چوہدری صاحب کا ایک ہی بیٹا ہے جسے وہ پیار سے چاند کہتے ہیں۔ اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے چاند نے ماں باپ کا بھرپور پیار پایا۔ کچھ عرصہ پہلے چاند کی شادی ہوئی جس میں چوہدری صاحب نے اپنے دل کے تمام ارمان پورے کیے۔ بارات میں چوہدری صاحب خود بھی ڈھول کی تھاپ پر ناچتے رہے اور یاروں دوستوں کو بھی اُٹھا اُٹھا کر اپنے ساتھ ٹھمکے لگانے پر مجبور کرتے رہے۔ شادی کے دو ہفتے بعد چوہدری صاحب میرے پاس تشریف لائے تو بہت پریشان تھے۔ بتانے لگے کہ اُن کا چاند اُن سے چھن گیا ہے۔ میں نے تفصیل پوچھی تو بتایا کہ چاند صرف اپنی بیوی کا ہو کر رہ گیا ہے‘ ہمارے پاس بیٹھتا ہی نہیں‘ پہلے رات دو بجے سوتا تھا‘ اب 8 بجے ہی جماہیاں لینا شروع کر دیتا ہے‘ آئے دن بیوی کے ساتھ کسی نہ کسی ہوٹل میں کھانا کھانے نکل جاتا ہے‘ سسرال کی دعوتیں اڑاتا ہے اور ہم میاں بیوی گھر میں اس کی راہ تکتے رہتے ہیں۔ اور تو اور چاند نے پچھلے دنوں اپنی ماں سے بھی شکوہ کیا کہ وہ اس کی بیوی کی پسند کا کھانا کیوں نہیں بناتی؟ چوہدری صاحب کی بات سن کر میرے کان کھڑے ہو گئے۔ میں نے قریب ہوتے ہوئے پوچھا ''ساس بہو کی کوئی لڑائی بھی ہوئی ہے؟‘‘۔ چوہدری صاحب نے آہ بھری ''ہاں! چھوٹی سی جھڑپ ہو چکی ہے‘‘۔
''اور اس جھڑپ میں چاند نے بیوی کا ساتھ دیا… ہے ناں؟‘‘۔ میں نے جلدی سے پوچھا اور چوہدری صاحب نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ میں دوبارہ شروع ہو گیا ''چوہدری صاحب! یقینا اِس جھڑپ میں چاند نے اپنی بیوی کی طرف اشارہ کر کے یہ بھی کہا ہو گا کہ ''امی! یہ بھی کسی کی بیٹی ہے‘‘۔ چوہدری صاحب اچھل پڑے ''بالکل کہا‘ تمہیں کیسے پتا ہے؟‘‘۔ میں نے سر کھجایا‘ یہ تو کچھ بھی نہیں‘ مجھے تو اور بہت سی باتوں کا بھی پتا ہے‘ لیجئے سنئے… چاند اب آپ کے ساتھ کھانا نہیں کھاتا ہو گا‘ ہر وقت سسرال میں پایا جاتا ہو گا‘ ڈائننگ ٹیبل پر بیوی کو آگے بڑھ بڑھ کر پلیٹ پیش کرتا ہو گا‘ انگلش کے الفاظ زیادہ بولنے لگ گیا ہو گا‘ اس نے اپنے کمرے کے باتھ روم میں صابن کی بجائے ہینڈ واش رکھ لیا ہو گا‘ روزانہ شیو کرنے لگ گیا ہو گا‘ دفتر سے ماں کو کم اور بیوی کو زیادہ فون کرتا ہو گا‘ آپ سے کہتا ہو گا کہ ابو پلیز گھر میں ''سلوکا‘‘ مت پہنئے گا‘ سسرال والوں کی آمد پر انہیں اپنے کمرے میں بٹھا کر گپیں لگاتا ہو گا‘ بیوی ذرا سے سر درد کی بھی شکایت کرتی ہو گی تو اُسے نیورو سرجن کے پاس لے جاتا ہو گا‘ پہلے فریج سے بوتل نکال کر ڈائریکٹ منہ لگاتا تھا اب گلاس میں پانی پیتا ہو گا‘ یاروں دوستوں سے یکدم دوری ہو گئی ہو گی…!!!‘‘ چوہدری صاحب کی آنکھیں اُبل پڑیں۔ ''یہ… یہ سب تمہیں چاند نے بتایا ہے؟‘‘۔ میں نے سگریٹ سلگایا ''نہیں حضور! یہ بتانے اور بوجھنے کی چیزیں نہیں‘ ایسا ہی ہوتا ہے۔ تسلی رکھیں، تین ماہ کی گیم ہے‘ پھر سب ٹھیک ہو جائے گا‘ یہی چاند آپ کو شلوار کے اوپر بنیان پہن کر گھر میں گھومتا نظر آئے گا‘ اس کے کمرے سے غصے بھری آوازیں بھی آنا شروع ہو جائیں گی‘ سسرال کا نام سنتے ہی دانت پیسا کرے گا اور عین ممکن ہے چارپائی صحن میں ڈال کر سونا شروع کر دے۔ ‘‘ چوہدری صاحب کی آنکھوں میں اُمید کی خوشی جھلکنے لگی۔ بے تابی سے بولے ''تین ماہ بعد کیا ہو گا؟‘‘۔ میں نے کش لگایا اور کہا ''ٹارزن کی واپسی‘‘۔
لڑکپن سے ہمارے دماغ میں ایک ہی بات بٹھائی جاتی ہے کہ شادی کے بعد لڑکیاں پرائی ہو جاتی ہیں۔ کوئی یہ نہیں بتاتا کہ لڑکے بھی پرائے ہو جاتے ہیں۔ یہی سوچ ساری زندگی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ لڑکے کے ماں باپ کو ایسا ہی لگتا ہے‘ جیسے ان کا بیٹا ان کی بہو نے چھین لیا ہے۔ ہم اپنی اولاد کی شادی تو خوشی خوشی کرتے ہیں لیکن انہیں زندگی پرانی ہی جینے پر مجبور کرتے ہیں۔ ایک لڑکا‘ جس کی زندگی میں ایک لڑکی بیوی کی شکل میں آتی ہے کیا اسے تھوڑا تبدیل نہیں ہونا چاہیے؟ یہاں تو وہ بوائز کالج میں پڑھنے والے وہ لڑکے جو صبح منہ بھی نہیں دھو کر آتے‘ یونیورسٹی میں آتے ہی روز صبح نہا کر آنا شروع کر دیتے ہیں۔ عورت کا ساتھ انسان میں بہت سی تبدیلیاں لاتا ہے۔ شادی کی صورت میں یہ تبدیلی اور بھی یقینی ہو جاتی ہے لیکن اکثر یہ تبدیلی عارضی ہوتی ہے۔ تین سے چار ماہ کا عرصہ گزرتے ہی ہر چیز پرانی روٹین پر بحال ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ بیوی شروع شروع میں رات کو سوتی بھی میک اپ میں ہے لیکن تین ماہ بعد تیل لگے بالوں کے ساتھ اُسی شوہر کو کہہ رہی ہوتی ہے کہ ''شکیل دو دن سے کچرا اٹھانے والا نہیں آیا‘ یہ دو شاپر بھرے ہوئے ہیں‘ آفس جاتے ہوئے کوڑے دان میں پھینکتے جائیے گا‘‘۔
شادی معمول سے مختلف عمل ہے لہٰذا میاں بیوی کو معمول کی زندگی پر آتے آتے کچھ وقت لگتا ہے۔ شروع شروع میں دونوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ویسے ہی لگیں جیسے شادی والے دن تھے‘ لیکن ایسا ہو نہیں پاتا۔ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے کوئی کب تک بہروپ بدلے۔ دھیرے دھیرے سارے روپ کھلنے لگتے ہیں اور پتا چلتا ہے کہ دونوں طرف تھی ''بکواس‘‘ برابر لگی ہوئی۔ احمد ندیم قاسمی کے مشہور زمانہ افسانے''گھر سے گھر تک‘‘ کی طرح جب قلعی کھلتی ہے تو اندر سے دونوں ایک جیسے نکلتے ہیں۔ شادی کے بعد شروع شروع کے دنوں میں جو شوہر بیوی کے لیے ہر وقت پیزا منگوانے کے لیے تُلا رہتا ہے یک دم اوقات میں آ جاتا ہے اور پھر دونوں اس بات پر متفق ہو جاتے ہیں کہ باہر کی چیزیں اچھی نہیں ہوتیں۔ پھر گھر میں چنے کی دال بھی پکتی ہے اور کریلے بھی۔ ماں باپ عموماً پریشان ہو جاتے ہیں کہ شاید بیٹا ان کے ہاتھوں سے نکل گیا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا (ویسے ہوتا ایسے ہی ہے)۔
عموماً ماں باپ دلی طور پر تو بچے کی شادی کر دیتے ہیں لیکن ذہنی طور پر اسے قبول نہیں کر پاتے۔ لڑکا ایک نئی زندگی کی شروعات کرتا ہے لیکن ماں باپ کو شک پڑنے لگتا ہے کہ اس ساری تبدیلی کی ماسٹر مائنڈ اس کی بیوی ہے۔ بیوی بیچاری تو خود تبدیل ہو چکی ہوتی ہے۔ نیا گھر‘ نیا ماحول‘ نیا رشتہ اور بعض اوقات نیا شہر۔ پتا نہیں کیوں اکثر لڑکے کے ماں باپ کیوں دل کو یہ روگ لگا لیتے ہیں کہ ان کا لڑکا بہت بدل گیا ہے۔ بدلنا تو ہے‘ شادی کی ہے‘ بیوی آئی ہے‘ زندگی کا ہم سفر ملا ہے۔ خوبصورت بات تو یہ ہے کہ شادی شدہ بچوں کی نئی زندگی کا احساس کیجئے‘ اُن کی خوشی کو دل سے محسوس کیجئے‘ انہیں اپنے وقت کو اپنے طریقے سے گزارنے دیجئے۔ رہی بات گھر کی روٹین کی تو میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ تین ماہ کا کشٹ کاٹ لیجئے‘ سب کچھ وہی ہو گا جو تیس سالوں سے اُس گھر میں ہوتا آیا ہے۔
کل چوہدری صاحب گھر تشریف لائے تھے‘ بڑے خوش تھے۔ بتا رہے تھے کہ چاند پھر سے پہلے جیسا ہو گیا ہے‘ چھینک آئے تو بستر کی چادر سے منہ صاف کر لیتا ہے‘ چارپائی پر بیٹھ کر ایک ٹانگ نیچے لٹکا کر کھانا کھاتا ہے‘ سونے سے پہلے دانت صاف کرنا چھوڑ دیے ہیں‘ دوبارہ سے خراٹے لینے شروع کر دیے ہیں… ''اور اُس کی بیوی‘‘ میں نے چونک کر پوچھا۔ چوہدری صاحب نے طمانیت بھری سانس لی… ''وہ اپنی ماں کے گھر گئی ہوئی ہے‘ چاند خود چھوڑ کر آیا تھا…‘‘
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“