سبزہ زار دیکھ کر میں نے گاڑی روکی۔ کیا خوبصورت منظر تھا! ذرا فاصلے پر جھیل تھی۔ نیلے پانیوں کے اندر لہریں دھوپ میں چمک رہی تھیں۔ کنول کے پھول تیر رہے تھے اور سفید پرندے اُن پر اُڑ رہے تھے۔ ہَوا ٹھنڈی تھی۔ درخت جھوم رہے تھے۔ میں گاڑی سے اترا اور موبائل فون کے ضعیف کیمرے سے منظر کی تصویریں لینے لگا۔ اچانک ایک ٹیلے کی اوٹ سے دس بارہ سال کا لڑکا نمودار ہوا‘ اسکے ہاتھ میں لاٹھی تھی جس سے وہ اس ریوڑ کو ہانک رہا تھا جو اسکے آگے آگے بیزاری سے چل رہا تھا۔ میں نے لڑکے پر کوئی توجہ نہ دی لیکن میں ٹھٹھک گیا جب میرے نزدیک آ کر اس نے اچانک سلام دیا اور کہا ’’چاچا! تصویریں کھنیچ رہے ہو؟‘‘ ۔’’چاچا‘‘ کا لفظ یوں بھی چونکانے والا تھا۔ میرے بچوں کے دوست تو مجھے انکل کہتے ہیں! اور انکل ہی ان دنوں باعزت لفظ سمجھا جاتا ہے۔ جبھی تو صدر پاکستان نے بھی چند دن پہلے نوڈیرو میں تقریر کرتے ہوئے بلاول کے انکلوں کو سلام پیش کیا ہے۔ میں نے لڑکے کے سلام کا جواب دیا اور کہا کہ سفر کے دوران یہ منظر دل کو بھایا اور میں رُک گیا۔
’’چاچا! تصویر میں مجھے اور میرے مویشیوں کو نہ آنے دینا‘ تمہارے منظر کی خوبصورتی داغدار ہو جائے گی۔‘‘ میں نے اسے غور سے دیکھا وہ واقعی درست کہہ رہا تھا۔ اُس کے گال پچکے ہوئے تھے‘ رنگ زرد تھا‘ پاؤں میں پشاوری چپل تھی جو کسی زمانے میں سیاہ رنگ کی ہو گی سخت سردی میں اس نے ایک پتلی سی چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ وہ میرے پاس بیٹھ گیا۔ میرے پاس سینڈوچ تھے ایک اسے دیا تو کہنے لگا ’’یہ شاید ڈبل روٹی ہے جو تم کھا رہے ہو۔‘‘ میں نے اسے بتایا کہ اسے سینڈوچ کہتے ہیں‘ اس نے مہربانی کہہ کے لینے سے انکار کر دیا۔ ’’میں صبح‘ باسی روٹی چائے کے ساتھ کھا کر آتا ہوں پھر دن بھر کچھ کھانے کی عادت نہیں ہے۔‘‘
’’تمہارے گاؤں میں سکول نہیں ہے؟‘‘
’’سکول تو ہے‘ ایک ماسٹر بھی ہے جو دن کے وقت اپنے کھیتوں میں بھی کام کرتا ہے۔‘‘
’’تو تم سکول میں پڑھتے کیوں نہیں؟‘‘
وہ عجیب انداز سے ہنسا جیسے مجھے احمق سمجھتا ہوں۔ ’’چاچا! تم بھی مست ہی ہو اور یوں پوچھتے ہو جیسے امریکہ کے رہنے والے ہو۔ میں سکول پڑھوں تو ڈنگر کون چَرائے گا؟ ابا تو زمیندار کے گھر میں کام کرتا ہے۔ زمیندار کی بیگاریں ہی ختم ہونے میں نہیں آتیں‘‘۔’’تمہارے باپ کو زمیندار کتنی تنخواہ دیتا ہے؟‘‘ وہ پھر زہر خند بکھیرنے لگا۔ ’’زمیندار نے کیا تنخواہ دینی ہے۔ مٹی اور راکھ! ہم اس کے مزارع ہیں‘ لیکن چاچا! تم میرا تاریخ جغرافیہ اور حدود اربعہ چھوڑو‘ میرے حالات تمہاری سمجھ میں نہیں آئیں گے کیونکہ تم شہر کے رہنے والے ہو اور شہر کے رہنے والوں کو پاکستان کے اتنے حصے ہی کا علم ہے جتنا حصہ ان کی بیمار نرگسی آنکھوں کو دکھائی دیتا ہے۔ یہ بتاؤ کہ جس وفاقی وزیر نے حال ہی میں سندھ کارڈ کھیلنے کی بات کی ہے یہ وہی تو نہیں جس نے کراچی میں اپنے بیٹے کی شادی پر کُنڈے سے بجلی کا ’’انتظام‘‘ کیا تھا؟ میں بھونچکا رہ گیا۔ کبھی اس کی شکل دیکھتا تھا اور کبھی بوسیدہ چپل کو جو اس کے پاؤں میں تھی۔ کیا یہ بارہ سالہ چرواہا وفاقی وزیر کی تضحیک کرنے کا اہل ہے؟ ’’تم ہمارے وفاقی وزیر کی شان میں گستاخی کر رہے ہو۔ اگر صاحبزادے کی شادی خانہ آبادی پر انہوں نے کُنڈے سے بجلی حاصل کی تو وہ ان کا حق تھا ایک وفاقی وزیر کچھ بھی کر سکتا ہے اور اگر انہوں نے سندھ کارڈ کھیلنے کی بات کی ہے تو ایک وفاقی وزیر کچھ بھی کہہ سکتا ہے تم کون ہوتے ہو اشرافیہ کی تضحیک کرنے والے؟ ’’چاچا! یہاں تو خفیہ اداروں کا کوئی ملازم بھی ارد گرد نہیں جس سے تم خوفزدہ رہتے ہو۔ کم از کم اس جنگل میں تو سچ کہو!‘‘
میں جھینپ گیا اور اُس کی ذہانت پر حیران ہو گیا لیکن فوراً اپنے عزت دار ہونے کا خیال آیا ’’میں کیوں خوفزدہ رہوں؟ میں کسی سے نہیں ڈرتا۔ میں تو وفاقی وزیروں کی دل سے عزت کرتا ہوں۔‘‘ چرواہے نے قہقہہ لگایا اور بیروں سے بھری ہوئی پوٹلی کھول کر میرے سامنے رکھ دی۔ اچانک اس نے ایک اور سوال کیا ’’یہ سندھ کے جس وزیر نے کہا ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل پر ہم پاکستان توڑنا چاہتے تھے کیا یہ وہی ہے جس کی بیگم صاحبہ وفاقی اسمبلی کے سپیکر کے عہدے پر فائز ہیں؟‘‘
’’ہاں! وہی ہیں‘‘ اور میں ڈرنے لگا کہ جانے یہ کیا کہہ دے اور پھر اس نے کہہ بھی دیا۔ ’’تو پاکستان کی سپیکر اس کی بیگم صاحبہ ہیں‘ اسی کو توڑنے کی وہ بات کرتا ہے‘ یہ کس قماش کے لوگ اس ملک پر حکومت کر رہے ہیں؟ یہ جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کرنے کے درپے ہیں اور جس ٹہنی پر بیٹھے ہیں‘ اسی کو کاٹنا چاہتے ہیں۔ یہ کتنے احسان فراموش اور طوطا چشم لوگ ہیں‘ بلکہ انہیں طوطا چشم کہنا دنیا بھر کے طوطوں کی توہین ہے۔ طوطے جیسے بھی ہیں‘ کم از کم دیکھنے میں تو خوبصورت اور معصوم ہیں۔! اور یہ پنجاب کا جو وزیر ہاتھ توڑنے کی بات کرتا ہے کیا یہ وہی ہے جو ایک طویل و عریض جسم کا مالک ہے؟‘‘
’’ہاں ۔ وہی ہے‘‘ میں نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔ ’’واہ! کیا جسم پایا ہے اور کیا دماغ ہے اس کے اندر! اُسے میرا مشورہ پہنچا دینا کہ بات نہ کیا کرے کیوں کہ جیسے ہی وہ بولتا ہے‘ سارا تاثر زائل ہو جاتا ہے! اور یہ وزیراعظم کو کیا سوجھی کہ انہوں نے گوادر کے سمندر میں جنگی جہاز پر کابینہ کا اجلاس منعقد کر ڈالا؟
میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ وزیراعظم آخر ملک کے بادشاہ ہیں‘ سیاہ و سفید کے مالک ہیں جو چاہیں کریں اور پھر گوادر ہمارے ملک کا حصہ ہے! لیکن اس نے نئے نئے نکتے نکالے۔
’’کیا کہا؟ وزیراعظم سیاہ و سفید کے مالک ہیں! سفید تو کچھ رہا ہی نہیں اور سیاہ کا مالک امریکہ ہے خواہ وہ دل ہیں یا اعمال نامے! اور گوادر ملک کا حصہ ہے تو ملک کا حصہ تو وزیرستان اور سوات بھی ہیں اور اورکزئی ایجنسی بھی۔ وزیراعظم وہاں کیوں نہیں جاتے؟ اور کیا وزیراعظم قوم کو بتانا پسند فرمائیں گے کہ جنگی جہاز میں کابینہ کا اجلاس منعقد کرنے پر قومی خزانے سے کتنی رقم خرچ کی گئی اور کابینہ کے کتنے ارکان اپنے خرچ پر گوادر تشریف لے گئے؟‘‘
میں نے اس منہ پھٹ چرواہے سے جان چھڑا لینے ہی میں عافیت سمجھی۔ میں اٹھا اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھا۔ لڑکا ایک بار پھر ہنسا۔ ’’چاچا ! لگتا ہے میری باتیں تمہیں بُری لگیں! لیکن ایک بات اور بھی سُنتے جاؤ۔ میری کوئی بھیڑ اگر ریوڑ سے غداری کرنے کا سوچے تو میں اسے ذبح کر دیتا ہوں‘ تم کیسے لوگ ہو کہ پاکستان توڑنے کی بات کرنے والوں اور علاقائی زہر کے کارڈ کھیلنے والوں کو قومی خزانے سے عیش و عشرت کروا رہے ہو اور کروائے جا رہے ہو؟ تم تو مجھ چرواہے سے بھی گئے گزرے ہو!‘‘