میں اکیلا ایک چٹان کے کنارے کے قریب جا رہا ہوں۔ بہت نیچے سمندر کا شور اور بالکل عمودی ڈھلوان۔ نیلا آسمان۔ خوبصورت اور روشن دن۔ ہوا چہرے سے ٹکرا رہی ہے۔ کوئی اور قریب نہیں۔ میں کنارے سے دس فٹ دور ہوں۔ انسانی جسم کا راڈار قدرتی طور پر موت کے خطرے کو بڑی دور سے بھانپ لیتا ہے۔ جسم اکڑ رہا ہے۔ جلد میں سنسنی سی دوڑ گئی ہے۔ آنکھیں اب ماحول کی ہر تفصیل پر فوکس کر رہی ہیں۔ پاوٗں بھاری لگ رہے ہیں۔ جیسے کوئی مقناطیس چپک جاتا ہے، یہ بھی اب اٹھائے نہیں جا رہے۔ جسم اس جگہ سے خود کو دور لے جانا چاہتا ہے۔
لیکن میں اس مقناطیس سے لڑ رہا ہوں۔ کنارے کی طرف جا رہا ہوں۔ پانچ فٹ دور، ذہن بھی جسم کا ہمنوا بن گیا ہے۔اس پارٹی میں شامل ہو گیا ہے۔ کنارے کے نیچے چٹان نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔ ذہن نے تصور بنانے شروع کر دئے ہیں۔ کہیں الجھ نہ جاوٗں، گر نہ پڑوں۔ یہ باور کروا رہا ہے کہ نیچے سمندر بہت، بہت دور ہے۔ کیا کر رہے ہو؟ رک جاوٗ۔ میں نے اپنے ذہن کو چپ کروا دیا۔ ابھی اور آگے بڑھ رہا ہوں۔
تین فٹ دور، اب جسم مکمل ریڈ الرٹ پر ہے۔ جوتے کے تسمے سے نہ الجھ جاوٗں؟ کوئی ہوا کا تیز جھونکا نہ ساتھ نیچے لے جائے؟ ٹانگیں کاپننا شروع ہو گئی ہیں اور ہاتھ بھی۔ تین فٹ زیادہ تر لوگوں کی اس مقام پر آخری حد ہوتی ہے۔ مرنے کا خطرہ اصل نہیں ہے۔ فزکس کے مطابق اس خوف کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ شدید خوف ذہن کا تخلیق کردہ ہے۔ اب کنارے کے اس قدر قریب کا منظر نظر آ رہا ہے۔ خوبصورت بھی۔ خوفناک بھی۔
ایک چھوٹا قدم، پھر دوسرا ۔۔۔ فاصلہ دو فٹ رہ گیا۔ لرزتی ٹانگوں کے ساتھ ابھی بس نہیں کیا۔ میری لڑائی جسم سے بھی ہے اور ذہن سے بھی ہے۔ یہ زندہ رہنے کی جبلت سے لڑائی ہے۔
اب ایک فٹ رہ گیا ہے۔ اچانک چیخ مار کر رونے کا دل کیا۔ کمر خود ہی جھک گئی ہے۔ جیسے جسم اپنے آپ کو جیسے بچا رہا ہو۔ ہوا اور سوچیں، جیسے دونوں ہی جیسے گھونسے مار رہی ہوں۔ ایک فٹ دور۔ لگتا ہے کہ میں اڑ رہا ہوں۔ اگر نیچے نہ دیکھا جائے تو لگتا ہے آسمان کا حصہ ہوں۔ جسم گرنے کی توقع کرنے لگا ہے۔
یہاں پر نیچے پانی کو دیکھا۔ دائیں طرف دیکھا تو دور کچھ لوگ تصویریں کھینچ رہے ہیں، اپنی دھن میں مگن ہیں۔ صرف ہوا چلتی سنائی دے رہی ہے۔ بے پناہ خوف اور جوش جیسے ایک دوسرے میں ضم ہو گئے ہوں۔ ذہن کو بالکل فوکس کرنا ہے۔ سوچ کو صاف رکھنا ہے۔ یہ ایک مراقبے کی سی کیفیت ہے۔ اپنی موت سے چند انچ کی یہ دوری مائنڈفُل کر دیتی ہے۔ اب میں نے سامنے دیکھا اور اب محسوس کیا کہ میں مسکرا رہا تھا۔ اپنے آپ کو یاد کروا رہا تھا کہ موت خوفناک نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موت کے لئے تیار رہنے یا اس کو خوش آمدید کہنے کا بھی یہ جذبہ قدیم فلسفے سے چلا آ رہا ہے۔ قدیم یونان اور روم کے سٹوائک لوگوں کو کہا کرتے تھے کہ موت کو ہر وقت ذہن میں رکھیں۔ اس طرح زندگی کی نعمت کی قدر کر سکیں گے۔ مشکلات گھبراہٹ کا باعث نہیں بنیں گی۔ سٹوائک سے لے کر کوگنیٹو بیہیوئر تھراپی تک۔ قدیم زمانے سے لے کر آج تک۔ یہ سبق مختلف مذاہب میں، مختلف طریقہ فکر میں دیا جاتا رہا ہے۔ مارک ٹوئین کا کہنا ہے، “موت کا خوف دراصل زندگی کا خوف ہے۔ وہ جو ٹھیک طرح سے جیتا ہے، وہ کسی بھی وقت مرنے کے لئے تیار ہوتا ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اس چٹان کے کنارے پر اب پاوٗں لٹکائے بیٹھ گیا ہوں۔ ہتھیلی کے بل پیچھے جھکا ہوا۔ خوف کچھ کم ہو گیا ہے۔ ذہن سوچ سے خالی ہے۔ نیچے سمندر پر نظر اور صرف اپنے وجود کے ہونے کا احساس۔ بالکل ساکن لیکن جسم میں ایڈرلنین دوڑتی ہوئی۔ ہوا، پانی، دنیا کا کنارہ اور ایک قہقہہ۔ زمین کو چھونا کتنا اچھا لگتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے فانی ہونے کی حقیقت کا سامنا کرنا اس لئے ضروری ہے کہ یہ ہمیں سطحی، نازک اور فضول چیزوں سے آزاد کروا دیتا ہے۔ تھوڑی سی اور شہرت؟ کچھ مزید توجہ؟
اس کے بجائے میں ایک اور بڑا مختلف سوال سوچ سکتا ہوں۔ میں دنیا میں کیا کر کے جاوُں گا؟ کیا نشان چھوڑوں گا؟ اور نہیں، یہ کہیں پر اپنے نام کی تختی یا اگلی نسل کے ناموں کے ساتھ لگا میرے نام جیسے سطحی نشانوں کی بات نہیں۔ کہتے ہیں کہ افریقہ میں ایک تتلی کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ امریکہ میں طوفان لا سکتی ہے۔ تو پھر دنیا میں میں نے اپنے پر کیسے پھڑپھڑائے ہیں؟ میرے لائے ہوئے طوفان کونسے ہیں؟
بیکر لکھتے ہیں کہ یہ زندگی کا واحد اہم سوال ہے اور ہم اس کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتے اور اس کی تین وجوہات ہیں۔ اول تو یہ ایک تو مشکل سوال ہے۔ دوسرا کہ یہ سوال خوفزدہ کرتا ہے۔ تیسرا یہ کہ ہمیں عام طور پر یہ پتا ہی نہیں ہوتا کہ ہم زندگی میں اصل میں کر کیا رہے ہیں۔ اور جب ہم اس سوال سے نظر چراتے ہیں تو پھر معمولی چیزیں یا قابلِ نفرت اقدار ہمیں اغوا کر لیتی ہیں۔ ہماری خواہشوں اور اعمال پر کنٹرول پا لیتی ہیں۔ موت کی اس مستقل نگاہ کے بغیر غیراہم بھی اہم لگنے لگتا ہے۔ ہمارے مستقبل میں کیا ہو گا؟ ہمیں معلوم نہیں لیکن مستقبل میں ہم صرف ایک چیز کے بارے میں یقین سے کہہ سکتے ہیں۔موت۔ ہماری اقدار کو اس حقیقت سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ اور اس سے صلح کا طریقہ اس کو سمجھنے کا ہے۔ پھر ہی ہم ایسی اقدار کا انتخاب آسانی سے کر سکتے ہیں، جو سادہ ہوں، جن کو حاصل کیا جا سکے اور جو اپنے اختیار میں ہوں۔ یہ ایک مطمئن اور خوش زندگی کی بنیاد ہے۔
ارسطو کو سنیں یا کسی اچھے مذہبی راہنما کو، ہاروڈ کے سائیکولوجسٹ کو یا کسی اچھے دانشور کو۔ سب آپ کو بتائیں گے کہ خوشی ایک چیز سے آتی ہے۔ اپنی ذات سے بڑھ کر کسی بڑی چیز کی پرواہ کرنے سے۔ اس یقین سے کہ آپ کسی بڑی شے کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔ اسی کے لئے مسجد یا گرجا جایا جاتا ہے، فیملی کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ پُل اور موبائل فون بنائے جاتے ہیں۔ اس لئے کہ یہ سب کسی بڑے کُل کا حصہ ہے۔ اس کُل کا جس سے ہم واقف بھی نہیں۔ یہ احساس اپنی لافانیت کے پراجیکٹ بنانے سے بڑا ہی مختلف ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو کچھ ہے، میرے لئے ہے۔ جو ہوتا ہے، میری وجہ سے ہوتا ہے۔ تمام مسائل میری وجہ سے ہیں۔ مشکلات مجھ پر ہی آتی ہیں۔ میں اہم ہوں۔ محورِ کائنات ہوں۔ یہ بڑے نشہ آور احساسات ہیں۔ استحقاق کا نشہ۔ اپنی اہمیت کا غرور۔ یہ تنہا کر دیتا ہے، روح کے لئے زہر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت ہم مادی طور پر بے مثال خوشحالی کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن نفسیاتی طور پر بڑی بے معنی اور سطحی چیزوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔دوسروں سے تقاضا کرتے ہیں کہ میرے احساسات کی پرواہ کی جائے۔ کسی بھی کاز کو، اپنے نکتہ نظر کو، دوسروں سے منوانے میں متشدد تک ہو جاتے ہیں۔ برتری کا جھوٹا احساس، کاہلی، کچھ کرنے سے خوف، ناکامی کا ڈر، ذمہ داری قبول نہ کرنا۔۔۔ جدید ذہن کی یہ حالت ایک بیماری ہے۔ اپنے عظیم لگنے اور غیرمعمولی نظر آنے کی دوڑ بھی اس لئے ہے کہ دنیا میں قبولیت ملے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن جب تنہا اس چٹان پر بیٹھا جب اس سب کو دیکھتا ہوں تو یہ سب بدل جاتا ہے۔ مجھے عظیم نہیں بننا، میں پہلے سے ہی عظیم ہوں۔ خواہ کسی بھی دوسرے کو اس بات کا پتا ہو یا نہ ہو۔ اس سے کچھ بھی فرق نہیں پڑتا۔ اس کے لئے مجھے کچھ کر دکھانے کی ضرورت نہیں۔
میں عظیم اس لئے ہوں کہ اس کبھی نہ ختم ہونے والی کنفیوژن اور ایک یقینی موت کے سامنے بھی میں انتخاب کرتا ہوں۔ مجھے کس کی پرواہ کرنی ہے اور کس کی نہیں۔ صرف یہ حقیقت؛ کہ میں اپنی اقدار کا، اپنی زندگی گزارنے کے طریقے کا، اپنی زندگی میں اہم باتوں کا انتخاب کر سکتا ہوں، بڑا خوبصورت اور ہر شے سے آزاد کر دینے والا احساس ہے۔ یہ زندگی کی کامیابی ہے۔ خواہ میرے سر پر چھت نہ ہو اور پیٹ خالی ہو۔
جی ہاں، میں بھی بالآخر مر جاوٗں گا۔ اور اس موت کی صرف اور صرف ایک وجہ ہو گی۔ وہ یہ کہ میں خوش قست تھا کہ مجھے زندگی ملی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے برسوں میں اپنے آپ کو اس حقیقت کا یاد کرواتے رہنے سے ۔۔۔ خواہ مراقبے سے ہو، فلسفہ پڑھنے سے یا پھر ایسے ہی، چٹان کے کنارے بیٹھنے سے ۔۔۔ ذہن کو فوکس رکھنے میں مدد ملی ہے۔ اپنے نازک ہونے کا احساس، اپنی فنا کو قبول کر لینا سب کچھ آسان کر دیتا ہے۔ ۔۔۔۔ میں اپنی زندگی کا خود ذمہ دار ہوں۔ کچھ بھی میرا حق نہیں۔ ناکامیاں اور ڈر زندگی کا حصہ ہیں ۔۔۔۔ یہ سب قبول کرنا آسان ہو جاتا ہے، صرف اس خیال سے کہ گور میں صرف اوروں نے نہیں، میں نے بھی جانا ہے۔ جتنا زیادہ میں اس تاریکی میں گھورتا ہوں، زندگی اتنی ہی روشن ہو جاتی ہے، دنیا اتنی خاموش ہو جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند منٹ گزر گئے۔ اب واپسی کا وقت ہے۔ اپنے پاتھ پیچھے رکھے، آہستہ سے پہلے ایک ٹانگ اور پھر دوسری۔ اور پھر کھڑا ہو گیا۔ زمین چیک کی کہ کوئی پتھر تو نہیں۔ جب یقین ہو گیا کہ سب محفوظ ہے تو واپس اصل دنیا کا رخ کیا۔ پانچ فٹ دور اور پھر دس فٹ۔ جسم واپس نارمل کیفیت میں آ رہا ہے۔ پاوٗں ہلکے ہو رہے ہیں۔ اب زندگی کا مقناطیس واپس کھینچ رہا ہے۔
ایک شخص نظر آیا جو میری طرف آ رہا ہے۔ “میں نے تمہیں کنارے پر بیٹھے دیکھا تھا”۔ میں نے جواب دیا، “ہاں، وہاں نظارہ بہت پیارا ہے”۔ اس کا چہرہ سنجیدہ رہا۔ “سب ٹھیک تو ہے نا۔ تم کیسا محسوس کر رہے ہو؟”۔
میں نے ایک گہرا سانس لیا، مسکرایا اور کہا، “زندہ ۔۔ بہت زیادہ زندہ”۔
میرے اس فقرے نے اس کی سنجیدگی توڑ دی۔ اس کے چہرے پر بھی مسکراہٹ نمودار ہو گئی۔
میں نے اپنے بیگ سے کیمرہ نکال کر اس کی طرف بڑھایا، “کیا آپ یہاں پر میری ایک تصویر کھینچ دیں گے؟”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ مارک مینسن کی کتاب سے لیا گیا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...