۔ زلف سے ٹپکے سرد پانی کا ایک قطرہ میری گردن پر ڈھلکا اور ریڑھ کی ہڈی پر سے سرسراتا ہوا گزر گیا۔ میں نے جھرجھری سی بھری اور مڑی گردن ڈھلکا دی۔ دھیرے سے ان کا چہرہ میرے کندھے پر جھکا، لب میری کنپٹی کو چھونے لگے، میں نے گرم سانسوں کی حدت محسوس کی۔ ہلکی سی سرگوشی رس گھولتی میری سماعت میں جذب ہوئی۔۔۔
چائے ٹھنڈی ہوگئی۔۔۔؟
میں نے اثبات میں سر کو ہلکی سی جنبش دی،
کوئی بات نہیں۔۔۔ نرم سی آواز کان کے پاس ابھری۔۔۔
چائے پھر سے گرم کرلیں گے، ایک توقف کے بعد دوبارہ سرگوشی ہوئی، اور خاموشی چھا گئی۔۔۔
کندھوں پر نازک ہاتھوں کی انگلیاں حرکت کرنے لگیں، جیسے ستار کے تاروں پر موسیقار کی انگلیاں چابک مارتی ہیں، میرے من میں جلترنگ سی گھنٹیاں بجنی لگیں۔۔۔
دھڑکنوں کا زیر و بم بے ترتیب ہونے لگا۔ ریڑھ کی ہڈی پر چیونٹیاں سی رینگتی ہوئی محسوس ہوئیں، اور جسم پر یخ موسم کے باوجود پسینے کے قطرے چمکنے لگے۔۔۔
مجھ میں احتجاج کی سکت مفقود ہوگئی، مزاحمت کی طاقت گویا مفلوج ہوگئی، میں نے آنکھیں موند لیں، جسم ڈھیلا چھوڑ دیا اور خود سپردگی کی سرحد پار گیا۔۔۔
گرم سانسیں، نرم سرگوشیاں، ڈوبتی ابھرتی ڈھرکنیں، اور چھلکتے پسینے کے قطروں کا یہ کھیل جانے کتنی دیر تلک جاری رہا۔۔۔۔
دفعتاً ارتعاش سے میرا جسم ہلکورے لینے لگا، لرزش نے گویا صوفے پر زلزلہ برپاء کردیا ہو۔ اسی بھونچال میں چائے کی ٹھنڈی پیالی میز پر کڑکنے لگی، اور میں دھڑام سے صوفے پر ڈھلک گیا۔ تب گبھرا کر میں نے آنکھیں کھول دیں، وہ مجھ میں پیوست تھیں، جسموں میں فاصلہ مٹ چکا تھا، اور جامے کے تکلف سے نجات مل چکی تھی۔ لیکن میرے چہرے پر منتشر اس کے گیلے سیاہ زلفوں نے رات کی جیسی تاریکی پھیلا دی تھی۔ مجھے کچھ نظر نہ آیا۔ بس انگ انگ کی گدگدی سے جسم مچل رہا تھا، اور تپش سے میرا سینہ جل رہا تھا۔ میری سانسیں ڈوبی ہوئی تھیں اور ایک بوجھ جسم پر لدا ہوا تھا۔۔۔
میٹھا سا بوجھ، ایسا بوجھ جیسے ہمیشہ سوار رکھا جائے، جو نہ اترے، نہ کبھی ہلکا ہو۔۔۔۔
میں اس بوجھ تلے کسمساتا رہا، میری ہر لرزش پر وہ حاوی ہوچکی تھی، اس نے مجھے قید رکھا تھا، جیسے مٹھی میں ننھی سی چڑیا۔۔۔۔
یکایک میرے ٹخنے سے کوئی زوردار شے ٹکرائی، درد کی ایک شدید لہر نے جسم کا سارا خمار اتار دیا۔ میرے منہ سے کراہ نکلی اور ایک جھٹکے سے میں نے سر اٹھایا۔۔۔۔
میں صوفے پر دراز تھا، ایک ٹانگ چالی والی ٹیبل پر رکھی ہوئی تھی، اور دوسری صوفے پر کھینچی ہوئی، میرا بایاں ہاتھ شلوار میں گھسا ہوا، جبکہ دایاں ہاتھ سینے پر پڑی ریحام خان کی کھلی کتاب پر جما ہوا تھا۔۔۔
سامنے بیگم چھڑی بدست پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے گھور رہی تھی۔۔۔۔!!
( لالا عارف خٹک کے بیڈروم سے براہ راست)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“