(Last Updated On: )
ہم سب میں ایک ایسا شخص چھپا بیٹھا ہے جو کہ چائے کا عادی ہوتا ہے اور ہمیں چائے پی کر بہت سکون اور تر و تازہ سا محسوس ہوتا ہے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں چائے پی کر سکون تازگی کا احساس کیوں ہوتا ہے؟ اور چاۓ ہمیں اپنا عادی کیوں بناتی ہے؟
یہ بات جاننے سے پہلے ہمیں کچھ بنیادی چیزوں کے بارے میں اپنے تصورات کلئیر کرنا ہونگے۔ تاکہ ہمیں مکمل بات سمجھنے میں آسانی رہے۔
اول ہمارے دماغ اور پورے جسم میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پیغام کو اعصابی یا نرو سیل پہنچاتے ہیں۔دوئم یہ کہ نرو سیل آپس میں جڑے نہیں ہوتے بلکہ انکے بیچ کچھ خلاء ہوتی ہے اس خلاء سے پیغام مختلف کیمیکلز کی شکل میں اگلے سیل تک پہنچتا ہے ان کیمیلز کو نیوروٹرانس میٹرز اور خلاؤں کو سائنیپس کہتے ہيں۔ جبکہ سیلز کےاندر پیغام چارجز کی شکل میں سفر کرتا ہے۔ یہ مثبت یا منفی ہوتے ہیں۔
اب آتے ہیں چاۓ کی طرف تو آپ سب کو علم ہوگا کہ چاۓ کیفین کی خاطر خواہ مقدار اپنے اندر رکھتی ہے۔یہ کیفین ہمارے نروس سسٹم میں جاکر ایک نیوروٹرانسمیٹر ایڈینوسین Adenosine کی جگہ لے لیتی ہے ایڈینوسین ہمیں ریلیکس یا پھر سست کرنے والا ٹرانسمٹر ہے۔
کیفین چونکہ ایڈینوسین جیسی ہی ساخت رکھتی ہے سو اس لیۓ یہ کیفین نروس سسٹم میں جاکر ایڈینوسین کی جگہ لے لیتی ہے اور پھر ہمارے دماغ کو چوکس یا ایکٹیویٹ کردیتی ہے۔
بالکل اسی وقت جب یہ کیفین ایڈینوسین کی جگہ لیتی ہے ہمارے جسم میں ایک اور ہارمون ایڈرنالین بھی خارج ہوتا ہے یہ ہارمون ہمارے بلڈ پرپیشر کو تیز(مطلب چوکس رہنے والا)،اور خون کے فشار کو کم استعمال والی جگہوں سے زیادہ استعمال والی جگہوں جیسا کہ بازو ٹانگیں اور معدے کی طرف منتقل کردیتا ہے۔
یوں ایک شخص جب چاۓ پیتا ہے تو وہ خود کو چوکس چوکس سا محسوس کرتا ہے۔
یہاں آکر ایک ان دیکھا جال سامنے آجاتا ہے وہ جال یہ ہے کہ کیفین عادی بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے مطلب ہم جتنی کیفین لیں گے اتنے ہی اسکے ریسپٹر سائٹ بنیں اور ایڈینوسین کے ختم ہونگے اور پھر ان کو مکمل کرنے کے لیۓ مزید کیفین کی ضرورت محسوس ہوتی ہے یوں کیفین کسی بھی شخص کو اپنا عادی بنا لیتی ہے۔اسی لیۓ ہم پنجابی اکثر و بیشتر زیادہ چاۓ پینے والے بندے کو کہتے ہیں کہ ”یار توں بڑا چاہ دا عادی ایں“دراصل وہ شخص چاۓ کا عادی نہیں بلکہ کیفین کا عادی بن جاتا ہے۔ مگر اس سب کے باوجود ہم میں چائے کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں موجود ہیں جن کو ختم کرنا بہت ضروری ہے۔ جیسا کہ
1: سبز چائے وزن کم کرتی ہے
چائے کے بارے میں سب سے بڑی غلط فہمی جو پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ گرین ٹی یا سبز چائے ہمارا وزن کم کرنے میں بہت مدد دیتی ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اشتہارات میں جو بات بتائی جاتی ہے اس کے مطابق سبز چائے ایک ایسا جادوئی جام ہے جس کو پینے سے ہمارا وزن کم ہو جاتا ہے ۔ اس بات کو سن کر بہت سے لوگ اسے شروع کرتے ہیں۔
مگر انکے ہاتھ مایوسی کے سوا کچھ نہیں آتا
کہا یہ جاتا ہے کہ سبز چائے میں ایک ایسا کیمیکل سٹیمولنٹ ہے جو کہ ہمارے میٹابولزم کو تیز کرکے چربی کے گھلنے کے عمل کو تیز کر دیتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سبز چائے میں یہ اتنا کم ہوتا ہے کہ روزانہ کے تین یا چار کپ چائے پینے سے بھی اس کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔ لیکن اسکے نقصانات کا ہمیں ضرور سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
2: سبز چائے میں کیفین بہت کم ہوتی ہے
اس بات میں بھی کوئی سچائی نہیں۔ جبکہ حقیقت میں سبز چائے کا ایک کپ 35 ملی گرام تک کیفین رکھ سکتا ہے۔ سو سبز چائے کو دھڑا دھڑ پینے سے پہلے یہ بات جاننا بہت ضروری ہے۔
سو سبز چائے بھی کیمیائی طور پہ اتنی ہی کیفین رکھ سکتی ہے جتنی کہ بلیک چائے۔
3: چائے میں دودھ ڈالنے سے اسکا اثر ختم ہو جاتا ہے
اس بات میں کوئی سچائی نہیں نا ہی چائے میں دودھ ڈالنے سے اسکا اثر ختم ہوتا ہے اور نا ہی دودھ میں چائے ڈالنے سے دودھ کا اثر ختم ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق جب دودھ ملی چائے کا تجزیہ کیا گیا تو پتا چلا کہ اسکی کیمیائی کمپوزیشن دوسری چائے جیسی ہی تھی بس اس میں دودھ کی غذائیت اور اسکے غذائی اجزاء کا اضافہ ہو گیا تھا۔ اسکے علاوہ ہمارے جسم کی چائے کے اجزاء جذب کرنے کی صلاحیت پہ کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔
4: چائے پانی کی کمی کر سکتی ہے
اس بات میں کوئی صداقت نہیں۔ چائے دراصل فلیور ملا پانی ہی ہوتی ہے جس میں چائے کے کیمیائی مرکبات بھی شامل ہو کر اس پانی کو ذائقہ دار بنا دیتے ہیں اوورآل اس میں موجود پانی کی کیمیائی ساخت نہیں بدلتی۔ سو یہ پانی کی کمی نہیں کر سکتی۔
5: چائے آپ کو تاحیات جوان اور کینسر سے بچاتی ہے
اس بات میں کوئی صداقت نہیں۔ چائے فقط ہمارے چہرے کو ہشاش بشاش رکھنے میں مدد دیتی ہے باقی چائے کی وجہ سے نا ہی ہماری عمر بڑھ سکتی ہے اور نا ہی چائے کینسر سے بچنے میں یہ کوئی خاص مدد کرتی ہے۔ عموما ایسی بات سبز چائے کے لئے کی جاتی ہے کہ اس میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس آپ کو بوڑھا ہونے سے بچاتے ہیں لیکن یہ بات مکمل درست نہیں ہے۔ یہ بس مارکیٹنگ کی خاطر ایسا کیا جاتا ہے۔
بجائے اس کے کہ ہم چائے کو کسی بڑے فائدے جیسا کہ عمر لمبی کرنے یا پھر وزن کم کرنے کے مقصد سے پئیں ہمیں چائے بس فرصت کے لمحات سے محظوظ ہونے کے لئے پینی چاہیے۔ اورآل چائے کوئی جادوئی جام نہیں ہے بس اس میں موجود کیفین آپ کے ہوش و حواس کو ترو تازہ رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ سو دن میں ایک یا دو مرتبہ ہمیں بس اس نیت سے چائے پی لینی چاہیے اس سے زیادہ کیفین ہماری صحت کے لئے نقصاندہ ہو سکتی ہے۔ اسی طرح کیفین کی 300 ml سے زیادہ مقدار حاملہ ماؤں کے لئے نقصاندہ ہو سکتی ہے سو ان کو اس معاملے میں احتیاط برتنی چاہیے۔
چائے کے علاوہ ہم میں دودھ کے بارے پھیلائی گئی بہت سی غلط فہمیاں ہیں جن کا ازلاہ کرنے سے پہلے ایک حیران کن بات جاننا ضروری ہے کہ دودھ ہضم کرنے کی صلاحیت ہم میں بالکل تازہ ہے ارتقائی سائنس کے مطابق ہم میں یہ صلاحیت آئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ اس بابت ارتقائی سائنس کیا کہتی ہے وہ بھی جاننا ضروری ہے کیونکہ پھر ہم اس سب کو بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں۔ آج سے آٹھ سے نو ہزار سال پہلے بالغ انسان دودھ ہضم کرنے والے انزائم مکمل طور پہ نہیں رکھتے تھے جس کی وجہ سے وہ جانوروں کا دودھ پی کر بیمار ہوجایا کرتے تھے۔ اس کی وجہ کیا تھی؟
ایک بچہ دودھ کو ہضم کرنے کے لئے لیکٹیز انزائم رکھتا تھا ۔ یہ انزائم دودھ کو ہضم کرانے میں مدد دیتا ہے مگر بالغ ہونے پہ یہ انزائم ان ایکٹو ہو جاتے تھے۔ سو بالغ انسان دودھ ہضم نہیں کر سکتے تھے۔ مگر پھر انسانوں نے جانوروں کو پالنا شروع کیا ، زرعی انقلاب آنے کے بعد انہوں نے جانوروں کے دودھ کو بھی زیر استعمال لانا شروع کر دیا۔ اور اس سے پنیر اور دہی جو کہ کم لیکٹوز رکھتے ہیں وہ کشید کرنا شروع کردیا۔لیکن کچھ سر پھروں نے کچا دودھ بھی پینا شروع کیا جس کی وجہ سے انسانی جسموں پہ ایک سلیکشن پریشر پیدا ہوا۔ اس مسلسل سینکڑوں سالوں کے پریشر کے نتیجے میں آج سے آٹھ ہزار سال پہلے ترکی کی چراہ گاہوں سے شروع ہونے والے اس ارتقاء نے اب دنیا کی 40% سے زیادہ بالغ آبادی میں دودھ ہضم کرنے کی صلاحیت پیدا کر دی ہے۔ ورنہ اس سے پہلے ایسا نہیں تھا۔ آج یورپئین اجداد کی تقریبا ساری اولاد دودھ ہضم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
آج سے آٹھ ہزار سال پہلے چند ایک کے علاوہ باقی بالغ انسان دودھ ہضم نہیں کر سکتے تھے۔
آج بھی آدھی سے زیادہ آبادی دودھ پینے پہ ہیضہ کرا بیٹھتی ہے۔
اسکی وجہ یہ ہے کہ ارتقاء ساری آبادی میں ایکدم نہیں بلکہ آہستہ آہستہ ہوتا ہے۔ دو ہزار سے آٹھ ہزار سال کے اس عرصہ میں فقط چالیس فیصد آبادی ہی دودھ کو ہضم کرنے کی صلاحیت کا ارتقاء کرا سکی ہے۔ باقی کے انسان اگلے چند ہزار سالوں میں اس ارتقاء کا شکار ہوکر دودھ سے محظوظ ہونے کی صلاحیت پا سکیں گے۔ اور یہ ارتقاء کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے۔ ایسے میں ارتقاء کی بحث میں جائے بغیر ہمارے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ دودھ کے بارے میں غلط فہمیاں کیا ہیں۔ یاد رہے یہ دودھ کی زیادہ مقدار کو پینے کے بارے میں ہیں۔ جبکہ نارملی ہمیں روزانہ ایک سے دو گلاس دودھ ضروری پینا چاہیے کیونکہ ہماری غذائی بہت سے اجزاء کی کمی رکھتی ہے اور ان کو پورا کرنا نہایت ضروری ہے۔
1: دودھ ہڈیوں کو مضبوط بناتا ہے
دودھ کے بارے میں سب سے بڑامتھ یہ پایا جاتا ہے کہ دودھ ہماری ہڈیوں کو مضبوط بناتا ہے اور ہم بچپن سے اس بات پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں۔ مگر حقیقت کچھ اور ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی نے 90 ہزار خواتین پہ دو دہائیوں تک تحقیق کی اور انہیں پتا چلا کہ دودھ زیادہ پینے سے بڑی عمر میں میں ہڈیوں کے امراض جیسا کہ اوسٹیوپورسس اور نارمل فریکچر میں کوئی کمی نہیں آئی۔
اسی طرح ایک اور سٹڈی جو کہ 90 ہزار مردوں پہ کی گئی تھی اس کیمطابق ایسے مرد جنہوں نے ٹین ایج میں بہت زیادہ دودھ پیا تھا ان میں ہڈیاں فریکچر ہونے کی شرح بھی زیادہ تھی ۔
ایک اور سٹڈی سے اس بات کی بھی تصدیق ملی کہ ایسی لڑکیاں جنہوں نے زیادہ دودھ پیا ان میں دباؤ کی وجہ سے فریکچر ہونے کی شرح بہت زیادہ تھی۔
ان تین سٹڈیز سے ہمیں اس بات کی تصدیق ملتی ہے کہ دودھ ہڈیوں کو مضبوط بنانے میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کرتا بلکہ دودھ کو زیادہ پینا ہڈیوں کے لئے نقصاندہ ہے کیونکہ اس میں کیلشئم ہوتا ہے اور زیادہ کیلشئم ہماری ہڈیوں کو کمزور کر دیتی ہے۔
2: دودھ وزن کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے
دودھ پینے کے بارے میں ایک اور بہت ہی کامن متھ یہ ہے کہ دودھ زیادہ پینے سے ہمارا وزن کم ہو سکتا ہے۔ اکثر پراڈکٹس اپنی تشہیر میں یہ بتاتے ہیں کہ انکا دودھ آپکو وزن کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے جبکہ دودھ وزن بڑھانے کی بڑی وجوہات میں سے ایک وجہ ہے۔
3: دودھ فطری طور پہ ایک پرفیکٹ غذا ہے
یہ بات اکثر ماؤں سے سننے کو ملتی ہے کہ بیٹا دودھ پئیں اس میں مکمل غذائی اجزاء موجود ہیں جبکہ حقیقت اسکے منافی ہے۔ دودھ پینے والے انزائمز کا ارتقاء فقط 8 ہزار سال پہلے ہوا۔ اس سے پہلے ہمارے بالغ دودھ نہیں پی سکتے تھے (پڑھیے میری پوسٹ دودھ کے جینز کا ارتقاء) اس وقت دنیا کی ساٹھ فیصد آبادی اسے نہیں پی سکتی۔ جس کے نتیجے میں وہ ہر سال ڈائریا یا ہیضے کا شکار ہوتے ہیں۔
4: ہر بچے کو گروتھ کے لئے دودھ چاہیے
مارکیٹینگ کی دنیا میں جو سب سے بڑی بات پڑھائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ دودھ انکی نشوونما کے لئے بہت ضروری ہے۔ جبکہ اس بات میں کوئی صداقت نہیں، ماں کے دودھ کے چھوٹنے کے بعد دنیا کی ساٹھ فیصد آبادی دودھ ہضم کرنے کی صلاحیت کھو دیتی ہے مگر پھر بھی وہ مکمل نشوونما پا لیتی ہے کیونکہ دودھ میں موجود اجزا دوسری خوراک کے ذرائع جیسا کہ گوشت اور انڈوں سے وافر مقدار میں مل جاتے ہیں۔ اور وہ بچے کی مکمل گروتھ کروا سکتے ہیں۔
5: دودھ دل کے مریضوں کے لئے بہت اچھا ہے
اس سے بڑی غلط فہمی کوئی نہیں کیونکہ دودھ فیٹس اور کولیسٹرول سے بھرپور ہوتا ہے اور اس کو زیادہ لینے کے نتیجے میں دل کی بیماریوں کا رسک حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ ایک وہ شخص جو کہ کم دودھ پیتا ہے وہ دل کی بیماریوں سے اس شخص سے زیادہ محفوظ ہے جو کہ زیادہ دودھ پیتا ہے۔
اس وقت دودھ کے بارے میں ہم میں کافی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جو کہ زیادہ تر مارکیٹنگ اور معلومات کی کمی کا نتیجہ ہیں۔ ایک اور سٹڈی میں جب ہڈیوں کے ٹوٹنے کی شرح کا موازنہ کیا گیا تو پتا چلا کہ وہ ممالک جہاں پہ دودھ کی کھپت زیادہ ہے وہاں پہ یہ شرح حد سے زیادہ ہے جبکہ کم دودھ پینے والے ممالک میں ایسے کیسز کی تعداد کافی کم ہے۔
کیوں؟
کیونکہ حد سے زیادہ کیلشئم ہڈیوں کے لئے نقصاندہ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دودھ میں وٹامن ڈی ہوتا ہے جبکہ قدرتی دودھ میں یہ نہیں پایا جاتا سو کیلشئم کو جسم کا بنیادی جزو بننے کے لئے اسکی ضرورت پڑتی ہے اور یہ ہم فورٹی فائڈ/ مصنوعی اجزاء والے دودھ ، دلیہ وغیرہ سے لے سکتے ہیں یا دھوپ سے قدرتی طور پہ بنا سکتے ہیں سو اپنے بچوں کو کھیلنے کودنے کے لئے باہر نکالنا انکی صحت کے لئے کافی فائدہ مند بات ہے۔
اسکے علاوہ اس میں موجود پروٹینز کی کمی ہم دالوں اور انڈوں سے بھی کر سکتے ہیں۔
لہذا دودھ کا ایک متوازن استعمال بہت ضروری ہے اور ان غلط فہمیوں بارے آگہی ہونا بھی۔ ایک بڑھتے ہوئے بچے کو روزانہ کم سے کم ایک گلاس اور زیادہ سے زیادہ دو گلاس دودھ کے ضرور دینے چاہیں۔ وہیں اگر آپ کا بچہ دودھ ہضم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور دودھ پی کر اسکو ابکائی آ جاتی ہے یا ہیضہ ہو جاتا ہے تو اسے زبردستی دودھ پلانے کی بجائے اسکی غذا میں انڈوں اور پھلی دار اجناس کی مقدار بڑھا دینی دینی چاہیے۔
اس کے علاوہ دو سے زیادہ گلاس دودھ بچوں اور بڑوں میں ذیابطیس اور دل کی بیماریوں کی وجہ بھی بن سکتا ہے سو کسی بھی ٹرینڈ میں آ کر دھڑا دھڑ دودھ نہیں پلانا چاہیے کیونکہ یہ کوئی سپر فوڈ نہیں ہے بلکہ دنیا کی ساٹھ فیصد آبادی اسے پئے بغیر ہٹی کٹی جی رہی ہے۔