میرے اسکول کے زمانے میں میٹرک کے امتحانوں کے نتائج کے بعد کبھی کبھار اخبار کے اندرونی صفحات کے کسی کونے میں ایک کالمی تین چار لائینز کی خبر لگی ہوتی
"ایک خوبرو نوجوان نے میٹرک کے امتحان میں فیل ہونے پہ دل برداشتہ ہو کر ٹرین کے نیچے آکر خود کشی کر لی "
اس دور میں خود کشی کی ایک اور خبر بھی لگتی تھی
" لڑکے لڑکی نے ماں باپ کی ہٹ دھرمی سے تنگ آکر گلے میں پھندا ڈال کر خود کشی کر لی ۔ لڑکا لڑکی شادی کرنا چاہتے تھے مگر دونوں کے ماں باپ اس پہ راضی نہیں تھے ۔
مگر آج کا کوئی اخبار پڑھ لیں، ہر اخبار میں چار پانچ یا اس سے زیادہ لوگوں کی خود کشیاں کرنے کی خبر ہوتی ہیں ۔ ان میں میٹرک میں فیل ہونے یا شادی میں ناکامی پہ کی جانے والی خود کشیاں بہت کم ہوتی ہیں ۔ زیادہ تر فاقوں سے تنگ آکر کی جانے والی خودکشیاں ہوتی ہیں ۔اںڈیا میں ایک ماں نے اپنے بچے کو گرم دودھ دلوانے کے لیے بال کٹوا کر بیچ دیے ۔
کراچی میں سابق پروفیسر اور اس کی بیوی مردہ حالت میں پائے گئے پوسٹ مارٹم رپورٹ سے پتا چلا انہوں نے نو دن سے کھانا نہیں کھایا تھا ۔
کوئی بچیاں برائے فروخت کا پلے کارڈ لیے فٹ پاتھ پہ بیٹھا ہوتا ہے ۔
پرسوں اخبار میں ایک کالمی چھ لائینز کی خبر تھی
" ایک عورت نے اپنی بچی سمیت ٹرین کے نچے آکر خود کشی کر لی۔
تفتیش کرنے پہ پتا چلا یہ اس کا تعلق بہت غریب گھرانے سے تھا ۔ انہوں نے کئی ماہ سے مکان کا کرایہ ادا نہیں کیا تھا جو اب چار ہزار ہو گیا تھا ۔ اس کا خاوند سارا سارا دن گھر سے بایر محنت مزدوری ڈھونڈنے نکل جاتا اور مکان مالک کرایہ کا تقاضہ کرتے ہر روز اس عورت کی تذلیل کرتا ۔ واقعہ سے ایک دن پہلے عورت نے اپنے خاوند سے مکان مالک کے رویے کے بارے میں بتایا اور اس بات پہ خاوند بیوی میں جگھڑا ہوگیا
عورت غربت اور مکان مالک سے ائے دن تذلیل برداشت نہ کر سکی اور گود میں بچی سمیت ٹرین کے نیچے آکر خود کشی کر لی۔
بہت سے لوگ ہیں جو خود کشیاں کر رہے ہیں مگر ان کی خبریں نہیں لگتی کیونکہ وہ ریل گاڑی کے نیچے آکر خود کشی نہیں کرتے وہ "آئی ایم ایف" کی ٹرین کے نیچے آکر خود کشی کر رہے ہوتے ہیں ۔ وہ ریاستِ مدینہ کے سربراہ کے ارد گرد بیٹھے اور اپوزیشن کے " آٹا چینی مافیا کی ٹرین " کے نیچے آکر خود کشیاں کر رہے ہوتے ہیں ۔ عوام کو اپنی ٹرینوں کے نچے کچلنے میں سارے مافیا ایک دوسرے کو ڈرائیور مہیا کردیتے ہیں۔
جو ان خودکشیوں سے بچ جاتا ہے اسے ملکی سلامتی کی ٹرین کے نیچے کچلا جا رہا ہے ۔
" توہین مذہب کی ٹرین " ہزار میل کی رفتار سے دوڑی جا رہی ہے اور جس مسافر کو چاہتی ہے گارڈ اس مسافر کو ڈبے سے نکال کر ٹرین کے نیچے ڈال دیتے ہیں ۔۔
ملک میں ہر طرف لوگوں کو کچلنے والی ٹرین دوڑ رہی ہیں
اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ریاستِ مدینہ کا سر براہ کہہ رہا ہے
مرجانا
مگر
گھبرانا نہیں
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...