کہا جاتا ہے کہ آغاز ہمیشہ مبہم ہوتا ہے۔ اس کہانی کے ساتھ بھی ایسا ہی تھا۔ شاید کہیں دو لاکھ قبل سال شروع ہونے والی کی اس نوع کا نام ابھی کسی نے نہیں رکھا تھا۔ کسی بھی شے کا نام نہیں رکھا گیا تھا۔ یہ سب نام اس نوع نے رکھنے تھے۔
اور جیسا کہ آغاز میں ہوتا ہے، اس کی اپنی جگہ دنیا میں نازک تھی۔ تعداد کم تھی اور علاقہ بھی۔ اس کی آبادی آہستہ آہستہ ہی بڑھی تھی۔ کئی بار کم بھی ہوئی۔ خطرناک حد تک کم۔ اتنی کہ اس کے مٹ جانے کا خطرہ تھا۔
اس نوع کے افراد نہ زیادہ تیز رفتار تھے، نہ زیادہ طاقتور اور نہ ہی اپنی تعداد بڑھانے میں بہت سبک رفتار۔ ہاں، یہ اپنے ارد گرد کے ذرائع سے فائدہ اٹھانے کا فن خوب جانتے تھے۔ آہستہ آہستہ یہ نئے علاقوں میں پھیلتے گئے۔ نئے موسم، نئے شکاری، نئے شکار۔ ماحول اور جغرافیہ کی زنجیریں، جو دوسرے جانوروں کو جکڑ دیتی تھیں، اس نے ان کو توڑ دیا تھا۔ دریا پار کر لئے، سطح مرتفع پر چڑھ گئے۔ پہاڑ عبور کر لئے۔ ساحلی علاقوں میں یہ شیل فِش اکٹھی کرتے۔ میدانی علاقوں میں ممالیہ کا شکار کرتے۔ جہاں پر جا پہنچتے، اس کے مطابق ڈھل جاتے، اس کے مطابق نت نئی جدتیں لے آتے۔
یورپ پہنچے تو انہیں اپنی جیسی مخلوق سے واسطہ پڑا، ان سے ذرا بھاری اور گٹھے ہوئے جسم والے، جو ان سے بہت پہلے سے یہاں پر رہ رہے تھے۔ انہوں نے ان کی ساتھ ملاپ کیا اور جینز کا تبادلہ بھی اور پھر ایک یا دوسرے طریقے سے اس مخلوق کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔
یہی سلسلہ چلتا رہا۔ جس طرح یہ نوع پھیلتی گئی، اسے اپنے سے دگنے، دس گنا یا بیس گنا بڑے جانوروں کا سامنا ہوا۔ بڑی بلیاں، عظیم الجثہ ریچھ، ہاتھی جتنے سائز کے کچھوے، پندرہ فٹ اونچے سلوتھ۔ ایسی انواع جو زیادہ طاقتور بھی تھیں اور خوفناک بھی۔ لیکن بڑھتی کم رفتار سے تھی۔ زمین پر زمانوں سے آباد تھیں۔ ان نوواردوں کی آمد کے بعد مٹتی چلی گئیں۔
اگرچہ یہ نوع خشکی پر رہنے والی تھی ۔۔ لیکن اپنی ایجادات کے ذریعے سمندر پار کرنا سیکھ لیا۔ ان جزیروں پر پہنچ گئی جہاں پر کئی ملین سال سے کوئی دوسرا باہر سے نہیں پہنچا تھا۔ ان میں سے ہر جزیرے پر ارتقا نے مختلف راستہ لیا تھا اور طرزِ زندگی جدا تھا۔ پرندے جو ایک فٹ لمبے انڈے دیا کرتے۔ بکرے کے سائز کے دریائی گھوڑے، بڑی چھپکلیاں۔ علیحدگی کے عادی یہ جاندار نہ اس نئی مخلوق کی آمد کے لئے تیار تھے اور نہ ان جانوروں کے لئے جو یہ اپنے ساتھ لائے تھے (اس کے سب سے زیادہ عام ہم سفر چوہے تھے)۔ ان جزائر پر بھی زندگی کا بڑی تعداد میں خاتمہ ہوتا چلا گیا۔
یہ عمل جاری رہا۔ ہزاروں سال تک۔ یہ مخلوق اب دنیا کے ہر کونے تک پھیل گئی تھی۔ اس نے اپنا نام انسان رکھ لیا تھا۔ اب کئی ایسی چیزیں ہوئیں جس سے اس کے بڑھنے کی رفتار انتہائی تیز ہو گئی۔ سو سال میں دگنی۔ اور پھر دگنی۔ اور پھر دگنی۔ بڑے جنگل صاف کر دئے گئے۔ یہ جان کر کیا گیا تھا کیونکہ کھانا بھی تو تھا۔ لیکن ایک اور چیز جو جان کر نہیں کی گئی وہ زمین کے بائیوسفئیر کی تشکیلِ نو تھی۔ جانداروں کو ایک برِ اعظم سے لے کر دوسرے تک پھیلا دیا گیا۔
ایک اس سے بھی عجیب اور بڑی تبدیلی ہونا شروع ہو گئ۔ توانائی کی تلاش میں زمین کے نیچے ذخائر کو ڈھونڈا گیا اور اس نے ہوا کو بدل دیا۔ اس نے موسم کو اور سمندروں کی کیمسٹری کو۔ کچھ جانور اور پودے ایڈجسٹ کر گئے۔ ہجرت کر لی۔ پہاڑوں پر چڑھ گئے۔ قطبین کی طرف رخ کر لیا۔ لیکن بڑی تعداد، شروع میں سینکڑوں، پھر ہزاروں اور پھر شاید لاکھوں تبدیلی کے اس سیلاب کا مقابلہ نہ کر سکے۔ دنیا سے رخصت ہوئے۔ معدومیت کی رفتار بڑھنا شروع ہوئی، زندگی کا نقشہ بدل گیا۔
اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ کسی مخلوق نے سیارے کو اس طرح نہیں بدلا تھا۔ لیکن معدومیت کے واقعات ہو چکے تھے۔ بہت بہت کم اور ماضی بعید میں سیارہ ایسی تبدیلیوں اور معدومیت کے اودوار سے گزرا ہے۔ ایسے پانچ قدیم واقعات تباہی مچا چکے ہیں۔
یہ شاید اتفاق نہیں ہے کہ جس وقت اس مخلوق کو زمین کی اس تاریخ اور ان واقعات کا علم ہونا شروع ہوا ہے، یہ مخلوق خود اس وقت چھٹا ایسا واقعہ سرزد کرنے کے عمل میں ہے۔ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اس کی شدت پہلے پانچ کے مقابلے میں کیسی ہو گی۔ ماضی میں اس سے راہنمائی نہیں ملتی کیونکہ اس سے پہلے کبھی کسی مخلوق نے سیارے کے تقدیر اپنے ہاتھ میں نہیں لی۔
ایمیزون کے جنگل سے، اینڈیز کی پہاڑیوں تک، عظیم بیرئیر ریف سے ایشیا میں دھوئیں سے بھری فضا تک، یہ بیشتر زمینی مخلوقات کے لئے زیادہ اچھا وقت نہیں۔
موت ایک اداس موضوع ہے اور معدومیت بڑی اداسی کا۔ لیکن زمین پر آج کی کہانی بڑے خوف کے ساتھ بڑی امید کی بھی ہے۔ یہ وقت غیرمعمولی ہے۔ حوصلہ افزا اس مخلوق کی آگاہی ہے۔ مستقبل کیسا ہوتا ہے؟ سب کی نظرییں اس پر ہیں کہ یہ اب آگے کیا فیصلے لے گی۔
یہ ترجمہ اس کتاب سے
The Unnatural History : Sixth Extinction by Elizabeth Kolbertuy