جنگل میں کھانے والے پودوں اور جڑی بوٹیوں کی تلاش میں نکلے کسان شینانگ نے غلطی سے زہریلی اشیاء نگل لیں۔ اس سے پہلے کہ یہ زہر اس کی زندگی ختم کر دیتے، ہوا میں اڑتا ہوا پتہ اس کے منہ میں آ گرا۔ اس نے یہ پتہ چبا لیا اور اس نے شینانگ کی جان بچا لی۔ اور یہ چائے کی دریافت کی کہانی ہے۔۔۔
نہیں، نہیں، اس طرح کے قدیم قصوں کی طرح یہ کہانی چین میں مشہور تو ہے۔ اصل نہیں۔ اور چائے زہر کا علاج بھی نہیں کرتی۔ لیکن چین کے دیومالائی کردار شینانگ، جو قصے کہانیوں میں چین میں زراعت کے موجد بتائے جاتے ہیں، اس چیز کی نشاندہی کرتی ہے کہ چائے قدیم چین میں اہمیت رکھتی تھی۔
آرکیولوجیکل شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ چائے کم از کم چھ ہزار سال سے چین میں کاشت کی جاتی رہی ہے۔ یعنی مصری فراعین کے عظیم اہرام، الجیزہ سے ڈیڑھ ہزار قبل سے۔ اور چین سے آنے والا چائے کا یہی پودا آج دنیا بھر میں کاشت کیا جاتا ہے۔ البتہ اس کا استعمال بہت فرق طریقے سے کیا جاتا تھا۔ اس کو سبزی کی طرح کھایا جاتا تھا یا دلیے کے ساتھ پکایا جاتا تھا۔ اس کا بطور مشروب استعمال محض ڈیڑھ ہزار سال قبل کا ہے جب لوگوں کو احساس ہوا کہ گرم اور نم کرنے سے اس کے پتوں میں ایک بڑا منفرد ذائقہ پیدا ہو جاتا ہے۔
اس کے سینکڑوں ویری ایشن کے تجربات کے بعد سٹینڈرڈ طریقہ یہ نکلا کہ اس کے پتوں کو گرم کر کے دبا کر پیک کیا جاتا تھا۔ پیس کر پاوڈر جیسی شکل دی جاتی تھی۔ گرم پانی کے ساتھ مکس کیا جاتا تھا اور مشروب تیار ہو جاتا تھا جس کو ماچا کہتے تھے۔
ماچا اتنا مقبول ہوا کہ اس کی وجہ سے چین میں چائے کا کلچر نمودار ہوا۔ یہ شاعری اور کتابوں کا موضوع بنا۔ بادشاہوں کا پسندیدہ مشروب بنا۔ اور فنکاروں کے ہاتھ لگا۔ شاہی محفل میں پیش کی جانے والی ماچا کی جھاگ کو آرٹسٹ پیش کرنے سے پہلے کوئی شکل دیتے۔
نویں صدی میں تانگ خاندان کی حکومت کے دوران ایک جاپانی راہب نے پہلی بار اس پودے کو جاپان میں متعارف کروایا۔ جاپان میں چائے کے گرد اپنی منفرد رسومات کی بنیاد پڑی۔ جاپانی چائے کی تقریب کی تخلیق ہوئی۔
چودہویں صد میں منگ خاندان کے وقت چینی شاہی محفلوں میں مشروب بنانے کے لیے پتوں کو دبا کر پیک کرنے کے بجائے کھلی پتی کا رواج پڑا۔ اس وقت تک دنیا میں چائے کے پودوں پر چین کی مونوپولی تھی۔ اور چائے، ریشم اور چینی کے برتن چین کی تین اہم برآمدات تھے۔ چین بڑی عالمی معاشی طاقت تھا۔ اس وقت کی عظیم سپر پاور کی روایات دوسرے ممالک تک پھیلیں۔ سترہویں صدی میں ولندیزی تاجروں نے اس کو یورپ میں بڑے پیمانے پر متعارف کروایا۔
پرتگالی ملکہ کیتھرین آف برگانزا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ برطانوی اشرافیہ میں اس مشروب کو مقبول کرنے میں ان کا بڑا کردار تھا۔ ان کی شادی برطانوی شاہ چارلس دوئم سے 1661 میں ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا جب برطانوی سلطنت دنیا بھر میں پھیل رہی تھی۔ اور نئی عالمی طاقت بن رہی تھی۔ اور جس طرح برطانوی اثر و رسوخ بڑھا، ویسے ہی چائے کا پھیلاوٗ بھی۔ 1700 تک یورپ میں چائے کی قیمت کافی سے دس گنا زیادہ تھی اور پودا صرف چین میں اگا کرتا تھا۔ یہ تجارت اس قدر پرکشش تھی کہ دنیا میں تیز ترین بادبانی کشتی، کلپر شپ، کی ایجاد مغربی تجارتی اداروں کی آپس میں مقابلہ بازی اس دوڑ کی وجہ سے ہوئی تھی کہ چائے کو جلد سے جلد یورپ پہنچایا جا سکے اور زیادہ منافع کمایا جا سکے۔
پہلے برطانیہ چائے کے عوض چاندی دیا کرتا تھا۔ پھر اس کی جگہ پر ایک اور شے نے لے لی، جو کہ افیون تھی۔ اس سے چین میں صحت کا مسئلہ شروع ہو گیا۔ کیونکہ یہ نشہ آور ڈرگ تھی۔ 1839 میں چینی آفیشل نے برطانیہ سے آنے والی افیون کی بڑی آمد کو تباہ کرنے کا حکم دے دیا۔ اس سے برطانیہ اور چین کے درمیان پہلی جنگ شروع ہوئی جو 1842 تک جاری رہی۔ اس میں شکست کھا کر چنگ خاندان نے ہانگ کانگ کی بندرگاہ برطانیہ کے حوالے کر دی اور یہ تجارت برطانوی شرائط پر بحال ہو گئی۔ اس جنگ نے چین کو اگلے سو سال سے زیادہ تک کے لئے کمزور کر دیا۔
برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی چائے کے لئے انحصار چین پر نہیں رکھنا چاہتی تھی۔ اس پر تحقیق کے لئے ماہرِ نباتات رابرٹ فارچون کی خدمات حاصل کی گئیں۔ رابرٹ فارچون نے چین کے پہاڑی علاقوں میں چائے اگانے کے علاقوں کا چھپ کر دورہ کیا۔ وہاں سے چائے اور چائے کے کھیت میں کام کرنے والوں کو انڈیا میں دارجلنگ میں لایا گیا۔
دارجلنگ سے آگے چائے کا پودا تیزی سے پھیلتا گیا اور دنیا کے بہت سے علاقوں میں روزانہ کا مشروب بن گیا۔
آج پانی کے بعد سب سے زیادہ استعمال کئے جانے والا مشروب دنیا میں چائے ہے۔ اپنے بہت سے طریقوں کے ساتھ۔ تبت میں مکھن والے چائے۔ ترکی کی میٹھی ریز چائے۔ دودھ پتی ۔۔۔ چائے بنانے کے ہر کلچر میں اپنے اپنے طریقے ہیں۔
چائے کی تاریخ ایک کسان کے منہ میں اتفاقی طور پر چلے جانے والے پتے کی تو نہیں لیکن چائے کی طرح اس کی اصل کہانی شاید زیادہ سواد ہے۔ اور اس مختصر آرٹیکل سے کہیں زیادہ دلچسپ۔
چین میں چائے کے ادوار پر کتاب پڑھنے کے لئے
The Classic of Tea: Lu Yu
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...