انسان اس وقت اس زمین تک محدود ہے لیکن ہم صدیوں سے اس زمین سے دور ستاروں کو دیکھتے رہے ہیں۔ اب اپنی اس لمبی تاریخ میں ہم پہلی بار اس قابل ہوئے ہیں کہ زمین کے باہر سے خود اپنے آپ کو دیکھ سکیں۔زمین کے اردگرد زمین کا مشاہدہ کرنے والے اور مشاہداتی سیٹلائیٹس کا ہجوم ہے جس نے ہم سب کو جوڑ بھی دیا ہے اور ہمیں اپنے آپ سے آگاہی کا نیا ہی پہلو دکھا دیا ہے۔ دور سے ہماری تہذیب کے نشان نمایاں ہیں، رات کو شہروں کی روشنیاں، سرد شہروں کے گرد گرم ہوا، زراعت کی وجہ سے زمین کا بدلا رنگ۔
زمین کے گرد چکر کھاتی چیزوں میں سے صرف ایک بلبلہ ہے جو انسانوں کے رہنے کے قابل ہے۔ عالمی خلائی سٹیشن۔ یہ ہماری تہذیب کو خلا تک لے جاتا ہے۔ بس تھوڑا سا۔ زیادہ سے زیادہ دس لوگ یہاں پر رہائش پذیر ہو سکتے ہیں اور یہ یہاں پر انسانیت کی خلا میں نمائندگی کرتے ہیں، ہر ۹۲ منٹ میں زمین کا ایک چکر لگاتے ہوئے۔ جو مرد و خواتین یہاں پر وقت لگا چکے ہیں، وہ انسانیت کو ایک فرق ہی نظر سے دیکھ چکے ہیں اور اپنی بات اور خیالات کو مکمل طور پر دوسروں تک پہنچا بھی نہیں سکتے لیکن کوشش ضرور کرتے ہیں۔
ان سیٹلائیٹس سے آگے زمین کی وہ مقناطیسی ڈھال ماند پڑتی جاتی ہے جو ہمیں کاسمک شعاعوں سے محفوظ رکھتی ہے۔ وہاں پر ہماری تہذیب کے نشان بھی ماند پڑتے جاتے ہیں۔ اس خلا میں اوپر اور نیچے کا کوئی مطلب نہیں۔ چیزوں کی سادگی کا مطلب یہ ہے کہ ہر چیز انسانی معیار کے مطابق یا تو بہت سست ہے اور یا بہت تیز۔ سورج کے اندر نیوکلئیر ری ایکشن انتہائی تیزی سے ہو رہے ہیں لیکن سورج خود بہت آہستہ آہستہ اربوں برس کے ٹائم سکیل پر بدل رہا ہے۔ انتہائی چھوٹے ایٹم آپس میں انٹرایکٹ کرتے ہیں اور ان سے نکلنے والے نتائج سیارے یا چاند یا نظام شمسی جیسے ہیں۔ ہماری یہ الجھی ہوئی پیچیدہ تہذیب، اس الجھی ہوئی پیچیدہ دنیا میں وقت اور سائز کے ان سکیلز کے درمیان میں ہے۔
معلوم کائنات میں ہم، انسان، ایک انوکھی شے ہیں۔
ہم خلا میں دیکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس خلا میں کوئی ہمیں واپس بھی دیکھ رہا ہو۔ جو ہمارے سیارے پر نہیں، اس سے ہمارے رابطے کا اور اس کو جاننے کا بڑا ذریعہ روشنی ہے۔ ہماری آنکھ کو ٹکرانے والی ستاروں کی روشنی جو اس آنکھ کے ریٹینا کے کچھ مالیکیول ہلا دیتی ہے، یہ اس باقی کائنات سے ہمارا سب سے بڑا رابطہ ہے۔ اس چٹانوں بھرے خوبصورت سیارے کی بیرونی باریک سی تہہ جو زمین اور کاسموس کی سرحد ہے، یہاں پر ہم پائے جاتے ہیں اور ہمیں زندہ رکھنے والے تین جڑے ہوئے سپورٹ سسٹم۔ ہمارا جسم، ہماری زمین، ہماری تہذیب۔ سب اس کائنات کی فزکس سے تشکیل کردہ۔
میں، یہاں اپنے گھر کے لان میں کھڑا آسمان دیکھ رہا ہوں جہاں بادل تیرتے ہوئے امڈ کر آ رہے ہیں۔ یہ باقی کائنات کو میری نگاہ سے چھپا دیں گے۔ میرے ہاتھ میں ایک مگ ہے، جو اس زمین سے بنا ہے۔ میں، ایک انسان، اس کائنات کی پیچیدگیوں کے بارے میں سوچ رہا ہوں، کیونکہ میں سوچ سکتا ہوں۔ میرے ارد گرد پیٹرن ہیں، ہر قسم کی شکل میں، اور میں ان کو خود چھو کر محسوس بھی کر سکتا ہوں۔ پھر میں نے اپنی چائے میں چینی گھولنے کے لئے چمچ ہلایا اور نظر ہاتھ میں پڑے مگ کی طرف کی۔ اس میں چائے گھوم رہی ہے۔ میں اس سوچ میں گم تھا کہ اس گھومتی چائے پر فزکس کے اصول بالکل وہی ہیں جو ایک طوفان کے۔ اس پیالی میں محاورے کا نہیں، اصل طوفان برپا ہے لیکن پھر میں نے دوبارہ غور سے دیکھا تو اس میں کچھ اور نظر آیا۔ اس کی سطح پر اب ایک اور چمکدار، خوبصورت اور زبردست پیٹرن ہے۔ یہ میرے سر کے اوپر آسمان کا عکس ہے۔ میں اسی چائے کی پیالی میں ایک اور طوفان امڈتے دیکھ رہا ہوں۔