انڈا پراٹھا کبھی ناشتے کی چیز سمجھا جاتا تھا لیکن موجودہ دور کی تیز رفتاری نے جہاں فاسٹ فوڈ کو پذیرائ بخشی ہے تو بڑے شہروں میں یہ انڈا پراٹھا بھی ایک دیسی فاسٹ فوڈ کی شکل اختیار کرگیا ہے جو تقریبا” چوبیس گھنٹے دستیاب ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے میں نے رات کے تین بجے فوڈ پانڈا پر کچھ دستیاب کھانے کی تلاش میں نظر ڈالی تو اس وقت تک تقریبا” تمام ریسٹورنٹس بند ہوچکے تھے لیکن اگر کوئ چیز دستیاب تھی تو وہ یہی انڈا پراٹھا اور چائے۔ چارو ناچار انڈا پراٹھا ہی آرڈر کردیا جو پندرہ منٹ میں ڈلیوری ہوگئ۔ تیز گرم خستہ پراٹھا اور انڈے کی مہک انتہائ اشتہا انگیز تھی۔ ذائقہ بھی بڑا لاجواب تھا۔ شاید اس وقت برگر بریانی یا پیزا اتنا لطف نہ دیتے جتنا اس گرما گرم انڈا پراٹھے نے دیا۔
یہ انڈا پراٹھا کراچی کے ہر بازار اور چوک پر چائے کے کیفے میں دستیاب ہے۔عام طور پر کیفے کے باہر چولہے پر بہت بڑا توا رکھا ہوتا ہے جس کے ساتھ ایک میز پر پراٹھوں کے پیڑے اور انڈے دھرے ہوتے ہیں۔
جب یہ تیز گرم توے پر انڈا زرا سی کالی مرچ اور نمک اور کتری ہری مرچ کے ساتھ المونیم کے پیالے میں پھینٹ کر کڑکڑاتے گھی میں چھوڑتے ہیں تو انڈے کے سطح پر فورا" ہی دو تین بڑے بڑے بلبلے نمودار ہوتے ہیں اور سیکنڈوں میں تیار ہو جاتا ہے۔ ویسے تو یہ عام طور پر سادہ انڈے میں نمک اور زرا سی کالی مرچ اور کتری ہری مرچ ڈال کر فرائ کرتے ہیں لیکن فرمائش پر اس میں ہری مرچ ٹماٹر اور پیاز ڈال کر آملیٹ بھی تیار کر دیتے ہیں۔ گھر میں انڈا فرائ کا ویسا ذائقہ نہیں آتا جو اس فٹافٹ ریڈی میڈ انڈے پراٹھے کا آتا ہے۔ دوسرے شہروں کا مجھے نہیں معلوم لیکن کراچی میں یہ چائے پراٹھے کے ہوٹل کچھ ایسے مقبول ہوئے ہیں کہ دن رات ایک جھمگٹا رہتا ہے۔خاص طور پر شام کے وقت سے لے کر رات ایک بجے تک تو جگہ نہیں ملتی جبکہ یہ ہر گلی محلے میں کھلے ہیں ۔
ایک زمانہ تھا کہ یہ چائے پراٹھے کے ہوٹل صرف غریب اور متوسط طبقے کے علاقوں میں پائے جاتے تھے لیکن اب تو کراچی کے پوش علاقوں کلفٹن گلشن ڈیفنس اور بوٹ بیسن میں بھی ان کی دھوم ہے اور صاحب لوگ بڑی بڑی قیمتی گاڑیوں میں اپنی فیملی کے ساتھ یہاں چائے پراٹھے کا لطف اٹھانے آتے ہیں۔ بلکہ پوش علاقوں میں تو ان کے نام بھی بڑے دلچسپ ہیں۔ گلو بٹ چائے پراٹھا، مولا جٹ چائے پراٹھا وغیرہ۔
کراچی کا کیفے پیالہ جو کہ گلبرگ کے قریب واقع ہے شاید قدیم ترین چائے پراٹھے کا ہوٹل ہے۔ سنا ہے کہ آج سے چالیس برس قبل بھی یہ دن رات چوبیس گھنٹے کھلا رہتا تھا اور یار دوستوں کی منڈلیاں یہاں رات گئے چائے پراٹھے کا لطف اٹھانے آتی تھیں۔ گلبرگ اور فیڈرل بی ایریا کے اطراف کے وہ نوجوان جو نائٹ میچ کھیلتے تھے وہ بھی وقفے کے دوران یہاں چائے پراٹھے کھانے آیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ یہ کیفے رام متوسط افراد کے میٹنگ پوائنٹ بھی ہیں۔ یار دوستوں کو ملنا ہو تو انہی چائے پراٹھا ہوٹلز پر منڈلیوں کی محفلیں جمتی ہیں۔
بلکہ جب اپنے عدنان نذر Adnan Nazarکی شادی ہوئ تو فیسبک کے چند یار دوستوں نے اس کو بھی شادی کی دعوت اسی چائے پراٹھا ہوٹل پر بھگتا دی۔ جب فیسبک پر پکچرز لگیں تو میں نے کمنٹس میں شرم دلائ کہ کم از کم اس بے چارے کی شادی کی دعوت تو کسی اچھے ڈھنگ کے ریسٹورنٹ میں رکھ دیتے۔ تو پھر شاید ہمارے ملک جہانگیر اقبال نے کسی اچھے ریسٹورنٹ میں عدنان بھائ کی دعوت کی تھی۔ کیفے پیالہ اب بھی دن رات کھلا رہتا ہے۔ بلکہ اب تو اس ہوٹل سے کئی مارننگ شوز بھی لائیو ہو چکے ہیں۔ ان ہوٹلوں کے اندر تو کرسیاں اور میزیں دھری ہوتی ہیں لیکن باہر دور دور تک تخت اور پلنگ بچھے ہوتے ہیں۔ شام کو یہاں اسٹیل کے فریم میں تیل کی بوتلیں کھڑ کھڑاتے مالشئے بھی ملیں گے جو دن بھر کے تھکے مزدور پیشہ افراد کو مساج کی خدمات بھی پیش کرتے ہیں۔
کسی زمانے میں جب کراچی میں رات کو مختلف میوزیکل فنکشنز ہوا کرتے تھے تو فنکار حضرات فنکشن ختم ہونے کے بعد صبح تک کا وقت انہی چائے پراٹھا ہوٹلوں میں گزارتے تھے۔
دوسرے چائے کے ہوٹل جو اکثر پٹھان بھائ چلاتے تھے وہاں صرف چائے بسکٹ دستیاب ہوتے تھے لیکن اب ہر چائے کے ہوٹل پر یہ پراٹھا دستیاب ہوتا ہے۔ خاص طور پر صبح کے وقت اور شام مغرب کے بعد آپ کو ان چائے ہوٹلوں کے باہر بڑے بڑے توے اور ان کے ساتھ رکھی میز پر سفید ریفائنڈ آٹے کے گھی میں تر بتر درجنوں گول پیڑے رکھے نظر آئیں گے۔ آرڈر ملتے ہے مشاق کاریگر زرا سی دیر میں پیڑے کو بیل کر اور انتہائ مہارت سے اپنے ہاتھوں میں بڑھا کر اس کی بڑی سی گول چپاتی بناتا ہے اور گرما گرم گھی میں ڈال دیتا ہے۔ تو اتنا گرم ہوتا ہے کہ زرا سی دیر میں یہ سفید چپاتی ہلکی بادامی رنگت اختیار کرلیتی ہے جس کی سوندھی مہک آس پاس پھیل جاتی ہے۔ عام طور پر کیفے والے یہ پراٹھا پلیٹ میں نہیں بلکہ اخبار کے کاغذ میں رکھ کردیتے ہیں۔ زیادہ چکنائ سے پرھیز کرنے والے لوگ اس پراٹھے کو اس کاغذ میں لپیٹ کر زور سے دبا تے ہیں جس سے پراٹھے کا فاضل تیل کاغذ میں جذب ہوجاتا ہے۔ گرما گرم فرائ انڈے کے ساتھ یہ پراٹھا بڑا لطف دیتا ہے۔ اس کے ساتھ کتری ہری مرچوں کی تیزی اور ذائقہ کا اپنا الگ ہی سواد ہے۔ انڈے کے علاوہ گرما گرم دودھ پتی چائے کی ساتھ بھی یہ کرکرا ورقی پراٹھا سچ مچ بہت لطف دیتا ہے۔
ہلکی پھلکی بغیر مرچ مصالحے والی غذا کھانے والے بھی اکثر اس چائے ہراٹھے سے یا پھر انڈہ پراٹھے سے ڈنر کرتے ہیں۔ اس پراٹھے کی قیمت تیس سے چالیس روپے اور اتنی ہی قیمت فرائ انڈے کی بھی ہوتی ہے۔ اکثر غریب افراد یا کوڑا چننے والے بچے بھی یہ پراٹھا خرید کر فرنچ فرائز والے کے پاس لے جاتے ہیں جو اس پر دس روپے کی فرائز بکھیر کر نقلی کیچپ اور چاٹ مصالحہ چھڑک کر رول سا بنا دیتا ہے۔ اس طرح بیس پچیس روپے میں پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے ایک مزیدار رول تیار ہو جاتا ہے۔
اور تو اور کبھی یہ ہوٹل صرف مرد حضرات کے لئے مخصوص تھے اور خواتین کا ایسے ہوٹلوں میں بیٹھنا معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن اب تو خواتین بھی ان ھوٹلز پر مرد حضرات کے ساتھ چائے پراٹھے کا لطف اٹھاتی نظر آتی ہیں۔
کراچی کے نوجوانوں کی سوشل لائف میں یہ پٹھانوں کے چائے ہوٹل بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ یہاں آپ کو ہروقت نوجوانوں کی ٹولیاں بیٹھی خوش گپیاں کرتی نظر آئیں گی۔ کبھی میں سوچتا ہوں کہ کیا ان کے اپنے کوئ گھر ٹھکانہ نہیں ہے جو یہ گھنٹوں روڈ کنارے کرسیوں پر بیٹھے چاہے کے ساتھ گزرتے ٹریفک کا دھواں اور دھول بھی پھانکتے رہتے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...