عائشہ شمع کا تعلق سندھ سے ہے مگر وہ کافی عرصہ سے دبئی میں رہتی ہیں اور ایک بنک میں کام کرتی ہیں
ایک سال سے بھی زیادہ عرصہ ہو گیا عائشہ سے فیس بک پہ ملاقات ہوئی تھی اور ان سے نظم پہ مکالمہ ہوا تھا جو اب تک جاری ہے
عائشہ غزل بھی لکھتی ہیں مگر نظم کمال کی لکھتی ہے
خاص طور دوہری زندگی گزانے کے عذاب سے جو بندہ گزرتا ہے اس مضمون پہ عائشہ نے بہت ہی کمال کی نظمیں لکھیں ہیں
میں نے ایک نظم لکھی تھی " چائے کی بھاپ کا خالی پن "
دو دن پہلے عائشہ جی کا فون صبح صبح آیا کہ مسعود میں نے رات تمہاری نظم چائے کی بھاپ کا خالی پن پڑھی ہے اور اس نظم پہ ایک نظم لکھی ہے ، اسی لیے تم کو اتنی صبح فون کیا ہے
میرے لیے بہت آعزاز کئ بات ہے کہ عائشہ نے نہ صرف میری نظم کو پسند کیا اور اس پہ نظم بھی لکھی
میں اپنی اور عائشہ شمع کی نظم یہاں شیر کر رہا ہوں تاکہ پڑھنے والے کو آسانی ہو سکے
اس نظم پہ سمیرا قریشی جی نے بھی ایک نظم لکھی ہے وہ میں پھر کسی وقت شیر کروں گا
مسعود قمر
——————————————————–
میری نظم
چائے کی بھاپ کا خالی پن
———————
وہ میرے ساتھ ساتھ ہوتی ہے
جب میں
ریل کار ٹکٹ کی
قطار میں کھڑا ہوتا ہوں
وہ میرے ساتھ کھڑی ہوتی ہے
جب میں
رکشے والے سےکرایہ پہ بحث کر رہا ہوتا ہوں
دیوار پہ
نیا کاغذ لگانے کے لیے
جب میں لیوی پکا رہا ہوتا ہوں
وہ
کمروں میں ادھر ادھر پھر رہی ہوتی ہے
جب میں باڑ سے امر بیل کاٹ رہا ہوتا ہوں
وہ
پودوں کو پانی دینے میں میری مدد کرتی ہے
میں کشتی بناتا رہتا ہوں
وہ
ندی کنارے بیٹھی
ندی کی چھینٹیں مجھ پہ پھینکتی رہتی ہے
میں جب
سبزیوں کی کیاریاں درست کرتا ہوں
وہ
ہر کیاری میں اگتی رہتی ہے
اور۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ اور جب میں
ہر کام سے فارغ ہوکے
تھک کے چائے کا کپ لیے
تیز تمباکو سلگاتے ہوئے
اسے سوچتا ہوں
تو وہ کہیں نہیں ہوتی
چائے کی بھاپ میں بھی نہیں
مسعود قمر
—————–'———–'—-
(یہ نظم میں نے خونصورت نظم لکھنے والے مسعود قمر کی نظم " چائے بھاپ کا خالی پن " سے متاثر ہو کر لکھی ہے )
————————-
چائے کی بھاپ خالی کیوں
—————————-
اس نے
ہمیشہ مجھے چائے کے کپ کے ساتھ
احساسات کی کرسی پہ بیٹھایا
کہ
میں اس کی گرم گرم چائے کی بھاپ میں
سلگتی رہوں
وہ
بہانوں بہانوں سے
کچن سے چائے اور اپنے جذبے
پکا کر مجھے پیش کرتا رہتا ہے
اور چاہتا پے
پہلی سپ میں لوں
وہ
ہر وقت مجھے اپنے ساتھ رکھتا ہے
رکشے والے سے کرایہ پہ بحثت کرتے
پوروں کو پانی دیتے
دیواروں پہ نیا کاغذ لگانے کے لیے
لیوی پکاتے
مگر
میں مصروف رہتی ہوں
کسی کے اٹھنے سے پہلے
گرم پانی کا تسلا
غسلخانے میں رکھنے میں
کسی کی شرٹ پہ
اپنے گرے سرد آنسوں کو
گرم گرم استری سے سکانے میں
کسی کا روٹی کا ڈبہ تیار کرنے میں
کسی کے گھر آنے سے پہلے پہلے
بستر کی شکنیں درست کرنے میں
اپنے جسم پہ پڑتی
نفرت ذدہ سانسوں سے
اپنی چھاتیاں اور روح کو بچانے میں
اور پھر ہر سال
اپنے اور بچے سے بندھی
ناف کٹوانے میں
اے خالی پن سے بھری بھاپ والی
چائے پینے والے
بس انہی مصروفیات کی بنا پہ
میں تیری چائے کی
بھاپ میں بھی نہیں آسکتی
——————-'—-'—–
عائشہ شمع
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“